جرمن نژاد امریکی ”فریڈرک ولیم اینگڈہل“ فری لانس صحافی اور ریسرچر ہیں۔ اینگڈہل نے ٹیکساس میں ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ 1969ء سے 1970ء تک سوئیڈن کی ”یونیورسٹی آف اسٹاک ہوم“ سے اکنامکس میں گریجویٹ کیا۔ اس کے بعد فری لانس صحافی اور اکنامسٹ کی حیثیت سے نیویارک اور یورپ میں کام کیا۔ 1999ء میں ”تیل کی عالمی سیاست“ اور ”نیو ورلڈ آرڈر“ پر ”A Century of War: Anglo-American Oil Politics and the New World Order”“ نام سے کتاب لکھی۔ اس نے پوری دنیا میں تہلکہ مچادیا۔ آج کل عالمی حالات پر تبصرے اور تجزیے کرتے ہیں۔
جنوری 2010ء کے شروع میں انہوں نے یمن کی صورتِ حال پر کہا تھا: ”امریکا یمن آپریشن کی آڑ لے کر تیل کی رسد پر کنٹرول کرنا چاہتا ہے۔“ گویا افغانستان، عراق، پاکستان کے بعد اب یمن کی باری آچکی ہے۔ جس طرح امریکی جارحیت اور مداخلت کی وجہ سے ان ممالک کے حالات خراب ہوئے ہیں اسی طرح اب یمن میں بھی ہوں گے۔ 2001ء میں امریکا نے افغانستان پر حملہ کیا تو افغانستان کے حالات خراب ہوئے اور پھر دہشت گردی کے واقعات میں افغانستان پہلے نمبر پر آگیا۔ 2003ء میں جب امریکا نے عراق پر شب خون مارا تو اس کے بعد سے عراق کا پہلا نمبر ہوگیا۔ جب سے پاکستان مبینہ دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ میں فرنٹ لائن اتحادی بنا ہے، ہمارے کمانڈو صدر مشرف نے سب کچھ پیش کیا تب سے وطن عزیز میں خودکش حملے شروع ہوئے۔ بم دھماکوں اور خودکش حملوں سے جہاں قیمتی جانی نقصان ہوا وہاں عالمی سطح پر ملکی ساکھ بری طرح متاثر ہوئی۔ ملک میں بیرونی سرمایہ کاری کے امکانات ختم ہوکر رہ گئے۔ سیاحت کو شدید نقصان ہوا۔ کھیل کے حوالے سے ہونے والی بین الاقوامی سرگرمیاں بھی رُک گئیں۔ امن وامان عنقا ہوگیا۔مشرف کی پالیسیوں کے نتیجے میں دہشت گردی کے واقعات میں دن بدن، سالہ بہ سال اضافہ ہی ہوتا رہا۔ 2008ء میں جب سے پاکستان کے اندرونی معاملات میں امریکی مداخلت بڑھی ہے۔ بلیک واٹر کے اہلکاروں نے سرعام دندنانا شروع کیا اس کے بعد سے حالات خراب سے خراب تر ہی ہوتے چلے گئے۔ یہاں تک کہ 2009ء میں پاکستان دہشت گردی کے واقعات میں پہلے نمبر آگیا۔ 2009ء میں بدترین واقعہ 28 اکتوبر کو پشاور میں ہونے والا کار بم دھماکا تھا جس کے نتیجے میں بچوں اور خواتین سمیت 118/ افراد شہید اور 200 سے زائد زخمی ہوئے۔ سال کے اختتام پر کراچی میں محرم کے جلوس کے دوران ہونے والے حملے سے جہاں 43 جانوں کا نقصان ہوا وہیں 60/ ارب روپے بھی راکھ ہوگئے۔ 2010ء سے ان شاء اللہ پاکستان کے حالات بہتر ہونا شروع ہوگئے ہیں جس کی طرف روزنامہ ”جنگ“ کے انوکھے اور خصوصی میگزین ”کیسا ہوگا 2010؟“ نے بھی اشارہ کیا ہے۔ اس کی کئی وجوہات ہیں۔ پہلی وجہ آزاد عدلیہ کا قیام اور میڈیا کا مثبت کردار ہے۔ دوم کرپشن، لوٹ مار اور خیانت کو طشت ازبام کرنا ہے۔ تیسرا عوامی شعور کا بیدار ہونا ہے۔ چوتھا غیرملکی مداخلت کے خلاف اتفاق رائے ہونا ہے۔ اسی طرح اس سال ڈرون حملے بھی بند ہوجائیں گے۔ سامراج نے اپنا اگلا ہدف تلاش کرلیا ہے۔ یوں 2010ء میں پاکستان کے معاملات پر امریکا کی گرفت ڈھیلی ہوجائے گی۔ اب ہم عالمی حالات کے تناظر میں 2010ء کو دیکھتے ہیں۔اس سال امریکا کا سارا فوکس یمن ہوگا۔ یمن پر حملے کا مقصد جزیرة العرب پر مکمل قبضہ ہے۔ دور اندیشوں کا کہنا ہے 2010ء میں عالمی سطح پر بہت بڑی بڑی تبدیلیاں رونما ہونے والی ہیں جس کی ابتدا لاطینی امریکا کے ملک ”ہیٹی“ میں قیامت خیز زلزلے سے ہوچکی ہے۔ قدرتی آفات کی تاریخ سے پتا چلتا ہے آج پہلے اتنی کثرت سے زلزلے نہیں آتے تھے۔ احادیث میں قرب قیامت کی جو بڑی بڑی نشانیاں بتائی گئی ہیں، ان میں سے ایک یہ ہے زلزلے اور طوفان کثرت سے لے آئیں گے۔ ہم دیکھ رہے ہیں زلزلوں، طوفانوں اور حادثات کی شرح تشویش ناک حد تک اچانک بڑھ گئی ہے۔ احادیث میں آتا ہے آخری زمانے میں عرب چرواہے بلند ترین عمارتیں بنائیں گے۔ 4/ جنوری 2010ء کے شروع میں دبئی میں 160 منزلہ عمارت کا افتتاح کیا گیا ہے۔ 2010ء کے شروع میں پہلے چاند اور پھر صدی کا طویل ترین اور خوفناک سورج گرہن ہوا۔ 2010ء میں چین کا دنیا پر اثرورسوخ میں اضافہ ہوگا۔ امریکی معیشت تباہ ہونے کی وجہ سے دنیا کی نظر اب امریکا کے بجائے چین کی طرف ہی اُٹھ رہی ہیں۔ اس خطے میں بھارت کی بالادستی کا خواب چکنا چور ہوجائے گا۔ اس کا آغاز بھارتی آرمی چیف دیپک کپور کی پاکستان اور چین کو برہنہ دھمکی سے ہوچکا ہے۔ اسی سال مشرقی وسطیٰ میں بھی ڈرامائی تبدیلیاں رونما ہوسکتی ہیں، کیونکہ اسرائیل کا پڑوس ممالک کے ساتھ رویہ انتہائی جارحانہ ہے۔ ہمسائے ممالک کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوچکا ہے۔ وہ کسی وقت بھی متحد ہوکر اسرائیل پر چڑھ دوڑ سکتے ہیں۔ ترک وزیراعظم طیب اردگان نے دوٹوک کہہ دیا ہے اسرائیل نے جارحانہ رویہ نہ بدلا تو کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ 2010ء میں افغانستان میں بھی گھمسان کا رن پڑنے والا ہے۔ اوباما نے جن 30 ہزار امریکی فوجیوں کو افغانستان بھیجنا تھا ان میں سے 80 فیصد نے انکار کردیا ہے۔ اس کے بعد سے امریکی پالیسی سازوں نے طالبان کو حکومت میں باقاعدہ شامل کرنے کا منصوبہ بنالیا ہے تاکہ اس کے خلاف جارحیت اور نفرت میں کمی واقع ہو۔ اس خطے میں امریکی پالیسی کی ناکامی کی وجہ سے امریکی نمایندے ہالبروک بوکھلاہٹ کا شکار ہوچکے ہیں۔ تمام سفارتی آداب کو بالائے طاق رکھتے ہوئے زہریلی دھمکیاں دے رہے ہیں۔امریکی صدر اوباما نے بھی ”کیپٹل ہل“ میں ڈیموکریٹک ہاؤس سے خطاب کرتے ہوئے کہا: ”2010ء انتہائی اہم سال ہوگا۔ اس سال پے درپے آنے والے بحرانوں سے نکلنے میں شاید کامیاب ہوسکتے ہیں۔“ سوال پیدا ہوتا ہے کون سے بحران؟ وہ بحران جن میں اسامہ بن لادن کا اہم کردار ہے۔ آج سے 30 سال پہلے شیخ عبداللہ عزام نے کہا تھا: ”پہلے ہم افغانستان سے روس کو نکالیں گے۔ اس کے بعد امریکی سامراج کو عرب دنیا بلکہ پوری مسلم دنیا سے نکال باہر کریں گے۔“ چنانچہ اس ایجنڈے کے تحت 1975ء سے وہ اس کام میں جت گئے۔ عالم اسلام سے لاکھوں مسلمان نوجوانوں لالاکر افغانستان میں جمع کیا۔ 1986ء میں اس جنگ کا عروج تھا۔ مسلمان نوجوان بڑھ چڑھ کر روسی ٹینکوں پر حملے کررہے تھے۔ امریکی امداد تو آتی رہی لیکن سوویت یونین کا دھڑن تختہ مسلمانوں نے خون کی روشنائی سے ہی کرلیا۔ امریکی چونکہ شیخ عبداللہ عزام کے اس منصوبے سے واقف تھے، چنانچہ سی آئی اے نے 1989ء میں پشاور میں قتل کروادیا۔ اسامہ بن لادن شیخ عبداللہ عزام کا اہم ترین شاگرد تھا۔ سرد جنگ کے خاتمے اور اپنے استاد کی شہادت کے بعد اسامہ نے اس جنگ کا ایک خاکہ تیار کرلیا اور پھر ”القاعدہ“ اس خاکے میں رنگ بھرنے کے لیے جت گئی۔ القاعدہ نے امریکا، یورپ سمیت پوری دنیا میں اپنے علانیہ اور خفیہ ٹھکانے بنائے۔ 1996ء میں افغانستان پر طالبان کی حکومت آئی تو افغانستان کا اپنا ہیڈکوارٹر بنالیا۔ یہاں بیٹھ کر امریکا کو کمزور کرنے کے لیے اس کی معاشی شہ رگ پر حملے کیے۔ ان کا خیال تھا اس سے ایک طرف تو امریکا کی معیشت کمزور ہوگی تو دوسری طرف وہ طالبان پر حملے سے باز رہے گا۔ اسامہ بن لادن نے جو خاکہ تیار کیا تھا اس کے مطابق القاعدہ نے ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر حملے کرکے امریکا کو انسانی تاریخ کی سب سے مہنگی اور سب سے خونیں جنگ میں دھکیل دیا۔دس سالوں سے یہ خوفناک جنگ جاری ہے۔ دونوں طرف سے ہزاروں لاکھوں افراد مارے جاچکے، سیکڑوں معذور ہوئے اور ہزراوں لاپتا ہیں۔ القاعدہ کے خلاف جنگ لڑتے لڑتے امریکی معیشت کا دھڑن تختہ ہوچکا ہے۔ سو سو سال قدیم بینک دیوالیہ ہوچکے ہیں۔ بے روزگاری کی شرح دن بدن بڑھتی ہی چلی جارہی ہے۔ اوباما کے صدر بننے کے بعد سے 72 لاکھ امریکی بے روزگار ہوچکے ہیں۔ 85 ہزار خاندانوں کی ملازمتیں ختم ہوچکی ہیں۔ امریکا کے اندر سے آزادی اور علیحدگی پسند تحریکیں تیز ہوچکی ہیں۔ افغانستان میں ناقابل تلافی جانی ومالی نقصان اُٹھانا پڑرہا ہے، لیکن فتح اور کامیابی کے آثار تک نہیں ہیں۔ ایک بحران ختم ہونے سے پہلے دوسرے بحران میں امریکی پھنس جاتے ہیں۔ 8 سال تک امریکا کے جنونی صدر بش اس بحران سے نکلنے کی کوشش کرتے رہے لیکن ناکام ونامراد ہوئے۔ اس کے بعد اوباما صدر بنے تو انہوں نے تاریخ کی اس بدترین جنگ سے نکلنے کا اعلان کیا لیکن اب وہ بھی دلدل میں دھنستے دکھائی دیتے ہیں۔ ”ٹورانٹوسن“ کے صحافی ودانشور ”ایرک مارگولیز“ نے اسی منظرنامے کو سامنے رکھ کر کہا ہے: ”اسامہ بن لادن اپنی حکمت عملی میں کامیاب دکھائی دیتے ہیں۔ 15 سالہ جنگ کا نقشہ اسامہ کی کامیاب منصوبہ بندی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔“ آپ خود سوچیں! عنقریب جب امریکا افغانستان سے جائے گا تو اس کے پلے کیا رہ جائے گا؟ جانے کے بعد امریکا فاتح کہلائے گا یا افغانستان کے مزاحمت کار؟ کیا اس کے بعد ”واحد سپر پاور“ کی موجودہ حیثیت رہے گی؟ کیا وہ اس قابل ہوگا کہ یمن محاذ پر لڑسکے؟ جبکہ یمن کے 150 جید علماء نے فتویٰ دیا ہے غیرملکی جارحیت اور مداخلت کی صورت میں امریکا کے خلاف جہاد لازمی ہوجائے گا۔ آثار وقرائن بتارہے ہیں 2010ء ہنگامہ خیز ہونے کے ساتھ نتیجہ خیز بھی ہوسکتا ہے!
انور غازی
آپ کی رائے