مولانا عبدالحمید ایرانی حکام کو مخاطب کرتے ہوئے:

تم نے ایرانی قوم کو الیکشن سے مایوس کیا

تم نے ایرانی قوم کو الیکشن سے مایوس کیا

شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے انیس مئی دوہزارتئیس کو زاہدان میں ہزاروں فرزندانِ توحید سے خطاب کرتے ہوئے ایرانی انتخابات میں پابندیوں اور امتیازی رویوں پر تنقید کی۔ انہوں نے کہا ناقص الیکشن کی وجہ سے قوم انتخابات سے مایوس ہوچکی ہے ۔ ممتاز عالم دین نے اپنے خطاب میں ملک میں جاری پھانسیوں کی سزاؤں میں تیزی پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا پھانسی سے قوم کو نہیں روک سکتے ہو۔

ترکی صدارتی انتخابات ترقی اور آزاد الیکشن کا نشان تھا
خطیب اہل سنت زاہدان نے ایرانی بلوچستان کے صدرمقام زاہدان میں نماز جمعہ سے پہلے خطاب کرتے ہوئے ترکی میں حالیہ صدارتی انتخابات پر اپنا تبصرہ پیش کیا۔
انہوں نے کہا: ترکی ایک ترقی یافتہ ملک ہے ۔سب سے بڑی ترقی سوچ کی ترقی ہے۔ جب لوگ فراخدلی اور اعلیٰ ظرفی دکھاتے ہیں اور اپنے مخالفین کو برداشت کرتے ہیں۔ ترکی میں صدارتی انتخابات اس ملک کی ترقی کا نشان ہے جہاں حزبِ اختلاف اور حزبِ اقتدار نے سخت مقابلہ کیا۔ کچھ لوگ جنہیں ترکی کے بارے میں کافی معلومات نہیں، یہ سمجھتے تھے کہ وہاں خون خرابہ ہوگا؛ لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا اور دو بندوں میں بھی لڑائی پیش نہیں آئی۔
ممتاز سماجی رہ نما نے کہا: جس مسئلے سے ہم سب متاثر ہوئے الیکشن میں فراڈ کا فقدان تھا۔ حزبِ اقتدار کا نامزد اپنے حریف سے آگے تھا اور وہ فراڈ کرکے الیکشن جیت سکتے تھے، لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا۔ وہ انصاف پر پابند تھے اور انہوں نے فراڈ کے بجائے دوسرے مرحلے میں مقابلہ پر رضامند ہوئے۔ سب مبصرین نے الیکشن کی سالمیت کی تصدیق کردی ہے۔
مولانا عبدالحمید نے مزید کہا: ترکی میں آزاد الیکشن منعقد ہوا؛ ایک طرف ایک اسلام پسند رہ نما کھڑے تھے اور دوسری طرف ایک لبرل شخص جو دین پر عمل کرنے کے حوالے سے پابند نہیں۔ کسی ملک میں یہ دو سوچ آپس میں مقابلہ کرسکتی ہیں اور ان کا مقصد اپنے طورپر ملک کی خدمت کرنا ہے۔ ترکی میں واضح کیا گیا کہ اسلام پسند بھی دوسروں کو برداشت کریں اور لبرل لوگ بھی اسلام پسندوں کو برداشت کریں۔ اسلام دنیا میں ایک ناقابل انکار حقیقت ہے ؛ جو لوگ اسلام کو نہیں جانتے یا دینداری کی نفی کرتے ہیں، وہ دراصل ایک عظیم حقیقت کا انکار کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا: یہ بات واضح رہے جس طرح جمہوریت اور لبرلزم کے جیالوں میں کچھ انتہاپسند عناصر پائے جاتے ہیں، اسی طرح بعض اسلام پسندوں میں بھی انتہاپسند لوگ پائے جاتے ہیں۔ انتہاپسندی کسی بھی جانب سے ہو، ہماری طرف سے مردود ہے۔ ہم اس جمہوریت کو مسترد کرتے ہیں جو آزادی کو سب کے لیے چاہتی ہے سوائے اسلام کے۔ وہ سیکولر لوگ جو اسلام کو برداشت نہیں کرتے ہیں، انہیں بھی ہم غلط سمجھتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کو بھی کسی کے مسلمان ہونے کی کوئی ضرورت نہیں۔ اسلام ہماری ضرورت ہے۔ سب ملکوں کو مسلمانوں اور دیندار لوگوں کو بھی برداشت کرنے کی ضرورت ہے۔ جو دیندار نہیں ہیں، ان کے حقوق کا خیال رکھنا بھی ضروری ہے۔ سب انسان اپنے عقائد سے قطع نظر حقوق کے حقدار ہیں۔
انہوں نے مزید کہا: ترکی انتخابات میں یہ بھی عجیب تھا کہ کچھ دیندار اور نمازی لوگ لبرل سیکولر نامزد کے حق میں ووٹ ڈالتے تھے اور دوسری جانب بھی کچھ لوگ جو دیندار نہیں تھے، انہوں نے اسلام پسند رہ نما کو ووٹ دیا۔ اس ملک میں ووٹ دینا آزاد تھا اور یہی اعتدال کی راہ ہے۔

خواتین اور اہل سنت کو صدارتی الیکشنز میں امیدوار بننے سے منع کرنا آئین کی پہلی بدعت تھی
خطیب اہل سنت زاہدان نے واضح کرتے ہوئے کہا: ایرانی عوام ایک ایسے انتخابات چاہتے ہیں جہاں مختلف سوچ کے حاملین مقابلے کے میدان میں آجائیں؛ اسلام پسندوں کے علاوہ وہ لوگ بھی سامنے آئیں جو مذہبی نہیں ہیں، لیکن ملک کی ترقی و خوشحالی چاہتے ہیں۔ آزاد انتخابات کا مطلب یہی ہے۔ کچھ لوگ ہمیں کہتے ہیں کہ تم اپوزیشن کے ساتھ کھڑے ہو؛ ہم مظلوم کے ساتھ ہیں اور حق کو ساتھ دیتے ہیں۔ ہم ایرانی عوام کے ساتھ ہیں چاہے شیعہ ہوں یا سنی، مسلم ہوں یا غیرمسلم۔ ہم ان غیرمسلموں کے ساتھ ہیں جو ہمارے ملک میں رہتے ہیں اور ان کا حق پامال ہوچکاہے۔ اسلام نے ہمیں سکھایاہے کہ حق کا ساتھ دو، چاہے غیرمسلم ہی حق پر کیوں نہ ہو۔ ہم انصاف اور حریت کے ساتھ ہیں اور اظہارِ رائے کی آزادی کے حق میں ہیں۔
انہوں نے مزید کہا: جب ہم آزادی کی بات کرتے ہیں تو کچھ لوگ ہم پر الزام لگاتے ہیں کہ ہم عریانیت کی حمایت کرتے ہیں۔ ایرانی خواتین پردہ کرتی تھیں، لیکن بلاوجہ ان پر سختی کرکے ان کے حقوق پر ڈاکہ ڈالا گیا؛ نتیجہ یہ ہوا کہ انہوں نے بطورِ احتجاج دوپٹہ اتاردیا۔ تمہیں کہاگیا خواتین کے مسائل حل کرائیں۔ ان ہی خواتین نے کہا ہمارے مسائل حل کریں ہم بڑی چادر ڈھانپ کر پردہ کریں گی۔
شیخ الحدیث دارالعلوم زاہدان نے کہا: اسلامی جمہوریہ ایران کے آئین میں پہلی بدعت یہ سامنے آئی کہ خواتین اور غیرشیعہ شہریوں کو صدر بننے سے منع کیا گیا۔ خواتین سماج کی نصف آبادی ہیں۔ تم نے ایک ایسے آئین کو منظور کیا ہے جس کی بنیاد امتیازی سلوک پر ہے۔ تم نے اسلامی مسالک میں برابری نہیں لائی اور صرف ایک مسلک کو سرکاری حیثیت دے کر دیگر مسالک کو غیرسرکاری قراردی۔ آئین میں دیگر مسالک کے حقوق کو تسلیم کیا گیا، لیکن عمل میں ان کی آزادی پر شبِ خون مارا گیا۔ کام جڑ سے خراب ہے۔ جب خواتین اعلیٰ تعلیم حاصل کرتی ہیں،اور جب سنی شہری اسی ملک کے شہری اور باشندے ہیں، پھر وہ کیوں اپنے ملک کے صدر نہیں بن سکتے ہیں؟بندہ نے بارہا کہا ہے ملک کے تمام مسائل کی جڑ امتیازی سلوک اور پالیسیاں ہیں۔
انہوں نے کہا: آئین میں کچھ ایسی شقیں ہیں جو دنیا کے کسی بھی آئین یا دین کے حصے نہیں ہیں۔ ان کی وجہ سے پورا ملک اپاہچ کا شکار ہے۔ آئین کی اچھی شقوں پر بھی اچھی طرح عملدارآمد نہیں ہوچکاہے۔
ممتاز عالم دین نے کہا: ہم سب ایران کے شہری ہیں اور اس ملک کے نفع نقصان میں برابر کے شریک ہیں۔ عوام خود کو بند گلی میں دیکھتے ہیں؛ ان کی باتوں پر توجہ دیں۔ حقائق کو دیکھیں کہ مشکلات کیسے اور کہاں سے پیدا ہوئے۔ اصلاح پسندوں نے کئی بار حکومت کی، لیکن عوام ان سے مایوس ہوئے۔ آخری الیکشن میں کوشش ہوئی ایک ہی سوچ کا غلبہ ہو اور اقتدار ایک ہی سوچ کے سپرد ہوجائے؛ حالانکہ ملک میں مختلف لسانی اور مذہبی گروہ رہتے ہیں۔ تم چاہتے تھے ایک ہی جماعت عنانِ حکومت سنبھالے جو پوری طرح تابعدار ہو۔ تم نے ایک تابعدار صدر، رکن پارلیمنٹ اور حکومت کی تلاش کی اور اس کا نتیجہ اب تمہارے سامنے ہے۔

ایرانی قوم الیکشن سے مایوس ہوچکی ہے
خطیب اہل سنت زاہدان نے کہا: آخری صدارتی انتخابات میں انقلاب کی پوری تاریخ میں سب سے کم ٹرن آؤٹ دیکھنے میں آیا۔اہل سنت کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔ قدامت پسندوں نے ہمیں کہا تم نے کئی بار اصلاح پسندوں کو تجربہ کیا ہے اور تمہیں خاطرخواہ نتایج حاصل نہیں ہوئے ہیں۔ اب اصول پسندوں کو تجربہ کرو تاکہ کوئی بہانہ باقی نہ رہے۔ ہم نے اصول پسندوں کو بھی تجربہ کیا اور ہم نے کہا شاید ایرانی قوم اور اہل سنت کے لیے آسانیاں پیدا ہوجائیں، لیکن اب ان سے مایوس ہیں۔
انہوں نے مزید کہا: ہم صدر مملکت اور ان کی الیکشن ٹیم سے سخت گلہ کرتے ہیں کہ انہوں نے الیکشن سے پہلے جو وعدے کیے تھے، سب بھول گئے۔ سانحہ زاہدان سے قبل میں نے دو بار تہران کا دورہ کیا اور صدر ہاوس کے ذمہ داران کو سنی برادری پر بڑھتے ہوئے دباؤ سے آگاہ کیا۔ ہمارے متعدد نمازخانے سیل کردیے گئے۔ ایک نمازخانے کے کاغذات کو زبردستی کرکے اپنے نام پر کیا گیا۔ نماز کی وجہ سے سنی شہریوں پر دباؤ ڈالاجارہاہے۔ میں نے ان سے کہا جن علاقوں میں سنی اقلیت میں ہیں، ان پر دباؤ ہے۔ ایسا نہیں ہونا چاہیے۔
مولانا عبدالحمید نے کہا: حالیہ صدارتی انتخابات میں ہم نے ایک قوم کو خود سے ناراض کیا اور الیکشن میں حصہ لینے کی وجہ سے بہت سارے لوگ ہم سے خفا ہوئے۔ پھر بھی توقعات پوری نہیں ہوئیں اور وعدوں پر عمل نہیں کیا گیا۔ آنے والے الیکشنز پر ہمیں کوئی امید نہیں، جب تک کوئی بنیادی تبدیلی ملک میں نہ آجائے۔

سانحہ زاہدان میں عوام کا کوئی قصور نہیں تھا/ صدر مملکت اس حادثے کے بارے میں مزید تحقیق کرے
اہل سنت ایران کے ممتاز عالم دین نے صدر رئیسی کے آٹھ ماہ بعد پہلی دفعہ سانحہ زاہدان کے بارے میں شائع بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا: صدر مملکت نے اپنے دورہ چابہار میں پہلی بار سانحہ زاہدان پر اپنے خیالات کا اظہار کیاہے۔ انہوں نے کہا ہے اس سانحے میں بعض ایسے لوگ جنہوں نے ‘‘توڑپھوڑ’’میں حصہ نہیں لیا ہے، وہ بھی مارے گئے ہیں، اور ان کا حق پامال نہیں ہونا چاہیے۔ یوں لگتاہے سانحہ کی صحیح رپورٹ جنابِ صدر کو موصول نہیں ہوئی ہے۔
زاہدان کے خطیب نے کہا: سانحہ زاہدان میں عوام کا کوئی قصور نہیں تھا۔ اس دن کوئی احتجاج بھی نہیں ہوا اور ہم نے صرف ماضی کے خیرخواہانہ مشورے دہرائے۔ چابہار میں پیش آنے والے واقعے کے بارے میں کہا گیا کہ انصاف سے کام لیاجائے۔ بتایاگیا پرامن احتجاج عوام کا حق ہے اور عوام کو بھی کہا گیا کسی کا نقصان نہیں ہونا چاہیے۔
انہوں نے واضح کرتے ہوئے کہا: جناب صدر کو اگر معلوم نہیں، اب جان لیں کہ تیس ستمبر کا سانحہ پہلے سے طے ہوچکا تھا۔ شواہد سے معلوم ہے کہ جب نمازی معمول کے مطابق نماز پڑھ رہے تھے پولیس سٹیشن سے عوام پر فائرنگ شروع ہوئی۔ اس کے بعد کچھ لوگوں نے پولیس پر پتھراؤ کیا۔ اس سے قبل عوام اور پولیس سٹیشن کے درمیان کوئی مسئلہ نہیں تھا۔
مولانا عبدالحمید نے کہا: یہاں کسی نے توڑ پھوڑ نہیں کیا۔ عوام کو مارنے کے بعد اگر کسی نے توڑ پھوڑ کی کوشش کی ہے، اسے اللہ ہی بہتر جانتاہے اور حکام کو پتہ ہوگا کون ایسا کرنے میں ملوث رہاہے۔ لیکن اس جگہ عوام نماز پڑھنے میں مصروف تھے کہ انہیں ٹارگٹ کیا گیا۔ وزیر داخلہ اس سانحے کے بعد یہاں آئے، لیکن ان کے بیان سے عوام راضی نہ تھے۔ ان کی باتیں حقائق پر مبنی نہ تھیں۔ حکام ذمہ داری قبول کرنے اور حقائق ماننے کے بجائے توجیہ کی کوششوں میں لگے ہوئے تھے۔ انہوں نے عوام کے قتلِ عام کی مذمت نہیں کی۔ صدر مملکت مزید تحقیق کرکے عوام کے مطالبے پر توجہ دیں۔

پھانسی سے اس قوم کو روکنا ممکن نہیں
صدر جامعہ دارالعلوم زاہدان نے ملک میں بڑھتی ہوئی پھانسی کی سزاؤں پر عملدرآمد پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا: یقین کریں کہ پھانسی اور قید و بند سے اس قوم کو روکنا ممکن نہیں ہے۔ حالیہ بڑھتی ہوئی پھانسیوں سے پوری دنیا میں زلزلہ بپا ہوا ہے۔ یہ پھانسیاں کسی بھی بہانے سے ہوں ان کا نقصان دین ہی کو پہنچے گا۔ کسی نے کہا تھا اسلام ہمیں مروارہاہے؛ اس سے میں چونک اٹھا۔ اگر وہ کہتا کہ دین کے نام پر ہمیں مروایاجارہاہے، یہ درست تھا۔ موجودہ پھانسیوں کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں؛ اسلام کی اعتدالی برداشت کے مطابق جو جمہورِ امت اور ہماری برداشت ہے، اس طرح عوام کو پھانسی پر چڑھانا درست نہیں ہے۔
انہوں نے مزید کہا: دنیاوالے ان پھانسیوں کو اسلام کے نام پر نہ سمجھیں۔ اسلام ایسے مسائل سے دور ہے۔ اسلام میں جبری اعتراف کا کوئی اعتبار نہیں اور اس کی بنیاد پر کسی کو سزا نہیں دی جاسکتی ہے۔ میں دین اسلام کا دفاع کرتاہوں اور اس کو اپنی ذمہ داری سمجھتاہوں۔ دنیا کے کسی بھی کونے میں کوئی بھی حکومت لوگوں کو اسلام سے بیزار کرنے کے مجاز نہیں ہے۔
خطیب اہل سنت نے کہا: قید و بند اور دباؤ سے خاطرخواہ نتیجہ سامنے نہیں آتا۔ قوم بھوکی ہے اور خود کو بندگلی میں ذلیل ہوتے ہوئے دیکھتی ہے۔ جب تمہارے تریپن ملین ایک ہزار ڈالر ہے پھر یہ عوام کیسے زندگی گزاریں۔ کون اتنا پیسہ کماسکتاہے جس کے پاس ایک ہزار ڈالر آجائے۔اس مہنگائی سے وزرا، گورنرز اور ارکان پارلیمنٹ بھی مشکلات سے دوچار ہوچکے ہیں۔ وہ زمانہ گزرگیا جب بھوک کے مارے لوگ پتھر پیٹ پر باندھتے تھے۔ اس ملک اور قوم کے لیے کوئی تدبیر کریں۔
انہوں نے کہا: حقائق کو خوب دیکھ لیں۔ خیرخواہوں کی باتوں پر توجہ دیں۔ تم اقتدار کے ایوانوں میں ہو اور بہت سارے مسائل کے بارے میں تمہیں معلوم نہیں کیا ہورہاہے۔ جو لوگ اقتدار میں نہیں ہیں ان سے معلوم کریں۔ افسوس ہے کہ قابل شخصیات کو دور رکھاگیاہے اور ان حالات میں کوئی ملک آنا بھی نہیں چاہتا۔ لہذا حالات کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔
اصفہان میں تین ملزموں کو پھانسی دینے پر تنقید کرتے ہوئے مولانا عبدالحمید نے کہا: اصفہان میں تین افراد کو پھانسی دینا المناک تھا۔ انہیں جبری اعتراف کی بنیاد پر مجرم قرار دے کر پھانسی کی سزا دی گئی۔ ایسی پھانسیوں کو روکنا چاہیے۔ عوام کا تم پر کوئی بھروسہ نہیں ہے۔ ان کا اعتماد حاصل کریں۔ بہت سارے لوگ ہمارے آتے ہیں اور اپنے زخموں کو دکھاتے ہیں کہ جیلوں میں ان کے ساتھ کیا رویہ ہوتاہے تاکہ ان سے اعتراف لیاجائے۔

ہرمند کے پانی کا حصہ ایران و افغانستان کی مشترکہ ٹیمیں حل کرائیں
ممتاز بلوچ عالم دین نے افغانستان سے ایران کے پانی کے حصے کا مسئلہ اٹھاتے ہوئے کہا: ہمارے صدر نے پانی کے حصے میں بارے میں سخت بیان دیاہے اور افغان حکام نے بھی ناراضگی کا اظہار کیاہے۔ سیستان کے عوام سخت مشکل میں ہیں اور اگر وہاں پانی نہ ہو، وہاں رہنا مشکل ہوجائے گا۔ ایران و افغانستان باہمی مفاہمت اور مذاکرے سے اس مسئلے کو حل کرائیں۔ مشترکہ ٹیمیں بنائی جائیں اور سخت بیانات دینے کے بجائے درست طریقے سے مسئلہ حل کرایاجائے تاکہ عوام مطمئن ہوجائیں۔


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں