ہندوستان آئین و سیاست میں دین و مذہب کی آزادی

ہندوستان آئین و سیاست میں دین و مذہب کی آزادی

مولانا حبیب الرحمن اعظمی رحمہ اللہ
دین و مذہب کی آزادی انسان کے ان بنیادی حقوق میں سے ایک ہے جنھیں انسانیت کا فطری خاصہ مانا جاتا ہے، اور ہر مہذب حکومت نے انسان کے اس فطری حق کا پاس و لحاظ رکھا ہے، خود ہمارے ملک میں جو مختلف افکار و مذاہب اور تہذیب و ثقافت کا گہوارہ ہے شخصی عہد سلطنت میں مذہبی آزادی کی کس قدر پاسداری کی جاتی تھی اس کا اندازہ بھارت کے ‘‘انگریزی راج’’ کے مصنف ‘‘کے.پنڈت سندرلال الی آبادی’’ کے اس بیان سے کیا جاسکتا ہے۔ وہ عہد مغلیہ میں مذہبی آزادی پر گفتگو کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
‘‘اکبر، جہانگیر، شاہجہاں اور ان کے بعد اورنگ زیب کے تمام جانشینوں کے زمانہ میں ہندو مسلم یکساں رہتے تھے۔ دونوں مذاہب کی یکساں تو قیر کی جاتی تھی، اور مذہب کیلئے کسی کے ساتھ کسی قسم کی جانب داری نہ کی جاتی تھی’’۔ (روشن مستقبل، ص: 24)
مذاہب عالم کی تاریخ اور واقعات و مشاہدات سے پتہ چلتا ہے کہ آزادی مذہب کا مسئلہ اس درجہ نازک اور جذباتی ہے کہ جب بھی کسی حاکم یا حکومت کی جانب سے اس پر قدغن لگانے کی غیر شریفانہ کوشش کی گئی ہے تو عوام نے اسے برداشت نہیں کیا ہے۔ بلکہ اکثر حالات میں حکومت کا یہی بے جا رویہ بغاوت اور انقلاب کا پیش خیمہ بن گیا ہے۔ آزادی ہند کی تاریخ کا ایک معمولی طالب علم بھی جانتا ہے کہ برطانوی حکومت کے خلاف 1857؍کی تاریخی جد و جہد کا اہم ترین محرک مسلمانوں اور ہندوؤں کا یہ اندیشہ تھا کہ ان کے مذہب میں رخنہ اندازی اور اسے خراب کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ جنگ آزادی کے نامور مجاہد اور عظیم رہنما مولانا ابوالکلام آزاد نے ایک موقع پر حکومت برطانیہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا:
‘‘اسلام کے احکام کوئی راز نہیں جن تک گورنمنٹ کی رسائی نہ ہو وہ چھپی ہوئی کتابوں میں مرتب ہیں اور مدرسوں کے اندر شب و روز اس کا درس دیتے ہیں۔ پس گورنمنٹ کو چاہئے کہ صرف اس بات کی جانچ کرے کہ واقعی اسلام کے شرعی احکام ایسے ہیں یا نہیں! اگر یہ ثابت ہوجائے کہ ایسا ہی ہے تو پھر صرف دو ہی راہیں گورنمنٹ کے سامنے ہونی چاہئیں یا مسلمانوں کے لئے ان کے مذہب کو چھوڑ دے اور کوئی ایسی بات نہ کرے جس سے ان کے مذہب میں مداخلت ہو یا پھر اعلان کردے کہ حکومت کو مسلمانوں کے مذہبی احکام کی کوئی پرواہ نہیں ہے۔ نہ اس پالیسی پر قائم ہے کہ ‘‘ان کے مذہب میں مداخلت نہیں ہوگی’’ اس کے بعد مسلمانوں کے لئے نہایت آسانی ہوجائے گی کہ وہ اپنا وقت بے سود شور و فغان میں ضائع نہ کریں اور برٹش گورنمنٹ اور اسلام ان دونوں میں سے کوئی ایک بات اپنے لئے پسند کرلیں۔ (مسئلہ خلافت و جزیرہ عرب، ص: 204)
جہادِ حریت کے نقیبِ اول حضرت شیخ الہند قدس سرہ نے آج سے تقریبا اسّی سال پہلے ہندو مسلم اتحاد کی ضرورت پر اظہار خیال فرماتے ہوئے مذہبی آزادی کے مسئلہ کی نزاکت کو دو ٹوک لفظوں میں واضح فرما دیا تھا، ملاحظہ کیجئے حضرت کی اختتامی تقریر کا اقتباس! فرماتے ہیں:
‘‘میں ان دونوں قوموں کے اتفاق و اجتماع کو بہت ہی مفید اور ضروری سمجھتا ہوں اور حالات کی نزاکت کو محسوس کرکے جو کوشش اس کے لئے فریقین کے عمائد نے کی ہے اور کر رہے ہیں اس کی میرے دل میں بہت قدر ہے کیونکہ میں جانتا ہوں کہ صورت حال اگر اس کے برخلاف ہوگی تو وہ ہندوستان کی آزادی کو آئندہ کیلئے ناممکن بنادے گی اس لئے ہندوستان کی آبادی کے یہ دونوں عنصر بلکہ سکھوں کی جنگ آزما قوم کو ملا کر تینوں اگر صلح و آشتی سے رہیں گے تو سمجھ میں نہیں آتا کہ کوئی چوتھی قوم خواہ وہ کتنی ہی بڑی طاقتور ہو ان اقوام کے اجتماعی نصب العین کو محض اپنے جبر و استبداد سے شکست دے سکے گی۔
ہاں میں یہ پہلے بھی کہہ چکا ہوں اور آج پھر کہتا ہوں کہ ان اقوام کی باہمی مصالحت و آشتی کو اگر آپ خوشگوار اور پائدار دیکھنا چاہتے ہیں تو اس کی حدود کو خوب اچھی طرح دل نشین کرلیجئے۔ اور وہ حدود یہی ہیں کہ خدا کی باندھی ہوئی حدود میں ان سے کوئی رخنہ نہ پڑے جس کی صورت بجز اس کے کچھ نہیں ہوسکتی کہ صلح و آشتی کی تقریب سے فریقین کے مذہبی امور میں کسی ادنیٰ امر کو بھی ہاتھ نہ لگایا جائے اور دینوی معاملات ہرگز کوئی ایسا طریقہ اختیار نہ کیا جائے جس سے کسی فریق کی ایذا رسانی اور دل آزاری مقصور ہو’’۔ (جمعیۃ علماء کیا ہے، ص: 132)
حضرت شیخ الہند نوراللہ مرقدہ کے مقام و مرتبہ اور ان کی ہمہ گیر مقبولیت سے باخبر اچھی طرح جانتے ہیں کہ یہ حضرت شیخ الہند کی اپنی تنہا آواز نہیں تھی بلکہ یہ پورے ملت اسلامیہ ہند کی ترجمانی تھی۔ حضرت شیخ الہند رحمہ اللہ کی اسی رائے کو جمعیۃ علمائے ہند نے اپنے لاہور کے عام اجلاس میں بشکل تجویز ان الفاظ میں پیش کیا:
(الف) ہمارا نصب العین آزادی کامل ہے۔
(ب) وطنی آزادی میں مسلمان آزاد ہوں گے۔ ان کا مذہب آزاد ہوگا۔ مسلم کلچر اور تہذیب آزادی ہوگی۔ وہ کسی ایسے آئین کو قبول نہ کریں گے جس کی بنیاد ایسی آزادی پر نہ رکھی گئی ہو۔
(ج)۔۔۔ جمعیۃ علماء ہند کے نزدیک ہندوستان کے آزاد صوبوں کا سیاسی وفاق ضروری اور مفید ہے مگر ایسا وفاق اور ایسی مرکزیت جس میں اپنی مخصوص تہذیب و ثقافت کی مالک نو کروڑ نفوس پر مشتمل مسلمان قوم کسی عددی اکثریت کے رحم و کرم پر زندگی بسر کرنے پر مجبور ہوں ایک لمحہ کیلئے بھی گوارا نہ ہوگی یعنی مرکز کی تشکیل ایسے اصولوں پر ہونی ضروری ہے کہ مسلمان اپنی مذہبی، سیاسی، اور تہذیبی آزادی کی طرف سے مطمئن ہوں۔ (جمعیۃ علماء کیا ہے، ص:۳۳۳)
پھر اپنی مجلس عاملہ منعقدہ 17,18/اگست 1942/ کے اجلاس میں دین و مذہب کے متعلق مسلمانوں کے اسی نقطۂ نظر کی ترجمانی کرتے ہوئے واضح الفاظ میں یہ تجویز منظور کی۔
‘‘اس موقعہ پر ہم یہ بھی واضح کردینا ضروری سمجھتے ہیں کہ اگر جمعیۃ علماء کو اس امر کا ذرہ بھر بھی وہم ہوتا ہے کہ جد و جہد آزادی کا نتیجہ ہندوستان میں ہندو راج قائم ہوجاتا ہے تو وہ ایک لمحہ توقف کئے بغیر اس کی شدید مخالفت کرتی۔’’
‘‘ہم آزاد ہندوستان سے وہ آزاد ہندوستان مراد لیتے ہیں جس میں مسلمانوں کا مذہب ان کی اسلامی تہذیب اور قومی خصوصیات آزاد ہوں، مسلمان جو انگریز کی غلامی سے آزادی حاصل کرنے کے لئے بیش بہا اور شاندار قربانیاں پیش کریں گے ان کی نسبت ہندو کی غلامی قبول کرنے کا تصور بھی ان کی سخت توہین ہے۔’’ (جمعیۃ علماء کیا ہے، ص: 344-343)
ان تفصیلات سے سمجھا جاسکتا ہے، کہ دین و مذہب کا مسئلہ کس قدر نازک اور جذباتی ہے بالخصوص مسلمان اس بارے میں کس درجہ حساس ہیں مذہب کی اسی حیثیت و اہمیت کا نتیجہ ہے کہ ملک کی آزادی کے بعد جب آزاد ہندوستان کا دستور مرتب ہوا تو اس میں خصوصی طور پر مذہبی حقوق پر توجہ دی گئی اور آزادی مذہب کو بنیادی اصول میں شامل کیا گیا اور اس کے تحت حسب ذیل دفعات رکھی گئیں:
دفعہ 25: (۱) تمام اشخاص کو آزادی ضمیر، اور آزادی سے مذہب قبول کرنے، اس کی پیروی اور اس کی تبلیغ کا مساوی حق ہے بشرطیکہ امن عامہ، اخلاق عامہ، صحت عامہ اور اس حصہ کی دیگر توضیعات متاثر نہ ہوں۔
دفعہ26: اس شرط کے ساتھ کہ امن عامہ، اور صحت عامہ متاثر نہ ہوں ہر ایک مذہبی فرقے یا اس کے کسی طبقے کو حق ہوگا:
(الف) مذہبی اور خیراتی اغراض سے ادارے قائم کرنے اور چلانے کا؛
(ب) اپنے مذہبی امور کا انتظام خود کرنے کا الخ۔
دفعہ 27: کسی شخص کو ایسے ٹیکسوں کے ادا کرنے پر مجبور نہیں کیا جائیگا جن کی آمدنی کسی خاص مذہب یا مذہبی فرقہ کی ترقی یا اس کو قائم رکھنے کے مصارف ادا کرنے کیلئے صراحتاً تصرف کی جائے۔
دفعہ 28: (۱) کسی ایسے تعلیمی ادارے میں جو بالکلیہ مملکتی فنڈ سے چلایا جاتا ہو کوئی مذہبی تعلیم نہیں دی جائے گی۔
(۲) فقرہ (۱) کے کسی امر کا اطلاق ایسے تعلیمی ادارہ پر نہیں ہوگا جس کا انتظام مملکت کرتی ہو لیکن جو کسی ایسے وقف یا ٹرسٹ کے تحت قائم کیا گیا ہو جو ایسے ادارہ میں مذہبی تعلیم دینا لازم قرار دے۔
(۳) کسی ایسے شخص پر جو کسی ایسے تعلیمی ادارہ میں شریک ہو جو مملکت کا مسلمہ ہو یا جس کو مملکتی فنڈ سے امداد ملتی ہو لازم نہ ہوگا کہ کسی ایسی مذہبی تعلیم میں حصہ لے جو ایسے ادارے میں دی جائے یا ایسی مذہبی عبادت میں شریک ہو جو ایسے ادارہ میں یا اس ملحقہ عمارت و اراضی میں کی جائے بجز اس کے کہ ایسے شخص نے یا اگر وہ نابالغ ہو تو اس کے ولی نے اس کیلئے اپنی رضامندی دی ہو۔

ثقافتی اور تعلیمی حقوق سے متعلق دفعات
دفعہ29: (۱) بھارت کے علاقہ میں یا اس کے کسی حصہ میں رہنے والے شہریوں کے کسی طبقہ کو جس کی اپنی الگ جداگانہ زبان، رسم الخط، یا ثقافت ہو اس کو محفوظ رکھنے کا حق ہوگا۔
(۲) کسی شہری کو ایسے تعلیمی ادارہ میں جس کو مملکت چلاتی ہو یا جس کو مملکتی فنڈ سے امداد ملتی ہو داخلہ دینے سے محض مذہب، نسل، ذات، زبان یا ان میں سے کسی بنا پر انکار نہیں کیا جائے گا۔
دفعہ30: تمام اقلیتوں کو خواہ وہ مذہب کی بنا پر ہوں یا زبان کی اپنی پسند کے تعلیمی ادارے قائم کرنے اور ان کا انتظام کرنے کا حق ہوگا۔ (بھارت کا آئین یکم جنوری 1985/تک ترمیم شدہ شائع کردہ ترقی اردو بیورو وزارت تعلیم حصہ ۳ بنیادی حقوق، ص: 47-46) ان دستوری مستحکم ضمانتوں کے ساتھ دستور ساز اسمبلی میں اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کو اطمینان دلاتے ہوئے سردار ولبھ بھائی پٹیل نے یقین دہانی کرائی تھی کہ ان کے مفادات کا ان کے اطمینان کی حد تک خیال رکھا جائے گا اور اسے اسٹیٹ ایک مشن یعنی کاز کی حیثیت دے گا۔
مگر راج گدی پر بیٹھتے ہی یہ سارے عہد و پیمان اور قول و قرار ہوس اقتدار کی نذر ہوگئے اور ایک خاموش تحریک شروع کردی گئی کہ نصاب تعلیم اور سرکاری اسکولوں کے ماحول کے ذریعہ ہندو تہذیب بلکہ صحیح لفظوں میں برہمن ازم کو یہاں کے بچہ بچہ کے دل و دماغ میں اتار دیا جائے۔ اور پہلے قدم کے طور پر گاندھی جی کی مشہور پر ارتھنا اسکولوں میں جاری کی گئی جس میں مسلم بچوں کی شرکت بھی لازم کردی گئی۔ جس کے بند یہ ہیں:
رگھوپتی رادھے راجہ رام پتت پاون سیتا رام
پتت پاون ستارام ایشور، اللہ تیرے نام
چنانچہ ایک مسلم ماسٹر نے اس سلسلہ میں مجاہد ملت مولانا حفظ الرحمن کو خط لکھ کر یہ اطلاع دی کہ سرکاری اسکولوں میں یہ پرارتھنا لازم کردی گئی ہے جبکہ مسلم بچوں کو مذہبی بنیاد پر اس پر اعتراض ہے تو کیا واقعی اسلامی نقطہ نظر سے اس میں کوئی بات قابل اعتراض ہے۔ اس کے جواب میں حضرت مجاہد ملت نے تحریر فرمایا:
‘‘گاندھی جی کا یہ گیت اسلام کے عقیدہ توحید کے بالکل خلاف ہے اس لئے کہ اسلام کا سب سے بڑا اور بنیادی عقیدہ یہ ہے کہ اللہ ایشور، خدا اس ذات کا نام ہے جو نہ کسی کا باپ ہے، اور نہ کسی کی اولاد نہ کسی کا شوہر نہ بیوی وہ ان تمام رشتوں سے پاک ہے، اس کا کوئی ہمسر اور برابر نہیں۔ (سورہ اخلاص)
جس گیت میں رام، ایشور اور اللہ کو ایک ہی بتایا جارہا ہے اور ساتھ رام کو سیتا جی کا پتی اور سیتا جی کو رام کی دھرم پتنی کہا جارہا ہے تو ظاہر ہے کہ اسلام اس کو قبول نہیں کرسکتا مسلمان بچوں کو اعتراض ہے تو بجا ہے اور کوئی وجہ نہیں کہ ان کو اس گیت کے گانے پر مجبور کیا جائے اس لئے کہ ایک سیکولر اسٹیٹ میں یہ کبھی جائز نہیں ہوسکتا۔’’
اسی برہمنی تہذیب کو عام کرنے کی ہوس میں مختلف نام کی تصویروں اور مجسموں پر بطور عقیدت پھول مالائیں چڑھانے کو نہ صرف رواج دیا گیا بلکہ اسے ضروری قرار دیا جانے لگا چنانچہ اس سلسلے میں بھی مولانا موصوف کے پاس ایک مراسلہ آیا جس کے جواب میں وہ لکھتے ہیں:
‘‘آپ نے اپنے خط میں دو سوال کئے ہیں یہ ہیں:
(۱) کیا یہ صحیح ہے کہ مذہب اسلام کی رو سے کسی کیلئے جائز نہیں کہ وہ کسی بھی تصویر یا مجسمہ پر ہار پھول چڑھائے؟
(۲) کیا ملک کا سیکولر آئین یاکانگریس کا دستور کسی شخص کے لئے یہ لازم قرار دیتا ہے کہ وہ ملک و وطن کے کسی لیڈر کی تصویر یا مجسمہ پر ضرور ہار پھول چڑھائے اور جو شخص ایسا کرنے سے اپنے مذہب کی پابندی کرتے ہوئے انکار کردے تو اس کو مجرم سمجھا جائے گا؟
آپ نے جو سوالات تحریر فرمائے ہیں ان کا جواب درج ذیل ہے:
(۱) مسٹر معین الدین وزیر آسام نے جو عمل کیا ہے وہ اسلامی بنیادی عقیدہ کے اعتبار سے قابل ستائش ہے میں کو جرأت حق کی داد دیتا ہوں، اسلام کے عقیدہ توحید کا تقاضہ ہے کہ کوئی عمل مسلمان ایسا نہ کرے جس سے اس کی بنیادی عقیدہ پر بالواسطہ یا بلاواسطہ زد پڑتی ہو اسلام نے اسی وجہ سے نبی اور پیغمبروں کے ساتھ بھی اس طرح کے عمل کی اجازت نہیں دی ہے جس سے پرستش کا شائبہ یا واہمہ ہوتا ہو اسلام نے اسی بناء پر نبیوں اور پیغمبروں حتی کہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی تصویر بنانے کو حرام قرار دیا ہے، اور اسلام اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین قرار دیا ہے۔ اس لئے گاندھی جی کی شخصیت کی عظمت اپنی جگہ قابل تسلیم رہتے ہوئے بھی کسی مسلمان کیلئے جائز نہیں کہ وہ گاندھی جی کی تصویر یا مجسمہ یا کسی بھی مسلم یا غیرمسلم رہنما کی تصویر یا مجسمہ پر ہار پھول چڑھائے۔
(۲) ہماری قومی حکومت کسی خاص مذہبی عقیدہ کی حکومت نہیں ہے بلکہ ملک کے عوام کی ملی جلی جمہوری حکومت ہے جس کو ہم سب سیکولر کے نام سے موسوم کرتے ہیں، سیکولر اسٹیٹ کا جو دستور بنایا گیا ہے اس میں مذہب کی آزادی کو بنیادی حقوق میں اہم ترین حق تسلیم کیا گیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ ہر شخص کو اس کے عقیدہ کے مطابق مذہبی آزادی حاصل ہو یعنی کوئی شخصیت یا کوئی کمیونٹی دوسروں سے اپنے مذہبی عقائد اور اعمال زبردستی منوانے کی مجاز نہ ہوگی۔’’
یہ ساری تفصیلات اس غرض سے پیش کی جارہی ہیں تا کہ ہوا کا رخ متعین کرنے میں کوئی دقت نہ ہو اور مسلمانوں بالخصوص قائدین ملت کو باور کرلینا چاہئے کہ جب نیتوں میں فتور آجائے تو جمہوریت اور سیکولرزم کے نام پر بھی وہ سب کچھ کیا جاسکتا ہے جو ایک ظالم و جابر شخصی حکومت کرسکتی ہے پھر مسئلہ صرف حکومت اور اس کی مشینری ہی تک محدود نہیں ہے بلکہ اس کی جڑیں عدلیہ تک پھیلی ہوئی ہیں۔ کیا یہ حیرت ناک بات نہیں ہے کہ ایک ایسے وقت میں جب عدالتیں ذاتی آزادی، ماحولیاتی تحفظ کے سلسلے می سرد مہری دکھائی پڑتی ہے۔ جاننے والے جانتے ہیں کہ بابری مسجد کی شہادت کے زمانہ میں مسلمانوں کے خلاف واقع فرقہ وارانہ تشدد کے معاملات میں آدھے کو پولیس نے صحیح بتایا ہے لیکن ساتھ ہی ساتھ ناقابل تفتیش بھی کہا اور ہماری عدالتیں اس پر خاموش تماشائی بنی رہیں اور بقیہ معاملات جن میں مسلمانوں کی حیثیت ملزمان کی رکھی گئی ہے عدالتوں کی زبردست دلچسپی دکھائی پڑتی ہے۔
العرض: مسلمانوں کی اب تک کی تاریخ شاہد ہے کہ وہ عملی اعتبار سے خواہ کتنے کمزور کیوں نہ ہوں مگر اپنے عقیدہ اور دین و مذہب کے معاملہ میں انتہائی حساس ہیں۔ وہ سب کچھ قربان کرسکتے ہیں لیکن اپنے عقیدہ اور دین و مذہب سے دست بردار نہیں ہوسکتے۔
وہ مرد نہیں جو ڈر جائے ماحول کے خونیں منظر سے
اس حال میں جینا لازم ہے، جس حال میں جینا مشکل ہے


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں