اہل سنت ایران کے ممتاز دینی و سماجی رہ نما نے کہا ہے ‘انقلاب اس وقت تک باقی رہ سکتاہے جب تک لوگ چاہیں’ اور کسی بھی ریاست اور سیاسی نظام کی بقا کا راز ‘عوام کی باتیں سننے اور ان کی رضامندی حاصل کرنے’ میں ہے۔
تئیس دسمبر دوہزار بائیس کو زاہدان میں نماز جمعہ سے پہلے خطاب کرتے ہوئے مولانا عبدالحمید نے کہا: بارہا بتایا گیا کہ 1979ء کے اسلامی انقلاب عوام، علما، دانشوروں اور تاجر برادری کے قیام اور حمایت سے کامیاب ہوا۔ سب لوگ متحد ہوکر انقلاب کی کامیابی کا باعث بن گئے۔ انقلاب زورِ بازو یا فوجی بغاوت کے نتیجے میں نہیں، بلکہ عوامی قوت کی بدولت کامیاب ہوا جس کا مقصد آزادی، نفاذِ عدل، معاشی صورتحال کی بہتری اور اپنی تقدیر ہاتھ میں لینا تھا۔ یہ بات واضح ہے کہ کوئی بھی انقلاب اور نظام اس وقت تک باقی رہ سکتاہے جب تک لوگ چاہیں اور اس کی حمایت کریں۔
انہوں نے مزید کہا: بندوق کی نوک پر اور پولیس گردی سے نظام بچانا ممکن نہیں ہے۔ جیل میں ڈالنے اور زورِ بازو سے حکومت کرنا ممکن نہیں ہے۔ عوامی پشت پناہی ہی سے سیاسی نظام چل سکتاہے۔ اعلیٰ حکام عوام کے ساتھ بیٹھیں اور ان کے مطالبات پر توجہ دیں؛ یہ دیکھیں کیسے ان کی رضامندی حاصل ہوسکتی ہے۔
مولانا نے احتجاج کرنے والوں کے لیے پھانسی کی سزائیں مقرر کرنے پر وارننگ دیتے ہوئے کہا: ارشادِ الہی ہے جس انسان نے کسی کو قتل کر مارڈالا حالانکہ اس نے کسی کو نہیں مارا ہے اور موت اس کی سزا نہیں ہے، اس کا مطلب ہے اس نے پوری دنیا کے لوگوں کو قتل کیا ہے۔ جب ایک انسان قتل ہوتاہے، زمین پر قتل کا رواج ہوتاہے۔ بہت سارے کام سخت ہیں، لیکن جب ایک بندہ وہ کردکھاتاہے، وہی کام آسان بن جاتاہے۔ لوگوں کی جانیں بچانے سے بھی قتل روکنے کا رواج پیدا ہوتاہے۔اسلام میں انسان اپنی جگہ، کسی جانور پر ظلم کرنا جائز نہیں، پھر انسان کی جان لینا کیسے جائز ہوسکتاہے!
پتھر کا جواب گولی نہیں
خطیب اہل سنت زاہدان نے ‘افساد فی الارض’ کی مثال ڈکیتی اور مسلح جھڑپ قرار دیتے ہوئے کہا: احتجاج کرنے والوں کی باتیں سن لیں۔ ہم سب ایران کے شہری اور متحد قوم ہیں۔ اس قوم کے افراد کو چاہیے ایک دوسرے کو مارڈالنے سے گریز کریں۔ سکیورٹی اہلکار عوام کو نہ ماریں اور عوام اہلکاروں کو نشانہ نہ بنائیں۔ ہم سب کا خون ایک ہے۔ جس کے ہاتھ میں پتھر یا لکڑی ہے، اس کے پتھر کا جواب گولی نہیں ہے۔
انہوں نے کہا: لوگوں کو قتل کرنے اور پھانسی پر چڑھانے اور تشدد دکھانے سے مسائل مزید بڑھ جاتے ہیں اور ہم سب کو نقصان پہنچتاہے۔ایران قوم کے سب افراد ہمارے لیے عزیز ہیں؛ چاہے وہ عام شہری ہوں یا کسی مسلح ادارے کے اہلکار۔ سب کے قتل سے ہمیں دکھ ہوتاہے۔
اسلامی حکومت اس وقت تک ٹھیک ہے کہ اکثر لوگ اسے چاہیں
مولانا عبدالحمید نے دین کو دینی حکومت سے الگ کرتے ہوئے کہا: دین اور مذہب دینی حکومت سے قبل بھی تھا۔ سب سے اہم دین کی حفاظت اور بقا ہے۔ دین کو حکومت پر قربان نہیں کرنا چاہیے۔ دین کو ریاست اور نظام کے لیے فدا نہ کریں۔ بلکہ ریاست کو دین پر قربان کریں۔ دین پہلے بھی تھا اور آئندہ بھی رہے گا۔ دین کی حفاظت کی خاطر نظام اور اسلامی حکومت کو قربان کرنا چاہیے۔ اسلامی حکومت اس وقت ٹھیک ہے جب تک لوگوں کی اکثریت اسے چاہیں۔
انہوں نے مزید کہا: اگر عدل و انصاف موجود ہو اور عوامی مطالبات پر توجہ دی جائے، سیاسی نظام ایک صدی سے بھی زیادہ طویل ہوسکتاہے۔ نبی کریمﷺ نے صرف دس سال حکومت چلائی؛ اگر یہ اتنی قیمتی چیز ہوتی، آپﷺ کو اللہ تعالیٰ سینکڑوں برس عمر عطا فرماتے تاکہ حکومت چلائیں۔ لیکن اسلامی حکومت سے زیادہ اہم انصاف، آزادی اور عوام کی رضامندی ہے۔ حضرت علیؓ فرماتے تھے حکومت میرے نزدیک بالکل بے قیمت چیز ہے۔ خلفائے راشدین نے غربت کی زندگی گزاری اور دولت اکٹھی نہیں کی، لیکن دوسروں کے لیے نمونہ بن گئے۔
شیخ الحدیث دارالعلوم زاہدان نے کہا: عوام کی دین بے زاری ہمارے لیے سخت ہے اور انہیں دین کے بارے میں بدگمان نہیں ہونا چاہیے۔ لوگ نبی کریمﷺ، صحابہ اور اہل بیتؓ سے فرار نہ کریں۔ حکام اس بات پر توجہ دیں کہ ان کی وجہ سے لوگ مذہب اور اسلام کے بارے میں بدگمان ہورہے ہیں۔ حکام، علمائے اسلام چاہے شیعہ ہوں یا سنی، اور اسلامی نظام ہائے حکومت اگر دنیا کے کسی بھی کونے میں لوگوں کو اسلام سے بھگاکر متنفر کردیں، یہ گناہ ہوگا۔ لوگوں کو اللہ کی رحمت پر امیدوار بنائیں اور ان پر سختی نہ کریں۔
انہوں نے ماہرین کے ملک چھوڑنے پر ایک بار پھر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا: کسی بھی ملک اور قوم کے لیے اس کا سب سے بڑا اثاثہ اس کی افرادی قوت ہے۔ اس کے سائنسدان، فنکار اور ماہرین ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک نے قوم ہی سے ترقی کی ہے۔ ہمارے ملک نے تعلیم پر بڑا خرچ کیا ہے، لیکن تعلیم حاصل کرنے والے ماہرین اپنے ملک کی جگہ دیگر ملکوں کو آباد و خوشحال کررہے ہیں۔ ان کی واپسی کے اسباب فراہم کرنا چاہیے۔ جب ڈالر کی قیمت چالیس ہزار تومان ہو، وہ کیسے یہاں واپس آئیں گے۔معیشت کی اصلاح ہونی چاہیے۔
افغان خواتین کی تعلیم عالم اسلام کے علما کا تقاضا ہے
مولانا عبدالحمید نے طالبان کی جانب سے افغانستانی خواتین کے لیے یونیورسٹیوں کے دروازے بند کرنے کے فرمان پر تنقید کرتے ہوئے کہا: قابل خواتین کسی بھی قوم کے لیے اثاثہ ہیں۔ اسلامی امارت افغانستان کی قیادت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ خواتین کو اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے مواقع فراہم کریں۔ یہ صرف امریکیوں اور یورپی ممالک کا تقاضا نہیں، پورا عالم اسلام کے علما کا تقاضا بھی ہے۔
انہوں نے مزید کہا: علم حاصل کرنے میں مرد و زن کا فرق نہیں۔ خواتین و حضرات کسی بھی علم کو حاصل کرسکتے ہیں۔ انسان کی ترقی کا راز علم و دانش میں ہے۔ بعض خواتین علم میں مردوں سے بھی آگے ہیں۔افغانستان کے سرمایے علما و دانشور ہیں جو دین و دنیا کو آباد کرتے ہیں۔ افغانستان یا ایران کی خوشحالی عوام سے ممکن ہے۔ ان ملکوں کے اصل اثاثے کان، معدنی وسائل اور زرعی زمینیں نہیں ہیں، اصل اثاثے عوام ہی ہیں۔ ان کی تربیت ہونی چاہیے تاکہ ملک کو آباد کرائیں۔ یہ ہم سب کی خواہش ہے کہ لڑکیوں کی تعلیم کا راستہ کھلا ہو۔
کوئی بھی حاکم شریعت کے حکم کے خلاف قتل کا حکم نہیں دے سکتاہے
صدر دارالعلوم زاہدان نے قیدیوں سے برتاؤ کے بارے میں اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا: پھانسی اور محاربہ کی سزائیں، جیلوں میں ٹارچر اور ایسے مسائل جنہیں زبان پر نہیں لایاجاسکتا کو ختم کرنا چاہیے۔ کس نے ایسی حرکتوں کا جواز پیش کیا ہے؟اسلامی شریعت کے قوانین معلوم ہیں۔ حکام اور ججز کو چاہیے اسلامی قوانین کی حدود میں کام کریں؛ کسی ملزم سے زبردستی اور پٹائی کرنے سے اعترافی بیان لینا جائز نہیں۔ جس نے کسی کو قتل نہیں کیاہے، اسے قتل کرنا جائز نہیں ہے۔
انہوں نے مزید کہا: کسی حاکم کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ اللہ کے حکم سے بڑھ کر فیصلہ سنائے اور ہمارے ملک میں قانون سے کوئی بھی شخص بالاتر نہیں ہے۔ مجھے حیرت ہوتی ہے بعض لوگ کہتے ‘ولی امر’ جو حکم دینا مناسب سمجھے، وہی درست ہے۔ اہل سنت کے عقائد میں ایسا درست نہیں ہے۔ ہمارے عقیدے میں نبی کریمﷺ جن سے بڑھ کر کوئی نہیں، اپنی طرف سے کچھ نہیں کہہ سکتے تھے جب تک ان پر وحی نہ اترتی۔ آپﷺ بھی وحی کے تابع تھے اور یہی حکم تھا قرآن پاک کا۔
شیخ الحدیث دارالعلوم زاہدان نے کہا: ہماری رائے میں حاکم اور ولی امر اللہ کا حکم معطل نہیں کرسکتا۔ کوئی ‘اولی الامر’ کسی شہری کے قتل کا حکم نہیں دے سکتا جب تک شریعت اسلام اس کی اجازت نہ دے۔ کوئی بھی ولی امر کسی بھی سطح تک پہنچے، وہ پھر بھی اسلامی قوانین کی حدود ہی میں حکم دے سکتاہے۔ اسلام کی مصلحت سے بڑھ کر کوئی مصلحت نہیں ہوسکتی۔ ریاست کے مفادات اور مصلحت اسلام کی حدود میں ہوں۔ اگر اسلام نے کسی امر کو ناجائز قرار دیاہے، ریاست کے مفادات کی خاطر وہ جائز نہیں ہوسکتا۔ حاکم بال کے برابر بھی شریعت سے آگے نہیں جاسکتاہے۔
فوجی اپنی چھاؤنیوں میں ٹھہرے رہیں
زاہدان کے خونین جمعہ کی جانب اشارہ کرتے ہوئے مولانا عبدالحمید نے کہا: یہ ابھی تک ہمارے لیے سوال ہے کہ جو لوگ محض نماز پڑھنے کے لیے آئے تھے، انہیں کیوں قتل کیا گیا۔ زاہدان کے عوام باربار یاددہانی کرتے ہیں کہ خونین جمعہ کے کیس کی پیروی کروں۔ اس بارے میں عدالت لگی ہے اور اگلے جمعے کو اس بارے میں کارگزاری دیں گے۔
انہوں نے کہا: ہم بھی ایرانی اور اسی ملک کے شہری ہیں۔ میری نصیحت ہے کہ ایرانی شہریوں کو نہ ماریں۔ کوئی بھی حکومت اس طرح اپنے شہریوں کو قتل نہیں کرتی ہے۔ مسلح اداروں کے اہلکاروں کو اپنی چھاؤنیوں میں رہنے دیں۔ اگر کسی نے بسیجی اہلکاروں کو قتل کیا تم اس کا قصاص لیتے ہو، انصاف کریں اور بلاوجہ عوام کو قتل کرنے والے اہلکاروں کو بھی قصاص کریں اور موت کی سزا دیں۔ سب شہری پرامن احتجاج کریں۔ حکام بھی اپنے شہریوں پر رحم کریں اور مختلف طبقوں کے لوگوں کو رہا کریں۔ نرمی دکھائیں اور ان لوگوں سے بات چیت کریں۔
خطیب اہل سنت نے کہا: حالیہ دنوں علمائے اہل سنت اور مدارس کے مہتممین زاہدان میں اکٹھے ہوئے اور انہوں نے بیان دیتے ہوئے علما سے دباؤ ختم کرنے کا مطالبہ پیش کیا۔ امید ہے عدالت طلب ہونے والے علما کی طلبی ختم ہوجائے اور جو جیلوں میں قید ہیں، انہیں رہائی مل جائے۔
آپ کی رائے