ایران: مولانا عبدالمجید مرادزہی سمیت متعدد سنی علما گرفتار ہوئے

ایران: مولانا عبدالمجید مرادزہی سمیت متعدد سنی علما گرفتار ہوئے

زاہدان/ سنندج (سنی آن لائن) ایرانی بلوچستان کے ممتاز مصنف اور عالم دین مولانا عبدالمجید کو سوموار(تیس جنوری) کی شام کو زاہدان شہر میں حساس ادارے کے اہلکاروں نے گرفتار کیا ہے۔ اسی روز صوبہ کردستان سے اطلاع آئی کہ کم از کم دو کرد سنی عالم دین کو گرفتار کیا گیا ہے۔
مولانا عبدالمجید مرادزہی زاہدان کے خونین جمعہ کے بعد میڈیا میں سرگرم تھے اور بلوچ شہدا اور زخمیوں کے دفاع میں پیش پیش تھے۔ انہوں نے وائس آف امریکہ سمیت بعض دیگر غیرملکی ٹی وی چینلوں سے گفتگو کرتے ہوئے مولانا عبدالحمید اور زاہدان کے شہدا و زخمیوں کی آواز دنیا تک پہنچائی۔
کردستان میں گرفتار ہونے والے علما کے نام ماموستان لقمان امینی، ماموستا ابراہیم کریمی ہیں۔ اس سے پہلے گرفتار ہونے کرد علما میں ماموستا سید سیف اللہ حسینی، ماموستا محمد خضرنژاد، ماموستا رحمت نصوحی، ماموستا سید سلیمان احمدی، ماموستا یونس نوخواہ، ماموستا سید شریف محمودپور، ماموستا سید جمال الدین واژی، ماموستا حسن فتحی اور ماموستا صاحب احمدی شامل ہیں۔
سرکاری خبررساں ادارہ (ایرنا) نے مولانا مرادزہی کی گرفتاری کی خبر تصدیق کرتے ہوئے لکھا ہے انہیں غیرملکی میڈیا ذرائع سے گفتگو اور ‘رائے عامہ کو منحرف’ کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا ہے۔
مولانا مرادزہی عالمی اتحاد برائے علمائے مسلمین کے رکن، اہل سنت ایران کی مجلس فقہی کے رکن، فاروق اعظم پبلیکیشن اور ثقافتی انجمن المرتضی کے مدیر ہیں۔
منگل اکتیس جنوری کو جامع مسجد مکی میں زاہدان کے خونین جمعہ کے زخمیوں سے خطاب کرتے ہوئے شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے کہا: مولانا عبدالمجید کو میڈیا سے گفتگو کا جواز قرآن پاک نے دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے سورت النسا میں ارشاد فرمایاہے : ‘‘اللہ کو کسی کی بْری بات کا ظاہر کرنا پسند نہیں مگر جس پر ظلم ہوا ہو’’ (148)
انہوں نے مزید کہا: اس سے قبل مولانا مرادزہی کو وارننگ دی گئی تھی کہ وہ میڈیا سے بات نہ کریں، لیکن انہوں نے کہا ہے اہل سنت کا ایران میں کوئی میڈیا نہیں ہے۔ اگر ملک کے اندر ہمارا کوئی میڈیا ذریعہ ہوتا، ہم غیرملکی میڈیا سے بات چیت پر مجبور نہ ہوتے۔ سرکاری میڈیا سرکار کے قبضے میں ہے اور عوام کی آواز نہیں ہے۔
جامعہ دارالعلوم زاہدان کے اساتذہ نے بیان دیتے ہوئے ان گرفتاریوں کی مذمت کی ہے۔ انہوں نے کہا ہے انقلاب سے پہلے انقلابی لیڈروں بشمول آیت اللہ خمینی کے لیے ان ہی میڈیا ذرائع سے بات چیت بالکل ٹھیک تھا اور اب یہ کیسے جرم بن گیا؟
انہوں نے مزید کہا ہے میڈیا سے گفتگو جرم نہیں ہے اور مولانا مرادزہی نے مظلوموں کا دفاع کیا ہے۔ لہذا ان سمیت سب سنی علما کو رہا کیا جائے۔
یاد رہے تیس ستمبر کو زاہدان میں نماز جمعہ کے بعد نمازیوں پر فائرنگ میں کم از کم ایک سو افراد شہید جبکہ تین سو سے زائد افراد زخمی ہوچکے ہیں۔ حکومت نے ابھی تک سکیورٹی اداروں کے خلاف ٹھوس اقدامات اٹھانے اور قاتل اہلکاروں اور ان کے کمانڈروں کو قرارِ واقعی سزا دینے کے لیے کوئی اقدام نہیں اٹھایاہے۔اس دوران ہر جمعے کے بعد جامع مسجد مکی کے مقتدی نماز جمعہ کے بعد احتجاجی مظاہروں میں اپنے مطالبات دہراتے ہیں۔
اطلاعات کے مطابق، زاہدان شہر میں سکیورٹی کی فضا قائم کردی گئی ہے اور شہر کی تمام شاہراہوں پر ناکہ بندی کرکے شہریوں پر کڑی نظر رکھی جارہی ہے۔ درجنوں افراد بشمول چھوٹے بچوں اور نوجوانوں کے گرفتار ہوچکے ہیں جن میں بعض کو رہا کردیا گیا ہے جبکہ بعض کو پھانسی کی سزا ملنے کا خطرہ ہے۔


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں