مولانا عبدالحمید عیدالفطر کی نماز سے پہلے:

اکثریت کے مطالبات کے سامنے سر تسلیم خم کریں

اکثریت کے مطالبات کے سامنے سر تسلیم خم کریں

ایرانی بلوچستان سے تعلق رکھنے والے ممتاز عالم دین نے عیدالفطر کو نفس کے خلاف کامیابی کا جشن یاد کرتے ہوئے کہا: آج کامیاب شخص وہی ہے جس نے اللہ کے احکام کی پیروی کی ہے۔ جن لوگوں نے اللہ کی نافرمانی کی، یہ دن ان کی خوشی کا دن نہیں ہے۔
ہزاروں فرزندانِ توحید سے خطاب کرتے ہوئے مولانا عبدالحمید نے زاہدان کی مرکزی عیدگاہ میں اکیس اپریل دوہزار تئیس بروز عید بیان کرتے ہوئے حکام کو مشورہ دیا قوم کی اکثریت کے مطالبات مان لیں۔

قومی مفادات کو ذاتی یا جماعتی مفادات پر ترجیح دیں
ملک کے معاشی حالات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے ممتاز عالم دین نے حالات کو بہت سخت یاد کرتے ہوئے کہا: ایران بدترین معاشی بحران سے گزررہاہے۔ قومی کرنسی کی قدر بری طرح گرچکی ہے جس سے عوام کی دولت اور پیسے تباہ ہوچکے ہیں۔ یوں لگتاہے حکومت اور اعلیٰ حکام معاشی بحران کو قابو کرنے میں بری طرح ناکام ہوچکے ہیں۔ قومی کرنسی کا بحران حل ہونے والا نظر نہیں آتا، اس مسئلے کے حل کے لیے بنیادی تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔
انہوں نے مزید کہا: افسوس کی بات ہے کہ حکام ملکی مسائل کو قومی مفادات کے زاویے سے نہیں دیکھتے ہیں۔ قومی مفادات بہت اہم ہیں جنہیں دنیا کے ہر ملک میں ترجیح دی جاتی ہے۔ قومی مفادات کو ذاتی، جماعتی اور گروہی مفادات پر ترجیح دینے کی ضرورت ہے۔ جب ذاتی، جماعتی اور گروہی مفادات کو قومی مفادات پر ترجیح دی جائے، تو نتیجہ یہی ہوگا جو اب نظر آرہاے۔
مولانا عبدالحمید نے کہا: افسوس کا مقام ہے کہ ہمارے حکام کی ترجیحات کچھ اور ہیں اور قومی اثاثوں کو لوٹنے میں کسر نہیں چھوڑی گئی ہے۔ انہوں نے اپنی جماعت، رشتے دار اور متعلقین ہی کو قومی اثاثوں سے نوازا ہے؛ حالانکہ یہ دولت پوری قوم کی ہے اور اسی پر خرچ ہونی چاہیے۔ نتیجہ یہ نکلاہے کہ قومی خزانہ خالی پڑا ہے۔

قوم تھک چکی ہے، چھوٹی تبدیلیوں سے کوئی مسئلہ حل نہیں ہوگا
انہوں نے مزید کہا: ایران ایک امیر ملک ہے، لیکن اب اسے غربت کی شکایت ہے۔ قوم کی ناراضگی اور احتجاج بالکل بجا ہے۔ قوم کی دولت کیوں بعض مخصوص لوگوں اور جماعتوں کی جیب میں چلی جائے اور صرف ان ہی کے لوگ اس سے فائدہ اٹھائیں۔ایران کے عوام انصاف اور جائز آزادی چاہتے ہیں۔ حکومتوں کی ذمہ داری ہے اپنے عوام کو بات کرنے اور آزادانہ تنقید کی اجازت دیں۔صحافیوں اور لکھاریوں کو اظہارِ رائے کی آزادی حاصل ہونی چاہیے۔
خطیب اہل سنت زاہدان نے کہا: ایرانی قوم بہت شریف اور قابلِ احترام قوم ہے۔ اسلام اور اسلامی نظام کی خاطر اس قوم نے اب تک مسائل کو برداشت کیا، لیکن اب قوم تنگ آچکی ہے اور بڑی اور بنیادی تبدیلیوں کی شدید ضرورت ہے۔ چھوٹی تبدیلیوں سے ملک میں مثبت تبدیلی نہیں آئے گی اور قوم کی رضامندی حاصل نہیں ہوسکتی ہے۔جب تک لوگ اپنے مطالبات حاصل نہیں کریں گے، اس وقت تک ان کی رضامندی حاصل نہیں ہوسکتی۔ حکام اس بارے میں توجہ دیں۔

سکیورٹی فورسز بھی موجودہ حالات سے ناراض ہیں
داخلہ پالیسیوں میں تبدیلیاں لانے پر زور دیتے ہوئے مولانا عبدالحمید نے کہا: ہمسایہ ممالک سے تعلقات بہتر ہونا خوش آئند بات ہے، یہ ہماری خواہش تھی، لیکن اس سے ملکی مسائل حل نہیں ہوسکتے ہیں۔ تبدیلیاں بڑے پیمانے پر ہونی چاہییں، اور ملک کے تعلقات پوری دنیا کے ممالک سے ٹھیک ہونا چاہیے تاکہ ہمارے قومی مفادات یقینی ہوجائیں۔ داخلی مسائل میں تبدیلی لانا زیادہ اہم ہے۔ جب تک داخلہ پالیسیوں میں نمایاں تبدیلی نہیں آئے گی، قوم کے درد اور دکھ کا مداوا نہیں ہوسکتا۔
انہوں نے مزید کہا: ہم سمجھتے ہیں کہ ایرانی عوام کی اکثریت موجودہ حالات سے مطمئن نہیں ہے، حتیٰ کہ سرکاری ملازمین اور حکام کی سطح تک ناراضگی پائی جاتی ہے۔ سکیورٹی اداروں کے اہلکاروں میں بھی عدم اطمینان کی کیفیت پائی جاتی ہے۔ جب معیشت تباہ ہوتی ہے، سب لوگ دباؤ میں آتے ہیں۔ ملازمین کی تنخواہیں کم ہیں؛ سب پر قرضہ ہے اور وہ مشکل سے زندگی گزربسر کرتے ہیں۔

زاہدان کے خونین جمعہ کے بارے میں اٹھائے گئے اقدامات ناکافی ہیں
زاہدان کے خونین جمعہ میں ملوث بعض اہلکاروں کے ٹرائل پر تبصرہ کرتے ہوئے خطیب اہل سنت زاہدان نے کہا: آج سب کے لیے خوشی کا دن ہے، لیکن ہمارے بہت سارے ہم وطن اپنے عزیزوں کو یاد کرتے ہیں جو گزشتہ مہینوں میں شہید ہوئے۔ اس وجہ سے پوری ایرانی قوم دکھ میں مبتلا ہے، لیکن شہدا اور زخمیوں کے اہل خانہ سب سے زیادہ رنج و غم میں ہیں۔
انہوں نے مزید کہا: زاہدان کے خونین جمعہ کے قاتلوں کے ٹرائل کے لیے کچھ اقدامات اٹھائے گئے ہیں، لیکن یہ ناکافی ہیں۔ ابھی تک شہدا کے پس ماندگان کو مطمئن کرنے والا جواب نہیں ملا ہے۔ عوام انصاف چاہتے ہیں؛ سب ایرانی شہری اس المناک واقعے سے متاثر ہوئے ہیں اور ان کا مطالبہ ہے قاتلوں کے علاوہ وہ افراد بھی عدالت کے سامنے لائے جائیں جنہوں نے قاتل اہلکاروں کو فائرنگ کا حکم دیا تھا۔
صدر جامعہ دارالعلوم زاہدان نے کہا: ہم نے پہلے بھی کہا ہے ہم حق سے ذرہ برابر آگے نہیں جائیں گے اور اپنے حق سے ایک بال کی حد تک کی توقع بھی نہیں رکھتے ہیں۔اگر عدل نافذ ہو، خدا بھی دیکھے گا اور عوام کو بھی اطمینان اور تسلی ہوجائے گی۔ ہمارا خیال ہے جتنے بھی ایرانی احتجاجوں میں قتل ہوئے، وہ مسلح نہیں تھے اور محض احتجاج کی خاطر انہیں فائرنگ سے قتل کیا گیا۔ عوام کو قتل کرنا اسلامی شریعت، بین الاقوامی قوانین اور حتیٰ کہ خود ایران کے قوانین کے مطابق منع ہے۔ حکام عوام سے دلجوئی کی خاطر عملی اقدامات اٹھائیں۔
مولانا عبدالحمید نے سیاسی قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا: پوری قوم کا مطالبہ کہ سیاسی قیدیوں کو رہا کیا جائے جن میں خواتین، نوجوان اور بچے شامل ہیں اور حالیہ احتجاجی تحریک کے دوران گرفتار ہوئے۔ جو کچھ قوم کی اکثریت چاہتی ہے، بالاخر وہی ماننا پڑے گا۔ اللہ کی رضامندی عوام کی رضامندی میں ہے۔ ہم ان ہی لوگوں کے ساتھ رہتے ہیں اور ان ہی کے ساتھ رہیں گے، اور ان کے مطالبات پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

پرامن احتجاج اور تنقید عوام کا حق ہے
انہوں نے بات آگے بڑھاتے ہوئے کہا: ہمارا خیال ہے ہم سب لسانی اور مذہبی برادریوں کے مشترکہ مفادات ہیں اور ہم سب ساتھ ہیں۔ ہمارا سب سے بڑا مطالبہ قومی ہے، پھر لسانی اور مسلکی۔ ہم اپنے ملک کی سرحدوں کی حفاظت پر زور دیتے ہیں اور امن چاہتے ہیں۔ پرامن احتجاج عوام کا حق ہے، انہیں تنقید اور بات کرنے کی اجازت ہونی چاہیے۔ عوامی حکومتیں عوام کے ساتھ ہیں اور انہیں ہرگز عوام کو خود سے ناراض نہیں کرنا چاہیے۔
سرکاری اعلان سے ایک دن پہلے عید اعلان کرنے کے حوالے سے مولانا عبدالحمید نے کہا: ہمارے یہاں متعدد گواہ آئے اور شوال کے چاند ہمارے لیے ثابت ہوا۔ اس لیے عید کا اعلان ہوا اور یہ فقہی مسئلہ ہے۔ عید کے اعلان کے بارے میں ہم کسی بھی ملک کی تقلید نہیں کرتے ہیں۔


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں