دارالعلوم زاہدان کے طلباء کی 34 ویں تقریب دستاربندی کا انعقاد

دارالعلوم زاہدان کے طلباء کی 34 ویں تقریب دستاربندی کا انعقاد

دارالعلوم زاہدان (ایران) کے طلباء کی 34 ویں تقریب دستاربندی، کئی سالوں کے وقفے کے بعد، 30 جنوری 2025 کو جمعرات کے روز، ملک بھر سے آئے ہوئے مہمانوں کی شاندار موجودی میں منعقد ہوئی۔
گزشتہ برسوں میں تقریب دستاربندی کے سالانہ جلسے کورونا وائرس کے پھیلاؤ اور حالیہ برسوں میں صوبہ سیستان بلوچستان کے خاص حالات کی وجہ سے منعقد نہ ہوئے تھے۔ اس تقریب میں، جو کئی حصوں میں مختصر انداز میں منعقد ہوئی، حافظانِ قرآن اور حالیہ برسوں میں دارالعلوم زاہدان سے فارغ التحصیل ہونے والے طلباء و طالبات کو دستار فضیلت پہناکر خراج تحسین پیش کیا گیا۔
خراسان سے آئے مہمانوں کی موجودگی اس جلسے میں زیادہ نمایاں تھی۔ ملک کے سنی آباد صوبوں سے علماء اور بعض شخصیات نے اس تقریب میں شرکت کرنے کا ارادہ کیا تھا جنہیں حکام نے روک دیا تھا۔

محفل قرائت قرآن
دارالعلوم زاہدان کے طلباء کی 34 ویں تقریب دستاربندی غیر رسمی طور پر 29 جنوری کی شام کو محفل قرائت قرآن کے پروگرام سے زاہدان کی جامع مسجد مکی میں شروع ہوئی۔ اس محفل میں قرآن کے قاریوں نے تلاوت کی۔
اس کے بعد، مولانا عبدالمجید مرادزہی، اہل سنت کے مصنف اور محقق، اور مولانا ڈاکٹر عبیداللہ بادپا، دارالعلوم زاہدان کے استاد حدیث اور شعبہ تخصصات دعوت و فکر اسلامی کے ذمہ دار نے خطاب کیا۔ آخر میں، شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے 34 ویں تقریب فراغت کے مہمانوں کو خوش آمدید کہا۔

پہلا حصہ/ فراغت یافتہ طلباء 2019 اور 2020 کی دستاربندی
تقریب کا باقاعدہ آغاز جمعرات کی صبح، 30 جنوری کو تھوڑی تاخیر کے ساتھ ہوا۔ اس حصے میں مولوی محمود الحسن ازبکزہی نے پہلے خطاب کیا جو فراغت یافتہ طلباء کی نمائندگی کررہے تھے۔ اس کے بعد زبیر آخوند گلستان سے، مولانا خدابخش اسلام دوست چابہار سے شیخ الحدیث مولانا عبدالرحمان چابہاری کی نمائندگی میں، مولانا محمد طیب ملازہی ایرانشہر سے اور مولانا محمد مفلح افغانستان سے خطاب کیا۔
اس حصے کا اختتام دارالعلوم زاہدان کے فراغت یافتہ طلباء 2019 اور 2020 کی دستاربندی سے ہوا۔
فارغ التحصیل طلباء کے ناموں کے اعلان کے دوران یہ واضح ہوا کہ کئی فارغ التحصیل طلباء گزشتہ سالوں کے دوران انتقال کر چکے ہیں۔ ان میں سے ایک فارغ التحصیل شہید مولوی “امید شہنوازی” تھے جو زاہدان کے خونین جمعہ کے شہداء میں سے ہیں۔ ان کے والد، جو اپنے شہید بیٹے کی تصویر تھامے ہوئے تھے، تقریب میں موجود تھے۔ اس خبر کو سن کر اور مولوی امید شہنوازی کے والد کے منظر کو دیکھ کر تقریب کی فضا میں چند لمحوں کے لیے ایک بھاری اور غمگین خاموشی چھا گئی۔

دوسرا حصہ/ 2021 کے فراغت یافتہ طلباء کی دستاربندی اور 2019، 2020، اور 2021 کی طالبات کی دوپٹہ پوشی
پروگرام کے اس حصے کا آغاز مولانا عبدالغنی بدری کے خطاب سے ہوا، جو دارالعلوم زاہدان کے تعلیمی نائب مہتمم اور تفسیر و حدیث کے ممتاز استاد ہیں۔ مولانا بدری نے بعض نمایاں علماء اور شخصیات کی تقریب میں شرکت پر پابندی کا ذکر کیا، انہوں نے کہا کہ اکثر مہمانوں کو شرکت میں کوئی مشکل نہیں تھی، لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ کردستان، گلستان، خراسان، ہرمزگان، فارس اور تہران سے بعض شخصیات کو تقریب میں شرکت سے روک دیا گیا۔
انہوں نے مختلف انقلابوں میں نوجوانوں کے کردار پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا: ہر تاریخی انقلاب میں نوجوانوں نے ایک اہم کردار ادا کیا ہے۔ صحابہ کرام کے نوجوانوں نے ابتدائے اسلام میں حیرت انگیز کارنامے انجام دیے اور دین کو دنیا کے دور دراز علاقوں تک پہنچایا۔ اللہ تعالیٰ نے جوانوں کو طاقت، قابلیت اور خاص صلاحیتیں عطا کی ہیں اور ان سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ پیغمبروں، خاص طور پر حضرت یوسف علیہ السلام کو اپنی زندگی کے بہترین مثال کے طور پر منتخب کریں۔
جامعہ عین العلوم گشت (سراوان) اور جامعہ احناف خواف (خراسان) کے اساتذہ مولانا عبدالحکیم سیدزادہ اور مولانا گل محمد مومن نے بھی تقریب کے اس حصے میں تقریب کے ہزاروں شرکا سے خطاب کیا۔

آخری حصہ اور 2024 اور قرآن حفظ کرنے والوں 2019، 2020، 2021، اور 2024 کی دستاربندی
تقریب کا آخری حصہ ظہر کی نماز کے بعد شروع ہوا جو تاخیر سے ادا کی گئی اور غروب آفتاب تک جاری رہا۔ اس حصے میں دارالعلوم زاہدان کے ممتاز استاذ الحدیث و صدر دارالافتا مولانا مفتی محمد قاسم قاسمی، شیخ ابراہیم اسماعیلی ہرمزگان سے اور شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے عوام کے ٹاٹیں مارتے ہوئے سمندر سے خطاب کیا۔
انہوں نے 2024 کے فراغت یافتہ طلباء و طالبات اور قرآن حفظ کرنے والوں کو خراج تحسین پیش کیا۔

وہ لمحہ جس کا سب کو انتظار تھا…
اس پروقار تقریب کے آخر میں ممتاز عالم دین اور جامعہ دارالعلوم زاہدان کے صدر اسٹیج پر براجمان ہوئے جنہوں نے دین و دنیا کی بات کی اور ایرانی قوم کے ملی مسائل حل کرنے پر زور دیا۔
مولانا عبدالحمید نے دینی اور دنیاوی علوم کی تعلیم کی اہمیت پر زور دیا، اسلام کو رواداری کا مذہب بتایا اور جہاد کی دفاعی نوعیت کا ذکر کیا۔
انہوں نے واضح کیا کہ علم اور تعلیم صرف مردوں کے لیے نہیں ہیں؛ دونوں خواتین اور مردوں کو اس راہ میں کوشش کرنی چاہیے کیونکہ ہماری قوم کو مذہبی اور دنیاوی امور میں ترقی کے لیے صحیح علماء اور مہذب ماہرین کی ضرورت ہے۔
دارالعلوم زاہدان کے صدر نے اسلام میں اعتدال کی راہ کا بھی ذکر کیا اور کہا: ہم انسانیت کے حق میں سوچتے ہیں اور معاشرے کے لیے خیرخواہ ہیں۔ انبیا علیہم السلام نے انسانیت کی رہنمائی اور اصلاح کے لیے کام کیا ہے۔
انہوں نے اسلام کو “رواداری اور برداشت کا دین” قرار دیا، اور کہا: اسلام میں جہاد، بہت سے علماء کے نقطہ نظر سے، ‘دفاعی جہاد’ ہے، جو ظلم و ستم اور جارحیت کو روکنے کے لیے ہے۔ اسلام تلوار سے نہیں پھیلا، بلکہ اخلاقیات اور قرآن و سنت کے حسین تعلیمات کے ذریعے دنیا پر اثر انداز ہوا۔
مولانا عبدالحمید نے اپنی گفتگو میں ایران کے لوگوں کو درپیش اقتصادی مسائل کا حوالہ دیتے ہوئے سوال اٹھایا: ایران صلاحیت اور قدرتی وسائل کے لحاظ سے دنیا کے امیرترین ممالک میں سے ایک ہے؛ پھر ایرانی عوام کو اقتصادی مسائل کا سامنا کیوں ہے؟ ایرانی عوام کا ایک مطالبہ یہ ہے کہ ملک کے تمام اثاثے اور وسائل ایران میں اور ایرانی عوام کے لیے خرچ کیے جائیں۔
زاہدان کے امام نے ملک میں موجودہ مسائل کی ایک وجہ “کمزور افسران اور حکام کی بھرتی” قرار دی اور کہا: ملک کو مضبوط انتظامیہ اور اجتماعی سوچ کی ضرورت ہے۔
انہوں نے “ایرانی عوام اور سنی علماء کے درمیان یکجہتی” پر اطمینان کا اظہار کیا اور مزید کہا: الحمدللہ آج صوبے اور ملک کے سنی علماء ایک ساتھ کھڑے ہیں، ایک دوسرے کی حمایت کرتے ہیں۔
مولانا عبدالحمید نے سیکیورٹی برقرار رکھنے کی اہمیت پر بھی زور دیا: علاقائی سیکیورٹی برقرار رکھنا بہت ضروری اور اہم ہے۔ مسائل اور مطالبات کو مکالمے، مذاکرات، اور تعمیری تنقید کے ذریعے اٹھایا جانا چاہیے۔
دارالعلوم زاہدان کے شیخ الحدیث نے غزہ سے متعلق مسائل کا بھی ذکر کرتے ہوئے کہا: الحمدللہ اب غزہ میں جنگ‌بندی ہو گئی ہے۔ غزہ کے لوگوں کو ہمدردی اور انسانی امداد کی ضرورت ہے۔ ہم، دنیا کے کئی علاقوں کی طرح، غزہ کے لوگوں کے لیے انسانی امداد جمع کرنی چاہیے اور لوگوں کو اس معاملے پر حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔

آخر میں، مولانا عبدالحمید نے تمام لوگوں اور صوبائی حکام کا شکریہ ادا کیا جنہوں نے اس تقریب کے انعقاد میں تعاون کیا۔ انہوں نے کچھ ممتاز علماء کو کانفرنس میں شرکت سے روکنے پر بھی شکوہ کا اظہار کیا۔

تقریب کا اختتام شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید کی دعا سے ہوا۔


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں