مولانا عبدالحمید:

لوگوں کو قتل کرنے سے یہ احتجاج بند نہیں ہوگا

لوگوں کو قتل کرنے سے یہ احتجاج بند نہیں ہوگا

خطیب اہل سنت زاہدان نے جمعہ نو دسمبر کو نماز جمعہ سے پہلے بیان کرتے ہوئے تہران میں احتجاج کرنے والے ایک شہری کی سزائے موت پر عملدرآمد کو اسلامی شریعت کے خلاف قرار دیا۔ انہوں نے کہا عوام کا احتجاج قتل کرنے اور مارنے سے نہیں رکے گا۔
مولانا عبدالحمید نے زاہدان میں ہزاروں فرزندانِ توحید سے خطاب کرتے ہوئے کہا: نوجوان شہری (محسن شکاری) جنہیں تہران میں پھانسی کی سزا دی گئی کے واقعے سے مجھے افسوس ہوا۔ ایک ایسے شخص کو سزائے موت دینا جس نے کسی کو قتل نہیں کیا ہے، صرف روڈ بلاک کرکے ایک بسیجی اہلکار کو چاقو سے زخمی کیاہے، شریعت کی رو سے ایسے فرد کو موت کی سزا نہیں دی جاسکتی ہے۔ اگر کوئی محارب بھی ہو، جب اس نے کسی کو قتل نہیں کیا ہے، اس کی سزا صرف جیل ہے۔
انہوں نے مزید کہا: محض احتجاج کرنے والے شہریوں کو موت کی سزا دینا ایک کمزوری ہے اور قرآن سے اس طرح کا استدلال غلط ہے۔ محاربہ کی مختلف سزائیں ہیں جن میں قید کرنا اور جلاوطن کرنا شامل ہیں۔ محسن شکاری کو پھانسی کے بجائے ایک یا دو سال قید کی سزا دینا کافی تھا۔

احتجاج کرنے والوں پر فائرنگ کھولنے والے اہلکاروں کو کیوں سزا نہیں دیتے ہو؟
خطیب اہل سنت زاہدان نے عوام اور اہلکاروں کے بارے میں حکومت کے دہرے معیار پر تنقید کرتے ہوئے کہا: ورلڈ کپ کے سلسلے میں جب لوگ سڑکوں پر نکلے، سکیورٹی اہلکاروں نے ایک شہری کو براہ راست نشانہ بناکر قتل کر ڈالا، لیکن تم نے ان اہلکاروں سے قصاص نہیں لیا۔ بہت سارے شہری صرف نعرہ لگانے کی وجہ سے گولی کھاکر مارے جاچکے ہیں۔ یہ نمازی جو عیدگاہ میں شہید ہوئے ان کا قصور کیا تھا؟ اگر موجودہ قوانین کا مطالعہ نہ کیا ہو، شرعی مسائل میں ہمیں تخصص حاصل ہے۔ پانچ افراد کو ایک بسیجی اہلکار کے قتل کے الزام میں پھانسی کی سزا دیتے ہو، عوام کو قتل کرنے والے اہلکاروں کو کیوں پھانسی اور قصاص کی سزا نہیں سناتے ہو؟!
انہوں نے مزید کہا: تم حاکم ہو اور یہ لوگ قوم کے افراد ہیں۔ تمہارے اور قوم کے درمیان مساوات ہو۔ زاہدان سمیت کسی بھی شہر میں جہاں سکیورٹی اہلکاروں نے عوام کو ناجائز قتل کیا، کوئی اہلکار گرفتار نہیں ہوا ہے۔ قاتل کو قصاص کرنا چاہیے۔ اگر کسی نے راستہ بند کیا ہے یا چھری سے کام لیا ہے، اس کی سزا موت نہیں ہے اور شرعی طورپر ایسا کرنا درست نہیں ہے۔ ایران میں موجودہ پھانسی کی سزائیں دنیا میں کہیں نہیں پائی جاتی ہیں اور صدرِ اسلام میں بھی اس کی مثالیں نہیں ملتیں۔یہ سزائیں تمہارے اور ملک کے مفادات کے خلاف ہیں۔ انہیں روکیں۔

قوم کو مارنا درست نہیں ہے
مولاناعبدالحمید نے نبی کریم ﷺ کی سیرت مبارکہ کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا: دنیا کی حکومتیں اس نکتہ کو خوب سمجھ لیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا ہے اگر میں منافقوں کو ہمیں نقصان پہنچاتے ہیں اور دشمن کی مدد کرتے ہیں، مارڈالوں، لوگ کہیں محمدﷺ اپنی قوم کو قتل کرتاہے، جب وہ اپنی قوم سے وفا نہیں کرتا کہاں ہم سے وفا کرے گا۔ دنیا خوب سمجھ لے کہ اپنی قوم کو مارنا غلط کام ہے۔
انہوں نے مزید کہا: غزوہ بدر میں جب آپﷺ فاتح ہوئے اور اسیروں کو جو بت پرست اور دشمن تھے اور انہوں نے آپﷺ اور صحابہؓ کو مکہ سے نکالا تھا اور پھر ان سے جنگ لڑی تھی، ان کے سامنے لایاگیا۔ لیکن آپﷺ نے ایک قیدی کو بھی نہیں مارا اور سب کو رہا کردیا۔ ان کی رہائی کے لیے شرط یہ رکھی گئی کہ ہر قیدی دس آدمیوں کو پڑھنا لکھنا سکھائے اور پھر آزاد ہوجائے۔ اس سے سب عرب قبائل حیران رہ گئے۔

خواتین کو مختلف میدانوں میں اپنی صلاحتیں دکھانے کا موقع ملنا چاہیے
مولانا عبدالحمید نے بات آگے بڑھاتے ہوئے خواتین کے حقوق کے بارے میں کہا: کچھ لوگ کہتے ہیں تم آزادی اور خواتین کے حقوق کی بات کرتے ہو، تم نے خود کیا کارنامہ سرانجام دیاہے۔ ہم نے طویل عرصہ اس موضوع پر کام کیا ہے۔ بلوچستان ایک روایتی علاقہ رہاہے جہاں خواتین زیادہ آزادی حاصل نہیں تھی، لیکن آج بہت کچھ ہوا ہے۔ ماضی میں خواتین انتخابات میں شرکت نہیں کرتی تھیں، لیکن اب وہ سرگرم ہیں۔ دارالعلوم زاہدان نے کالجوں اور یونیورسٹیوں میں زیر تعلیم خواتین کے لیے ہاسٹل کا انتظام کیا اور انہیں مفت رہائشگاہ فراہم کی۔ انتخابات میں جس لسٹ کو ہم نے پیش کیا ہے، اس میں خواتین کو بھی حصہ دیا گیا ہے۔ ملکی سطح پر جہاں خواتین نامزد ہوئی ہیں، ہم نے اہل سنت کو سفارش کی ہے کہ انہیں ووٹ دیں۔
خطیب اہل سنت زاہدان نے کہا: ہم چاہتے ہیں خواتین فقیہ، مفسرہ اور دینی ماہر بن جائیں یا کالج جاکر تعلیم حاصل کریں۔ ہم سب مسلمانوں کو نصیحت کرتے ہیں کہ خواتین کی تعلیم کا راستہ مت روکیں۔ تعلیم حاصل کرنا اور مہارت پیدا کرنا خواتین کا حق ہے۔ خواتین میں ماہر اور تعلیم یافتہ افراد کی کمی نہیں ہے۔ اصلاح پسندوں کے دور میں اسی منبر سے میں نے بارہا آواز اٹھائی کہ خواتین کو ان کے جائز حقوق دلوائیں۔ بہت سارے شیعہ و سنی مدارس نے خواتین کے حقوق پر توجہ نہیں دی ہے اور بندہ اس مسئلے پر تنقید کرچکاہے۔ خواتین کی صلاحیتوں میں کیوں نکھار پیدا نہ ہوجائے؟ انہیں وزارت سمیت دیگر اعلیٰ عہدوں پر فائز رہنا چاہیے۔ یہ ہمارا عقیدہ ہے۔ ہم نے وزارت خارجہ کو تجویز دی کہ وہ خاتون سفیر متعین کریں۔ اس بارے میں تنگ نظری نہیں ہونی چاہیے۔
عوام کے معاشی مسائل کی جانب اشارہ کرتے ہوئے مولانا عبدالحمید نے کہا: جوہری توانائی کا مسئلہ طویل عرصے سے زیرِ التوا ہے اور اب تک حل نہیں ہوچکاہے۔ عوام سخت دباؤ میں ہیں اور غریب و بھوکے ہوچکے ہیں۔ اسی لیے احتجاج کررہے ہیں۔ تم یہ مسئلہ بھی حل نہ کرسکے۔ صلح حدیبیہ میں کیا ہوا، تم بھی وہی کام کریں۔ ایران عراق جنگ میں جب بانی اسلامی جمہوریہ نے دیکھا دشمن پیش قدمی کررہاہے، انہوں نے صلح کیا۔ جب ملک دباؤ میں ہے، تم بھی صلح کرکے اس مسئلے کو حل کرتے تھے۔

احتجاج کرنے والے گالی بھی دیں پھر بھی ان کی بات سن لیں
ممتاز عالم دین نے مزید کہا: قوم مسائل سے دوچار ہے تب ہی احتجاج کرتی ہے۔ عوام کی پکار سن لیں اور ایرانی قوم سے مذاکرات کریں۔اس قوم کو مارنے، قتل کرنے اور پھانسی دینے سے کوئی مسئلہ حل نہیں ہوتا۔ یہ احتجاج عوام کو قتل کرنے سے بند نہیں ہوتا۔ ان ہی عوام نے انقلاب کرکے تمہیں اقتدار پر لایا۔ یہ تمہارے محسن ہیں۔ گالی بھی دیں پھر بھی ان کی بات سن لیں۔ میں گالی سے مخالف ہوں، لیکن ان کی بات سن لینی چاہیے۔ اگر کوئی غلطی ہوئی ہے، اس کی اصلاح کریں۔ حاکم کو چاہیے اپنی غلطیاں مان لے۔ مسائل کو منطق اور استدلال کے دائرے میں حل کریں۔ عوام کو مارنے، الزام لگانے اور محارب کہنے سے کسی درد کی دوا ممکن نہیں ہے۔
انہوں نے اپنے خطاب کے ایک حصے میں ایران میں یوم طلبہ کو کالجوں اور جامعات کے طلبا سے مبارکباد دیتے ہوئے کہا: طلبا ہماری امیدیں اور مستقبل بنانے والے ہیں۔ ملک کی ترقی ان افراد کے ہاتھوں میں ہے جنہوں نے تعلیم حاصل کی ہے اور وہ ہمارے لیے قابل احترام ہیں۔ امید ہے اس طبقے کے مسائل حل ہوجائیں اور حکام کو چاہیے طلبا کے ساتھ بیٹھ کر ان کی باتیں سن لیں۔
مولانا عبدالحمید نے اپنے خطاب کے آخر میں تصدیق کی گزشتہ جمعہ کو احتجاجی ریلی میں کچھ دراندازی کرنے والے عناصر گرفتار ہوچکے ہیں جو عوام کو بدنام کرنے لیے عوامی مقامات اور لوگوں کی دوکانوں کو نقصان پہنچارہے تھے۔ لہذا عوام ہوشیار رہیں۔پرامن احتجاج سب کا حق ہے، تخریب کاری کا کوئی جواز نہیں ہے۔ کسی کو گالی دینا اور توہین کرنا بھی غلط ہے۔ نہ کسی کی پٹائی کریں نہ کسی کو اجازت دیں تمہیں مارے۔


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں