عالم اسلام کے مایہ نازم محقق و مفکر، داعی وفقیہ شیخ الاسلام علامہ یوسف القرضاوی بھی بروز پیر 96برس کی عمر میں جہان فانی سے رخصت ہوگئے اور سارے عالم اسلام کو داغ مفارقت دے گئے۔ انا للہ و انا الیہ راجعون
داغ فراق صحبتِ شب کی جلی ہوئی
اک شمع رہ گئی ہے سو وہ بھی خموش ہے
شیخ الاسلام علامہ یوسف القرضاوی عالم اسلام خاص کر عالم عرب کے جید عالم دین، محقق، مصنف اور عظیم سکالر کے ساتھ ساتھ جری، بے باک رہنما بھی تھے۔ آپ الاخوان المسلمون مصر کے اہم رہنما و سرپرست مانے جاتے تھے۔ آپ کی شخصیت مختلف و گونہ گوں کمالات اور اوصاف کا مجموعہ تھی۔ حق گوئی، شجاعت اور بہادری آپ میں کوٹ کوٹ کر بھری تھی۔ امت مسلمہ پر جہاں بھی ظلم و سفاکیت ہوتی، تو آپ اس ظلم کے خلاف ڈٹ کر مقابلہ کرتے اور ہر فورم پر اپنی آواز بلند کرتے۔ آپ ہمیشہ امت مسلمہ کے اتحاد و اتفاق کے لیے جد و جہد فرماتے۔ آپ نے جہاں قرآن و حدیث کی خدمت کے لیے اپنے آپ کو وقف کیا تھا اور اس میدان میں فکر و نظر، علوم و معارف کے چراغ روشن کیے، وہیں آپ نے فقہ میں بھی عظیم خدمات سرانجام دیں اور آپ کے فتاویٰ کو امت مسلمہ قدر کی نگاہ سے دیکھ کر رہنمائی حاصل کرتے۔
مصر کے سیکولر اور جابر حکمرانوں اور جرنیلوں کے ناجائز فیصلوں اور ظلم کی وجہ سے مصر سے ہجرت کرکے مستقل طور پر کئی دہائیوں سے قطر میں سکونت اختیار کر رکھی تھی۔ آپ نے ہمیشہ عالم اسلام کی مشکلات اور بحرانوں پر جرأت اور ایمانداری کے ساتھ اپنا موقف پیش فرمایا۔ آپ نے ساری زندگی اسلامی تعلیمات اور علوم نبوت کی نشر و اشاعت اور فروغ میں بسر کی۔ آپ نے مختلف موضوعات پر نہات عالمانہ اور محققانہ انداز میں کتابیں لکھیں اور مختلف مجلات اور اخبارات میں مضامین بھی ان کے شائع ہوتے تھے، جس سے امت مسلمہ رہنمائی حاصل کرتی ہے اور آپ کی کتابوں اور مضامین کے تراجم بھی دنیا کے مختلف زبانوں میں ہوچکے ہیں۔ ماہنامہ ‘‘الحق’’ میں بھی آپ کے کئی اہم وقیع علمی و تحقیقی مضامین شائع ہوچکے ہیں۔
حضرت والد صاحب (مولانا سمیع الحق شہید رحمہ اللہ) کے ساتھ حضرت علامہ کے دیرینہ اور گہرے تعلقات تھے۔ عالم اسلام کے کئی ممتاز پلیٹ فارمز پر مختلف کانفرنسوں اور سیمیناروں میں اکثر و بیشتر ملاقات ہوتی رہتی اور دیرتک امت مسلمہ کے مسائل، مشکلات اور چیلنجز پر تبادلہ خیال فرماتے۔ راقم کی بھی خوش قسمتی ہے کہ آپ سے مکہ مکرمہ ‘قصر صفا’ میں ملاقات و زیارت کا شرف حاصل ہوا۔ والد مکرم حضرت مولانا سمیع الحق شہیدؒ جب شیخ عبدالمجید زندانی کی پر اصرار دعوت پر یکم جون سے چار جون 2011ء تک جمہوریہ یمن کے دورہ پر گئے تھے، تو وہاں عالم عرب اور پاکستان کے بہت سے علماء جمع تھے، جن میں شیخ یوسف القرضاوی بھی تقریب میں مدعو تھے۔ وہاں والد مکرم شہید اور شیخ قرضاویؒ دو تین دن اکٹھے رہے اور اس قیام کے دوران ان کی باہمی عالم اسلام کی صورتحال اور مسائل پر تبادلہ خیال ہوتا رہا۔ جب 19 رمضان المبارک 1432ھ بمطابق 19اگست 2011ء کو مسجد الحرام کی نئی جدید تاریخی اور شاندار توسیع کا سنگ بنیاد رکھی جارہی تھی، تو اس سلسلے میں مکہ کے قصرِ صفا میں ایک بڑی یادگار تقریب کا اہتمام کیا گیا تھا۔ سنگ بنیاد کی اس تقریب کے لیے سعودی عرب کے حکمران شاہ عبداللہ کی دعوت پر سعودی عرب کے مقتدر سیاسی، قومی، علمی اور روحانی اہم شخصیات کو مدعو کیا گیا تھا اور سعودی عرب سے باہر عالم اسلام، عالم عرب کی شخصیات میں سے والد مکرم حضرت مولانا سمیع الحق شہیدؒ کو بھی یہ اعزاز حاصل ہوا کہ اس تاریخی و مبارک تقریب میں شرکت سے نوازے گئے اور دوسری شخصیت علامہ ڈاکٹر یوسف القرضاوی کی تھی۔ دونوں حضرات کو خصوصیت کے ساتھ اس تقریب میں ممتاز حیثیت دی گئی اور سب سے پہلی نشست حضرت والد شہید ؒ کیلئے مختص کی گئی تھی۔
علامہ یوسف قرضاویؒ نے ہمیشہ بیت المقدس اور مسئلہ فلسطین کو اہم سمجھا اور اس پر آپ نے ہمیشہ مجاہدانہ کردار ادا کیا اور وہاں کے قابض یہود کی مخالفت میں پیش پیش رہے اور اسی طرح عالم اسلام پر امریکی یلغار خواہ وہ افغانستان پر ہو یا دیگر اسلامی ممالک پر، انہوں نے ان تمام حملوں کی بھرپور مذمت کی اور ان کے خلاف ہمیشہ تقریر و تحریر کے ذریعے نبرد آزما رہے اور اپنی تقاریر و تحاریر میں اس بات پر زور دیتے رہے کہ عالم اسلام اور خصوصاً عالم عرب اغیار کے رحم و کرم پر نہ رہیں۔ آپ عمر بھر امت مسلمہ کی نشاۃ ثانیہ کے لئے تا دم واپسیں کوشاں رہے۔ آپ کی جدائی سے امت مسلمہ ایک بہت بڑے سہارے اور سائبان سے محروم ہوگئی ہے۔ اللہ تعالی اکیسویں صدی کے اس عظیم علمی و فکری ہیرو کی کامل مغفرت فرمائے۔ آمین
آپ کی رائے