زاہدان (سنی آن لائن) زاہدان اور خاش سے تعلق رکھنے والے درجنوں علمائے کرام، قبائلی عمائدین اور دانشور حضرات جامع مسجد مکی میں بدھ گیارہ جنوری کو اکٹھے ہوئے جنہوں نے مولانا عبدالحمید سے یکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے ایک بار پھر ان کی حمایت پر زور دیا۔ بلوچ سرکردہ شخصیات نے حاضرین سے خطاب کرتے ہوئے بڑے پیمانے پر مظاہرین کو پھانسی کی سزا دینے اور نوجوانوں کو گرفتار کرنے پر سخت تنقید کی۔
سنی آن لائن کے نامہ نگاروں کے مطابق، بدھ کی عصر کی نماز سے عشا کی نماز تک جاری رہنے والے اجتماع میں شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید، ڈاکٹر باقر کرد، ڈاکٹر عظیم شہ بخش، ڈاکٹر علی رضا زاہدی، ڈاکٹر عزیزاللہ مجاہد، مولوی اسماعیل ریکی، کریم بخش کردی، حاجی صمدخان شاہوزئی، کرنل (ر) عیدوزئی، حاجی کریم گورگیج، عیدمحمد ناروئی، حاجی فاروق کشانی، سردار بہادرخان شہلی بر اور سردار حمید گمشادزہی نے خطاب کیا۔
نشست کے آخر میں ایرانی بلوچستان کی سیاسی و سماجی شخصیات نے بیان شائع کیا۔ بیان میں انہوں نے جامع مسجد مکی زاہدان کو سابق حکومتی عہدیدار جواد لاریجانی کی جانب سے ضرار کہنے اور مولانا عبدالحمید کی شان میں گستاخی کی مذمت کی گئی ہے۔
انہوں نے عدلیہ سے ایسے فرقہ پرست لوگوں کے خلاف اقدام اٹھانے کا مطالبہ کیا۔
بیان میں آیاہے زاہدان اور خاش کے خونین جمعوں سے چارہ ماہ گزرچکے ہیں جہاں ایک سو کے قریب افراد شہید اور تین سو سے زائد افراد زخمی ہوئے ہیں، لیکن قاتلوں کو گرفتار کرنے اور قرارِ واقعی سزا دینے کے سلسلے میں اب تک کوئی خاطرخواہ اور تشفی بخش قدم نہیں اٹھایا گیا ہے۔ الٹا آئے دن نوجوانوں اور بچوں کو اٹھا کر غائب کیا جاتاہے؛ ایسی حرکتیں راکھ کے تلے چنگاری کا کام کرتی ہیں جن کا نتیجہ صوبہ میں بدامنی پھیلنا ہے۔
بلوچ کارکنوں نے کہا ہے مظاہرین کو قتل کرنا اور پھانسی پر چڑھانا کسی مسئلے کا حل نہیں ہے؛ نوجوان ملک کے اثاثے ہیں انہیں قتل نہ کرایا جائے۔ بات چیت اور عوام کی پکار سننے سے کام لیاجائے۔ پرامن مظاہرین پر الزام تراشی اور ان کے لیے کیس دائر کرنے اور انہیں بیرونی طاقتوں سے منسوب کرنا مسائل حل نہیں ہوں گے۔ قیدیوں سے بدسلوکی، تشدد اور جبری اعتراف لینا اور پھر ان اعترافی بیانات کو ٹی وی پر شائع کرنا شریعت، قانون اور اخلاق کے خلاف ہے۔ قیدخانوں پر نگرانی سخت کی جائے۔
زندہ قومیں اپنے حقوق حاصل کرنے کی راہ میں سختی برداشت کرتی ہیں
جامع مسجد مکی کے خطیب اور جامعہ دارالعلوم زاہدان کے صدر نے خطاب کرتے ہوئے مظاہرین اور ناقدین کے ساتھ پیش آنے والے واقعات کے بارے میں حاضرین کی تشویش کے پیش نظر کہا: جب تک کوئی قوم جیل نہ جائے، خون نہ دے اور مسائل کو برداشت نہ کرے، وہ اپنے حقوق حاصل نہیں کرسکے گی۔ میری نظر میں قیدیوں کی رہائی کے لیے ہم کسی سے درخواست نہ کریں؛ بلکہ ہمارا سوال یہ ہونا چاہیے کہ ان افراد کو کیوں گرفتار کیا گیا؟ یہ لوگ اکثر بے گناہ ہیں اور ان کا حق جیل میں رہنا نہیں ہے۔ پھانسی کی سزا پانے والوں کے لیے بھی عاجزانہ تقاضا پیش نہیں کرتے ہیں، بلکہ ہمارا سوال یہ ہے جب انہوں نے کسی کو قتل نہیں کیا ہے، پھر کیوں انہیں موت کی سزا دی گئی ہے؟ پتھر مارنے والے کی سزا پھانسی نہیں ہے۔ ہم قیدیوں اور پھانسی پانے والے سے قانونی دفاع کرتے ہیں۔
مولانا عبدالحمید نے کہا: ہمارے نوجوانوں کو اس حال میں گرفتار کیا جارہاہے کہ درجنوں نمازیوں کو بے دردی سے شہید کرنے کے باوجود جو پورے ملک میں اس کی مثال نہیں ملتی، انہوں نے صبر سے کام لیا۔ ان کا حق جیل میں رہنا نہیں ہے۔ ہم حق ہی پر قائم رہیں گے اور ایک بال کے برابر بھی حق سے آگے نہیں جائیں گے۔ اگر ہم نے ایسا کیا اور کسی نے منع کیا، ہم ضرور اصلاح کریں گے۔
انہوں نے مزید کہا: سنی برادری چار عشروں سے زائد کا عرصہ امتیازی سلوک کا شکار رہی ہے۔ ہمارے خیال میں تیس ستمبر کو زاہدان میں جو واقعہ پیش آیا جہاں ایک سو کے قریب افراد شہید ہوئے اور لگ بھگ تین سو افراد بری طرح زخمی ہوئے، یہ بھی امتیازی سلوک کا نتیجہ ہے۔ جو قوم امتیازی سلوک کا شکار ہوجائے، وہ انزوا کا شکار ہوجائے گی اور اسے مارنا اور اس کے لوگوں کو پھانسی پر چڑھانا آساں ہوجائے گا۔ اسی لیے بلوچوں کا حصہ پھانسی میں پورے ملک میں سب سے زیادہ ہے۔ سنی برادری کو عدلیہ، سکیورٹی اور مسلح اداروں سے دور رکھاجاتاہے اور سب امتیازی سلوک سے نالاں ہیں۔
بات چیت ان سے ہوگی جو مسائل حل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں
حاضرین کے ایک سوال کے جواب میں ممتاز سنی رہ نما نے کہا: ہم ہمیشہ بات چیت اور مذاکرات پر زور دیتے ہیں، لیکن بات چیت ایسے لوگوں سے کریں گے جو ہمارے مسائل کو سمجھنے کے قابل ہو اور پھر انہیں حل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ ہم رجالِ مملکت اور اہل افراد سے گفتگو کریں گے۔ مطالبات کو ہر کسی کے سامنے نہیں رکھیں گے۔ ہر موضوع کو اس کی اہمیت اور سطح کے مطابق متعلقہ افراد کے سامنے پیش کریں گے۔
شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے کہا: ہم نے تہران کوئی مذاکراتی ٹیم نہیں بھیجی، کچھ دوست وکیل لینے کے لیے وہاں گئے تھے۔ تین وکلا اس کیس کو آگے بڑھانے کے لیے لیے گئے، لیکن جب وہ زاہدان آرہے تھے انہیں تہران ایئرپورٹ میں گرفتار کرکے چند دن کے لیے جیل بھیج دیا گیا۔ شہدا کے لواحقین قاتل اہلکاروں کی گرفتاری پر رضامند نہیں ہیں؛ وہ اپنے عزیزوں کے قاتلوں کے قصاص کا مطالبہ کرتے ہیں۔ حکام کو چاہیے اس مطالبے پر توجہ دیں۔
آپ کی رائے