مولانا عبدالحمید زاہدان کے اجتماع برائے نماز جمعہ میں:

حکومت اس وقت تک قیمتی ہے جب تک عوامی حمایت اس کیساتھ ہو

حکومت اس وقت تک قیمتی ہے جب تک عوامی حمایت اس کیساتھ ہو

خطیب اہل سنت زاہدان نے ایک بار پھر ایرانی قیدخانوں میں قیدیوں پر تشدد اور ان سے جبری اعتراف لینے کے حوالے سے وارننگ دیتے ہوئے قیدیوں کے انسانی حقوق پر زور دیا۔ انہوں نے کہا ہے حکومت اس وقت تک ایک بیش قیمت چیز ہے جب تک عوام اس کے ساتھ ہوں۔

جبری اعتراف قیدیوں کے حقوق ضائع کرنا ہے
سنی آن لائن نے مولانا عبدالحمید کی آفیشل ویب سائٹ کے حوالے سے رپورٹ دی، خطیب اہل سنت نے تین فروری دوہزار تئیس کے خطبہ جمعہ میں نبی کریم ﷺ کے قیدیوں سے برتاؤ کی یاددہانی کرتے ہوئے کہا: نبی کریم ﷺ نے کسی بھی قیدی کی پٹائی نہیں کی اور انہیں تشدد کا نشانہ نہیں بنایا، حالانکہ وہ آپﷺ کے خونی دشمن تھے۔ بلکہ ان سے محبت کرکے انہیں رہا کردیا۔ حتیٰ کہ آپﷺ کو مشورہ دیاگیا کہ قیدیوں کو ماراجائے تاکہ دشمن سست ہوجائے، لیکن آپﷺ نے ایک قیدی کو بھی نہیں مارا اور انہیں رہا کرکے امید ظاہر کی مستقبل میں وہ حق کو سمجھ لیں۔
انہوں نے مزید کہا: اسلامی تعلیمات اور رسول اللہ ﷺ کی سیرت کے مطابق، قیدیوں سے نرمی کا برتاؤ ہونا چاہیے۔ قیدیوں کی پٹائی اور ان پر بہیمانہ تشدد ناقابلِ قبول ہے۔ قیدی پراعتراف لینے کے لیے تشدد کرنا منع ہے۔ قیدی چاہے مرد ہو یا عورت، اس کا احترام کرنا چاہیے۔ قیدی ایک انسان ہے اور ہر انسان صاحبِ احترام ہے۔ بحیث انسان ہم پر ضروری ہے سب انسانوں کے ساتھ اچھائی کریں، چاہے وہ مسلم ہوں یا غیرمسلم، مرد ہوں یا خواتین۔ اس میں عقیدہ، نسل اور جنس کا کوئی اعتبار نہیں ہے۔
شیخ الحدیث دارالعلوم زاہدان نے کہا: قیدیوں کو مارنا اور ان پر دباؤ ڈالنا جائز نہیں ہے، ان کی توہین کرنا حرام ہے۔ قیدی کو یہ احساس نہیں کرنا چاہیے کہ پوچھ گچھ کرنے والا اس پر حملہ کرنا چاہتاہے۔ جبری اعتراف قیدی کا حق ضائع کرنا ہے۔ یہ اسلام کی تعلیم نہیں ہے۔ پتہ نہیں وہ لوگ جو اس طرح اعتراف لینے کی اجازت دیتے ہیں، ان کا فہم دین کس طرح ہے۔

تنقید کے دروازے بند رکھنے سے موجودہ ملکی مسائل پیش آچکے ہیں
مولانا عبدالحمید نے فراخدلی پر زور دیتے ہوئے کہا: علما اور ناقدین کو جیلوں میں نہ ڈالیں۔ تنقید خیر کا باعث اور علاج ہے۔ ملک کے موجودہ مسائل زیادہ تر اس وجہ سے پیش آچکے ہیں کہ تنقید کے دروازے بند رکھے گئے ہیں۔ شاید کچھ خاص لوگ کسی خاص مقام پر تنقید کرچکے ہیں، لیکن عام شہریوں کو تنقید کی اجازت نہیں دی جاچکی ہے۔
انہوں نے مزید کہا: صحافیوں اور لکھاریوں کو حقایق بیان کرنے میں مکمل آزادی حاصل ہونی چاہیے تاکہ ہم اپنی کمزوریاں ازالہ کرسکیں۔ سب ریاستوں اور حکومتوں سے کہتے ہیں کہ بہترین حکومت وہی ہے جس میں اظہارِ رائے کی آزادی ہو۔ تنقید کی اجازت ہو تاکہ وہاں کے حکام ان تنقیدوں کی روشنی میں درست راستہ اپناسکیں۔ تنقید کے نام پر تخریب اور کردارکشی کے خلاف ہوں اور میرا خیال ہے تنقید تعمیری ہو، اس میں جھوٹ، الزام تراشی اور غلط بیانی نہ ہو۔ رحمت للعالمین اور سیدنا علی اور اہل بیتؓ کی سیرت میں تنقید کو خوش آمدید کہاجاتاہے۔

