كويت، كابل – القبس: القاعدہ بحیرہ عرب اور خلیج عدن کے درمیان چلنے والے بحری جہازوں کو نشانہ بنانے کی منصوبہ بندی کر رہی ہے۔ اس امر کا انکشاف کویت سے شائع ہونے والے عربی روزنامے “القبس” نے جمعرات کے روز اپنی ایک رپورٹ میں کیا ہے۔
القاعدہ کے حملوں سے متعلق یہ رپورٹ تنظیم کے اس اعلان کے بعد سامنے آئی ہے جس میں دعوی کیا گیا تھا کہ دسمبر کے آخری ہفتے میں افغانستان کے اندر سی آئی اے کی بیس پر خود کش حملہ القاعدہ کی کارروائی تھی۔ یاد رہے کہ اس حملے میں سی آئی اے کے سات ایجنٹ ہلاک ہو گئے تھے۔
باخبر سیکیورٹی ذرائع کے حوالے سے روزنامہ “القبس” کی رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ سیکیورٹی اداروں کو حلیف ممالک نے ایسی خفیہ اطلاعات فراہم کی ہیں جن میں متنبہ کیا گیا ہے القاعدہ نے چند ایسے ممالک میں اپنی صفوں کو دوبارہ منظم کرنا شروع کر دیا ہے جن میں حکومتی عملدرای ندارد ہے اور ان ممالک کی سرحدیں بھی آپس میں ملتی ہیں۔ رپورٹ کے مطابق القاعدہ صومالیہ، یمن اور جبوتی میں خود کو دوبارہ منظم کر رہی ہے اور وہاں اپنے نئے ٹھکانے میں مصروف ہے۔
انہی ذرائع کے مطابق انٹیلجنس رپورٹوں میں خبردار کیا گیا ہے کہ القاعدہ نے اپنے ارکان کو گذشتہ چند مہینوں میں سمندر میں جنگی، مرچنٹ اور مسافر بحری جہازوں کو نشانہ بنانے کی عملی تربیت فراہم کی ہے۔
رپورٹ میں خلیجی ممالک سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ اپنی بندرگاہوں سے بحیرہ عرب اور خلیج عدن کی جانب سفر کرنے والے بحری جہازوں، تیل اور گیس لیجانے والے کنٹینر بردار جہازوں کی حفاظت کے خصوصی انتظامات کریں۔
اخبار نے انٹیلجنس رپورٹوں کے حوالے سے بتایا ہے کہ القاعدہ کو صومالیہ میں اپنی حمایتی ملیشیا کی حالیہ چند “کامیابیوں” سے حوصلہ ملا ہے۔ صومالیہ میں سرگرم ملیشیا نے مغربی ممالک کی جانب سے حکومتی سیکیورٹی اداروں کو اسلحہ کی جو کھیپ ارسال کی تھی وہ ان اداروں تک پہنچنے سے پہلے القاعدہ کے حامی جنگجووں نے اپنے قبضے میں لے لی ہے۔ رپورٹ میں اس بات کی تصدیق کی گئی ہے کہ حکومتی اداروں سے چھینا گیا اسلحہ یمن میں حکومت کے خلاف برسرپیکار القاعدہ کو پہنچایا گیا۔
انٹیلجنس رپورٹوں میں بتایا گیا ہے کہ یمن میں القاعدہ کے ارکان کے پاس جدید دھماکا خیز مواد موجود ہے، جسے سمندر میں بحری جہازوں پر حملوں میں استعمال کیا جا سکتا ہے۔ ان اطلاعات کی سنگینی اس لئے اور بھی دو چند ہو جاتی ہے کیونکہ القاعدہ نے یمن کی مرکزی بندرگاہ کے قریب ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔
اخبار کے مطابق مغربی ممالک کی طرف سے ملنے والی خفیہ معلومات میں القاعدہ کی نئی قیادت کے نام بھی فراہم کئے گئے ہیں۔ ان افراد کے نام اس سے پہلے منظر عام پر نہیں آئے۔
ایک دوسری پیش رفت میں القاعدہ نے جمعرات کو افغانستان میں سی آئی اے کی بیس پر کئے جانے والے خود کش حملے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے اس کارروائی کو پاکستانی علاقوں پر بغیر پائیلٹ کے امریکی جاسوس طیاروں کے حملوں کا ردعمل قرار دیا ہے۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ سی آئی بیس پر حملہ کرنے والے ھمام خلیل محمد ابو ملال کا تعلق اردن سے تھا۔
باخبر سیکیورٹی ذرائع کے حوالے سے روزنامہ “القبس” کی رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ سیکیورٹی اداروں کو حلیف ممالک نے ایسی خفیہ اطلاعات فراہم کی ہیں جن میں متنبہ کیا گیا ہے القاعدہ نے چند ایسے ممالک میں اپنی صفوں کو دوبارہ منظم کرنا شروع کر دیا ہے جن میں حکومتی عملدرای ندارد ہے اور ان ممالک کی سرحدیں بھی آپس میں ملتی ہیں۔ رپورٹ کے مطابق القاعدہ صومالیہ، یمن اور جبوتی میں خود کو دوبارہ منظم کر رہی ہے اور وہاں اپنے نئے ٹھکانے میں مصروف ہے۔
انہی ذرائع کے مطابق انٹیلجنس رپورٹوں میں خبردار کیا گیا ہے کہ القاعدہ نے اپنے ارکان کو گذشتہ چند مہینوں میں سمندر میں جنگی، مرچنٹ اور مسافر بحری جہازوں کو نشانہ بنانے کی عملی تربیت فراہم کی ہے۔
رپورٹ میں خلیجی ممالک سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ اپنی بندرگاہوں سے بحیرہ عرب اور خلیج عدن کی جانب سفر کرنے والے بحری جہازوں، تیل اور گیس لیجانے والے کنٹینر بردار جہازوں کی حفاظت کے خصوصی انتظامات کریں۔
اخبار نے انٹیلجنس رپورٹوں کے حوالے سے بتایا ہے کہ القاعدہ کو صومالیہ میں اپنی حمایتی ملیشیا کی حالیہ چند “کامیابیوں” سے حوصلہ ملا ہے۔ صومالیہ میں سرگرم ملیشیا نے مغربی ممالک کی جانب سے حکومتی سیکیورٹی اداروں کو اسلحہ کی جو کھیپ ارسال کی تھی وہ ان اداروں تک پہنچنے سے پہلے القاعدہ کے حامی جنگجووں نے اپنے قبضے میں لے لی ہے۔ رپورٹ میں اس بات کی تصدیق کی گئی ہے کہ حکومتی اداروں سے چھینا گیا اسلحہ یمن میں حکومت کے خلاف برسرپیکار القاعدہ کو پہنچایا گیا۔
انٹیلجنس رپورٹوں میں بتایا گیا ہے کہ یمن میں القاعدہ کے ارکان کے پاس جدید دھماکا خیز مواد موجود ہے، جسے سمندر میں بحری جہازوں پر حملوں میں استعمال کیا جا سکتا ہے۔ ان اطلاعات کی سنگینی اس لئے اور بھی دو چند ہو جاتی ہے کیونکہ القاعدہ نے یمن کی مرکزی بندرگاہ کے قریب ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔
اخبار کے مطابق مغربی ممالک کی طرف سے ملنے والی خفیہ معلومات میں القاعدہ کی نئی قیادت کے نام بھی فراہم کئے گئے ہیں۔ ان افراد کے نام اس سے پہلے منظر عام پر نہیں آئے۔
ایک دوسری پیش رفت میں القاعدہ نے جمعرات کو افغانستان میں سی آئی اے کی بیس پر کئے جانے والے خود کش حملے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے اس کارروائی کو پاکستانی علاقوں پر بغیر پائیلٹ کے امریکی جاسوس طیاروں کے حملوں کا ردعمل قرار دیا ہے۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ سی آئی بیس پر حملہ کرنے والے ھمام خلیل محمد ابو ملال کا تعلق اردن سے تھا۔
آپ کی رائے