حکومت کرنا نفاذِ عدل کے لیے ہے پیسہ جمع کرنے کے لیے نہیں!
مولانا عبدالحمید نے کہا: حضرت علیؓ نے فرمایا ہے کہ حکومت کرنا میرے لیے کوئی قیمت نہیں رکھتا، اور میں نے حکومت صرف اس لیے قبول کی ہے کہ عدل و انصاف میرے لیے قیمتی ہے۔ حکومت کی قیمت نفاذِ عدل اور مظلوم کا حق ظالم سے لینے اور عوام کی خدمت میں ہے۔ اسی صورت میں حکومت قیمتی ہوجاتی ہے۔
انہوں نے مزید کہا: حکومت اس وقت تک قیمتی ہے جب تک عوام اسے چاہیں اور اس کا ساتھ دیں، ورنہ حکام کیوں خود کو زحمت میں ڈالیں؟ انہیں کیا ملتاہے؟ حکومت اس دن تک ٹھیک ہے جب تک عوام چاہیں۔ سب سے زیادہ پرسکون زندگی ہماری ہے کہ ہماری کوئی حکومت نہیں ہے، اگر مجھے کوئی عہدہ بھی دیاجائے، میں قبول نہیں کروں گا۔ ہم سکون سے اپنے اہل خانہ، بچوں اور طلبا کے ساتھ ہیں، کیوں اپنا سکون خراب کریں؟! حکومت چلانا اور حکمرانی کا مقصد نفاذِ عدل اور مظلوم کا حق لینا ہے، مادیات اور پیسہ و مال جمع کرنے کے لیے نہیں!
خطیب اہل سنت زاہدان نے کہا: حضرت علیؓ کس قدر متقی انسان تھے کہ انہوں نے درویشی کی حالت میں خلافت قبول کی اور اس حال میں دنیا سے رخصت ہوئے کہ درویش ہی تھے۔ جب امیرالمومنین تھے، انہوں نے کوئی چیز اپنے لیے نہیں لیا۔ حضرت حسنؓ نے چھ مہینے حکومت کی جو بڑی حکومت تھی، لیکن انہوں حضرت معاویہ سے صلح کیا چونکہ مسلمانوں میں اختلاف کے حامی نہیں تھے۔ حضرت حسنؓ سیدنا معاویہ سے مقابلہ کرسکتے تھے اور اکثر مسلمان ان کے ساتھ تھے۔
انہوں نے مزید کہا: آج اگر ہماری زندگی اہل بیت و صحابہؓ کی زندگی سے مطابقت رکھتی، دنیا میں انصاف اور اخلاق کا بول بالا ہوتا۔ اگر کوئی خدا سے محبت کا دعویٰ کرے، لیکن اس کے احکام پر عمل نہ کرے، اس دعوے کی کوئی قیمت نہیں ہے۔ اگر اہل بیت سے محبت کا دعویٰ کریں، لیکن ان کی سیرت پر عمل نہ کریں، دن رات رونے دھونے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ اہل بیت کا محب وہی ہے جو ان کے اخلاق اور عمل کی پیروی کرتاہے۔

مولانا عبدالمجید خیرخواہ شخصیت ہے/ علماکی تنقید برداشت کریں
ممتاز عالم دین نے سنی علمائے کرام پر دباؤ کی تنقید کرتے ہوئے کہا: مولانا عبدالمجید مرادزہی، مولانا گورگیج اور کردستان کے علمائے کرام نے صرف باتیں کی ہیں، بعض نے اگر انٹرویو دیا ہے ان کی باتوں کو برداشت کریں۔ حکومت اور مختلف ادارے اپنی نگاہیں بلند رکھیں۔ علما قوم کے لیے باپ کی مانند ہیں اور سب کے خیرخواہ ہیں۔ ہماری باتیں جذبہ خیرخواہی کے بنا پر ہیں اور ہماری خیرخواہی کسی مخصوص طبقے کے لیے نہیں، سب کے لیے ہے۔ ہماری رائے میں سب انسانوں کے کچھ حقوق ہیں اور سب پر رحم کرنا چاہیے۔ جب ہم دوسروں پر رحم کریں گے، پھر لوگ ہم پر رحم کریں گے۔
انہوں نے دارالعلوم زاہدان کے ساتھی رکن مولانا عبدالمجید مرادزہی کی گرفتاری کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا: مولانا مرادزہی ایک خیرخواہ شخصیت ہیں، اور امید ہے صوبائی حکام کی محنتوں سے جلدازجلد رہا ہوجائیں۔ کردستان کے متعدد علمائے کرام جن کو تنقید کرنے کی پاداش میں پابندِ سلاسل کیا گیا ہے، انہیں بھی رہا کیا جائے۔ سب قیدی جن کا تعلق کسی بھی برادری اور طبقے سے ہے، انہیں بھی رہا کیا جائے۔انہیں دھمکانے اور پوچھ گچھ کا نشانہ نہ بنائیں۔ آزادی و رہائی اچھی چیز ہے۔ اگر ان سے کوئی غلطی ہوئی ہے، ان پر واضح کریں، اگر ان کا کوئی حق ہے، وہ مان لیں۔ خاص طورپر خواتین اور بچے قابلِ رحم ہیں۔

منشیات کے الزام میں پھانسی دینے سے معاشرہ اور ریاست کو کوئی فائدہ نہیں پہنچاہے
مولانا عبدالحمید نے ملک میں بڑھتے ہوئے پھانسی کی سزاؤں پر عملدرآمد کو تشویشناک یاد کرتے ہوئے کہا: کرمان میں ایک ہی وقت میں دو سگے بھائیوں کو پھانسی دی گئی جس سے مجھے سخت صدمہ ہوا۔ یہ کسی جج کی بے رحمی کی انتہا ہے کہ دو بھائیوں کو بیک وقت پھانسی کی سزا دیتاہے۔ میں پھانسی کے خلاف ہوں اور میرا خیال ہے اب تک منشیات کے الزا م میں جتنی پھانسی کی سزائیں دی گئی ہیں، ان کا معاشرہ اور ریاست کے لیے کوئی فائدہ نہیں ہوا ہے۔
انہوں نے مزید کہا: منشیات کو عام لوگ نہیں لاتے ہیں، اس میں بہت سارے ہاتھ شامل ہیں۔ منشیات کے قافلے ہمیشہ آتے رہے ہیں۔ پھانسی کی سزا اس بارے میں ناکام ہوچکی ہے ، میں اس بارے میں بحث کرنے کے لیے تیار ہوں۔ کاش جن لوگوں نے منشیات کے لیے پھانسی کی سزا مقرر کی ہے، وہ قدرے رحم اور شفقت کا خیال رکھتے۔ ہمارے سب قوانین نظرثانی کے محتاج ہیں۔ یہ بچے جو پھانسی کے بعد یتیم ہوتے ہیں ان کی کفالت کون کرتاہے؟ ان کے والد کو تم نے پھانسی پر چڑھائی، کیا پھر انہیں سرپرستی کرسکے؟

ہماری کرنسی کو خطے کی طاقت ورترین کرنسی ہونی چاہیے تھی
خطیب زاہدان نے ملک کے اندرونی مسائل پر توجہ دینے کی ضرورت واضح کرتے ہوئے کہا: یہ اہم ہے کہ حکام کی نگاہیں اندرونی اور داخلی مسائل پر ہوں۔ باہر پر نظریں رکھنے سے اندر پر توجہ دیں۔ حاکمیت خارجہ مسائل میں اپنی نگاہ مصالحت آمیز رکھے، داخلی مسائل میں قوم کو مزید توجہ دے۔ عوام نعرے لگارہے ہیں کہ ہم پر زیادہ توجہ دیں۔
انہوں نے مزید کہا: آج ہمارا پیسہ خطے کی سب سے زیادہ طاقت ور کرنسیوں میں ہوتااگر حکام کی نگاہیں باہر سے زیادہ اندر کے مسائل پر ہوتیں۔ یہ ایرانی قوم کا حق ہے کہ ان کا پیٹ بھر جائے اور ان کی جیب خالی نہ ہو، یہاں تک کہ وہ دوسروں کو بھی کھلاسکیں۔ ہتھیار بنانے میں ملک نے ترقی کی ہے اور یہ ہمارے امن کے لیے اچھا ہے، لیکن اگر نگاہیں مصالحت پر مبنی ہوں، پھر ان اخراجات اور بجٹس کا بڑا حصہ ملک کی ترقی پر خرچ ہوجائے گا۔
انہوں نے یاددہانی کی: صدر روحانی کے دور میں وزیر صنعت اور وائس پرزیڈنٹ سے بات کی ہے اور ان پر واضح کیا ہے صنعت پر تمہاری نگاہیں درست نہیں ہیں۔ میں نے دلیل کے ساتھ واضح کیا ہے انڈسٹری تباہ ہورہی ہے، صنعتکاروں سے ٹیکس نہیں لینا چاہیے۔ صنعت کاروں کی حمایت کرنی چاہیے تاکہ صنعت ترقی کرے۔
مولانا عبدالحمید نے مزید کہا: حکومت کی نگاہ کسی قومیت، مسلک، مذہب اور جماعت سے بالاتر ہو۔ میرا خیال ہے کہ سیکولر لوگوں کو بھی حکومت میں شامل کرنا چاہیے تھا۔ اس بارے میں مجھے ملامت نہ کریں، میں نے دیگر ملکوں کو بھی اس بارے میں خط لکھا ہے۔ لوگ سب دیندار نہیں ہیں، لیکن ان میں قابلیت ہے اور وہ دیانتداری کے ساتھ کام کرسکتے ہیں۔ ان سے کام لیں، یہ درست پالیسی ہے۔
انہوں نے کہا: اگر دنیا کی حکومتوں کے لیے جماعت، قومیت اور مذہب اہم نہ ہو، یہ اس حکومت کے لیے رحمت ہے اور قوم ایسی حکومتوں کو قابلیت کے بنا پر ساتھ دے گی دیانت کے بنا پر نہیں۔ یہ سب قوم کے افراد ہیں۔ نگاہیں درست کرنے کی ضرورت ہے؛ جب تک یہ کام نہ ہوکوئی بھی صدر، ذمہ دار اور حکومت آجائے، مسائل اچھی طرح ٹھیک نہیں ہوں گے۔

قوم کے انسانی حقوق کا دفاع کرتے ہیں، پاداش میں توہین ہوتی ہے
مولانا عبدالحمید نے سرکاری اخبار ‘کیہان’ کے مدیر اعلیٰ کی توہین کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا: ہم نے کہا ہے لوگوں کے انسانی حقوق کا خیال رکھا جائے، کچھ لوگوں نے توہین کی۔ ہم کہتے ہیں امن اور صلح، بعض کہتے ہیں امن نہیں! میں نے عادلانہ صلح کی بات ہے ظالمانہ کی نہیں۔

مساجد پر حملہ کرنے والوں کو اسلام کی بو بھی نہیں لگی ہے
خطیب اہل سنت زاہدان نے پشاور میں ایک مسجد پر دہشت گردانہ حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا: پشاور میں ایک مسجد پر بم دھماکے اور متعدد افراد کی موت سے مجھے سخت دھچکا لگا۔ یہ بہت ہی دلخراش واقعہ تھا۔ یہ کون لوگ ہیں جو مساجد کو اڑاکر تباہ کرتے ہیں؟ اس کی ذمہ داری بظاہر کسی نے قبول نہیں کی ہے، لیکن جس نے ایسا کیا ہے، اسلام کی بو بھی اسے نہیں لگی ہے۔
انہوں نے مزید کہا: یہ لوگ سمجھتے ہیں وہ جنت جائیں گے، لیکن انہیں جنت کے قریب بھی راستہ نہیں دیتے ہیں۔ یہ کیسا دین ہے؟ یہ نبی کریم ﷺ کا دین اور قرآن کا مذہب نہیں ہے کہ مساجد پر حملہ کیا جائے۔ ایسی حرکتیں کہیں بھی ہوں، بہت ہی المناک ہیں۔

خونین جمعہ کے زخمیوں کا مطالبہ ہے حملے کا حکم دینے والوں سزا دی جائے
مولانا عبدالحمید نے گزشتہ دنوں زاہدان کے خونین جمعہ کے زخمیوں سے اپنی ملاقات کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا: تین سو کے قریب زاہدان کے خونین جمعہ کے زخمیوں سے ملاقات ہوئی جن میں پندرہ افراد کی آنکھیں ضائع ہوئی ہیں، بعض کی ریڑھ کی ہڈی ٹوٹ چکی ہے اور وہ ہمیشہ کے لیے صاحب فراش ہوچکے ہیں، بعض کی ٹانگیں کٹ چکی ہیں۔ ان سب کا تقاضا ہے کہ ان پر حملے کا حکم دینے والوں قرارِ واقعی سزا دی جائے۔
انہوں نے اپنے خطاب کے آخر میں زاہدان میں پولیس گردی اور جگہ جگہ ناکہ بندی کو شہر کی معیشت کے لیے نقصان دہ یاد کرتے ہوئے کہا: سکیورٹی کی فضا قائم کرنے سے شہر کی معیشت کو نقصان پہنچتاہے۔ میری اطلاعات کے مطابق بعض سرمایہ کار یہاں سے دیگر اضلاع ہجرت کرنا چاہتے ہیں جس کا نقصان ہم سب کو پہنچتاہے۔ حکام امن کے بارے میں تشویش نہ رکھیں، جب تک عوام امن کا خیال رکھیں کوئی مسئلہ پیش نہیں آئے گا۔ اگر عوام امن نہ چاہیں پھر کوئی انہیں نہیں روک سکتا۔


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں