مولانا عبدالحمید:

تعلیم ہر قوم اور ملک کی ترقی کا سنگِ بنیاد ہے

تعلیم ہر قوم اور ملک کی ترقی کا سنگِ بنیاد ہے

شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے اپنے تازہ ترین بیان میں علم و دانش کو کسی بھی ملک اور قوم کی ترقی کے لیے بنیادی ضرورت قرار دیتے ہوئے عوام کو نصیحت کی کہ اپنے بچوں کی تعلیم کو اہمیت دیں۔
خطیب اہل سنت زاہدان نے تئیس ستمبر دوہزار بائیس کو ایران میں نئے تعلیمی سال اور سکولوں اور جامعات کھلنے پر طلبا و اساتذہ کو مبارکباد پیش کرتے ہوئے کہا: علم اہم ہے اور سب سمجھدار قومیں حصولِ علم کے لیے محنت کرتی ہیں اور تعلیم پر خرچ کرتی ہیں۔
انہوں نے مزید کہا: ترقی کا سنگِ بنیاد علم و تعلیم ہے۔ کسی بھی قوم اور ملک کی ترقی کا راز تعلیم میں ہے۔ اسلامی اور ماڈرن علوم ہمہ جہت ترقی کے لیے ضروری ہیں۔ جس قوم کے پاس دانش کی دولت ہے، وہ دنیا میں عزت پاتی ہے۔ ہمارے صوبے اور ملک کے لوگوں کے لیے سب سے اہم مسئلہ علم ہی ہونا چاہیے۔
والدین کو مخاطب کرتے ہوئے مولانا عبدالحمید نے کہا: بچوں کو اپنے حال پر مت چھوڑیں؛ اگر تعلیم میں دلچسپی نہیں لیتے ہیں، انہیں تعلیم حاصل کرنے کی ترغیب دیں۔ جنہوں نے تعلیم چھوڑدی ہے، انہیں دوبارہ سکولوں میں داخل کرائیں۔ بچوں کو پورا وقت کھیل کھود میں نہیں گزرنا چاہیے۔
صدر جامعہ دارالعلوم زاہدان نے کہا: چھوٹے بچوں کو تعلیم چھوڑنے اور سکول سے بھاگنے کا نقصان معلوم نہیں؛ وہ شاید اپنے اوقات آوارہ گردی، کھیل کھود اور موٹرسائیکل چلانے میں گزاریں، پھر جب یہ بڑے ہوجائیں اور انہیں علم کی ضرورت کا احساس ہوجائے، تووہ اپنے ہم عمر ساتھیوں کو دیکھتے ہیں کہ کوئی عالم دین کوئی حافظ قرآن اور کوئی ڈاکٹر یا انجینئر بن چکاہے، تو انہیں سخت افسوس بھی ہوگا اور اپنے والدین سے شکوہ بھی کریں گے۔ تعلیم کے لیے اگر آج انہیں پٹائی کرنے کی نوبت بھی آجائے، شاید بچے اپنے والد کو سخت مزاج کہیں، لیکن جب بڑے ہوجاتے ہیں تو والد کے لیے خیر کی دعا مانگیں گے اور کہیں گے کاش تعلیم کے لیے اس سے بڑھ کر میری پٹائی ہوتی۔
انہوں نے مزید کہا: اگر اولاد تعلیم سے محروم ہوں اور ان میں علم و دین کی کمی ہو، نماز نہ پڑھیں اور اپنے حال پر رہا ہوجائیں، اور ان کی تربیت اور تعلیم کے لیے کوئی محنت نہ ہو، ایسی اولاد قیامت کو اپنے والدین کو جہنم لے جائیں گی۔ بچوں اور بچیوں کی اسلامی تربیت ضروری ہے ؛ اس حوالے سے ہم ذمہ دار ہیں۔
خطیب اہل سنت نے اپنے بیان کے اس حصے کے آخر میں کہا: اپنے بچوں کی تعلیم کے لیے پیسہ خرچ کریں، ضرورت ہو تو ٹیوشن کا بندوبست کریں، اسباق میں ان کی مدد کریں۔ سمجھدار ماں وہی ہے جو اپنے بچوں کی اچھائی کے لیے محنت کرتی ہے۔ اپنے بچوں کو مدد کریں تاکہ وہ سکولوں، مدارس اور یونیورسٹیوں میں اندرون و بیرونِ ملک تعلیم حاصل کریں۔

ملک کو پولیس گردی سے نہ چلائیں
ممتاز سنی عالم دین نے اپنے خطاب کے دوسرے حصے میں ایک خاتون قیدی کی پولیس کے ہاتھوں موت کے بعد مختلف شہروں میں پھوٹنے والے احتجاج پر تبصرہ کرتے ہوئے حکام کو عوام کی بات سننے کی ترغیب دی اور انہیں پولیس گردی سے کشیدگی پیدا کرکے ملک چلانے سے گریز کرنے کا مشورہ دیا۔
شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے حکامِ بالا کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: عوامی مطالبات پر کان دھریں اوریہ مطالبات روز بروز بڑھنے نہ دیں۔ ورنہ چھوٹی سی چنگاری سے لوگ سڑکوں پر نکل آتے ہیں۔ جمہوریت کا اگر راج ہے، تو اس کا مطلب ہے عوام کی تقدیر اور حاکمیت کا حق قوم ہی کو حاصل ہے۔
انہوں نے مزید کہا: نبی کریم ﷺ عوام کی خدمت کیا کرتے تھے اور ان کی باتیں سنتے تھے۔ جب حکمران مہربان ہو، عوام کی بات سن لیتاہے۔ تم بھی عوام کی آواز سنو۔ اس ملک میں دانشور حضرات کی کمی نہیں؛ ان کی باتیں سن لیں۔ کئی عرصے سے ہم مشورہ دیتے چلے آرہے ہیں کہ فری ڈیسک سجائیں اور لوگوں کو بات کرنے دیں۔

بندوق اور طاقت کے بل بوتے حکومت بچانا ممکن نہیں
مولانا عبدالحمید نے کہا: پارلیمنٹ، صدارت مملکت اور مجلس اعلیٰ (خبرگان رہبری) کی رکنیت اور نامزدی کے لیے انتخاب کے عمل پر تنقید ہورہی ہے۔ مختلف گروہوں کو رکنیت حاصل کرنے کی اجازت ملنی چاہیے تاکہ ملک اپنا اصل مقام حاصل کرے۔جب مختلف افکار اکٹھے ہوجاتے ہیں اور موافقین و مخالفین کی آواز سنی جاتی ہے، پھر ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہوجاتاہے۔
انہوں نے مزید کہا: ملک کو پولیس گردی سے بچائیں اور سکیورٹی نگاہوں سے ملک چلانا بند کریں۔ ملک کو اصحابِ فکر و نظر کے حوالے کریں۔ پولیس اور سکیورٹی فورسز کی ذمہ داری کچھ اور ہے اور ہر کسی کو اپنے میدان میں ہونا چاہیے۔ اسی صورت میں ملک کا امن محفوظ رہے گا بصورت دیگر عوام کا غصہ آئے دن بڑھتا ہی جائے گا۔ چوالیس سال ہوگئے کہ یہ ارمان دل میں ہے کہ کیوں حاکمیت کی جانب سے کوئی عوام کی رائے معلوم کرنے کے درپے نہیں ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران کو چاہیے دنیا کے مختلف جمہوری ملکوں سے بڑھ کر عوامی ہو۔
عوام کی آواز سننے پر زور دیتے ہوئے اہل سنت ایران کے ممتاز رہ نما نے کہا:قوم اور حکومت کے لیے جذبہ خیرخواہی کے تحت کہتے ہیں کہ معاشرہ بے چینی کا شکار ہے۔ لوگ آزادی چاہتے ہیں اور ان کی بات سننے کی ضرورت ہے۔ ان لوگوں نے مختلف میدانوں میں تمہاری حمایت کی ہے، اب وقت آپہنچاہے کہ تم ان کی بات سن لو۔ بندوق اور اسلحے کی نوک پر اور طاقت کے بل بوتے کسی حکومت کو نہیں بچایا جاسکتا۔
انہوں نے کہا: ملک میں سیاسی تبدیلی لائیں اور عوام کی رائے پوچھ لیں۔ صرف ایک مخصوص گروہ اور پارٹی سے مشورت نہ کریں۔ جوہری معاہدے کے بارے میں بھی فری ڈیسک کا اہتمام کریں تاکہ لوگ اپنی بات پہنچادیں۔ اللہ تعالیٰ نے صرف مردوں کو عقل کی نعمت سے نہیں نوازا ہے؛ بعض اوقات خواتین بہتر مشورت دے سکتی ہیں۔ عوام کی بات سننا اور ان کی اچھی باتوں پر عمل کرنا تمہارے مفاد میں ہے، لیکن آپ ایک مخصوص گروہ سے مشورت کرکے فیصلہ کرتے ہیں۔

قصوروار اہلکاروں کو بچانے کی کوشش نہ کریں
تہران میں پولیس حوالات میں نوجوان خاتون، مہسا امینی، کی موت اور بعد میں پیدا ہونے والی صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے خطیب اہل سنت نے کہا: مہسا امینی کی موت سے بڑا صدمہ ہوا اور ان کے اور ان کے اہل خانہ سے بڑا ظلم ہوا۔ مناسب تھا اس واقعے میں ملوث سب اہلکار فورا عدالت میں لائے جاتے؛ اگر قصوروار اہلکاروں کو کھلی کچہری میں ٹرائل کیا جاتاعوام کو تسلی ہوجاتی۔
انہوں نے مزید کہا: قصوروار اہلکاروں کی سرکاری پشت پناہی نہیں ہونی چاہیے۔ جو ریاست اور قوم کی جیب سے کھاتاہے، قصور سے گریز کرے؛ اگر کوئی کوتاہی پیش آئی تو اسے کھلی کچہری میں ٹرائل کرنا چاہیے۔
چابہار میں ایک پندرہ سالہ لڑکی کی پولیس افسر کے ہاتھوں عصمت دری کی افواہ پر تبصرہ کرتے ہوئے ایرانی بلوچستان کے صدر مقام زاہدان کے خطیب نے کہا: چابہار کے مسئلے میں ہم سے اور خطے کے علما پر تنقید ہورہی ہے کہ تم نے خاموشی کیوں اختیار کی ہے؛ ہماری یہ خاموشی معنی خیز ہے۔ یہ مسئلہ ابھی تک ابہام کے پردے میں ہے اور حقیقت ہمارے لیے واضح نہیں ہے۔ موقف اپنانے سے پہلے ہمیں تحقیق کرنی چاہیے تاکہ کوئی غلطی پیش نہ آئے۔
انہوں نے متعلقہ حکام سے مطالبہ کیا بڑی باریک بینی اور حساسیت سے اس مسئلے کی مختلف جوانب کو دیکھ لیں۔ حکام نے ہمیں بھی پیغام دیا ہے کہ اس مسئلے کی پیروی کررہے ہیں۔ حکام کو چاہیے خود اس بارے میں وضاحت پیش کریں۔ خواتین کی عدالتی کارروائی میں ہمیشہ ججز اور تفتیش کرنے والوں کے ساتھ ایک خاتون اہلکار بھی حاضر ہونی چاہیے۔
اخلاقی پولیس کے اقدامات پر تنقید کرتے ہوئے مولانا عبدالحمید نے کہا: ہمیں حیرت ہوتی ہے کہ حکام کے ذہنوں میں کیا سوچ ہے کہ مرد اہلکار خواتین کو جو کسی کی بیٹی یا بیوی ہیں، پکڑ کر اپنی گاڑیوں میں ڈالتے ہیں۔ بعض اوقات ان کے سر اور بال برہنہ ہوتے ہیں جو شریعت کے خلاف ہے۔ نامحرم کو پکڑنا خود دوسرا گناہ ہے۔ تم کسی منکر اور گناہ سے دیگر منکرات اور گناہوں کی اصلاح نہیں کرسکتے ہو۔

اہل سنت کو نظرانداز کرنا انصاف سے دور ہے
مولانا عبدالحمید نے اپنے خطاب کے آخر میں مختلف محکموں میں اہل سنت کو شامل نہ کرنے اور انہیں نظرانداز کرنے کی پالیسی پر تنقید کرتے ہوئے کہا: ہمیں وزارتِ تعلیم سے سخت شکوہ ہے۔ میں نے صدر مملکت کو خط لکھا اور انہوں نے وزارتِ تعلیم کے حوالے کیا، لیکن ابھی تک کوئی مثبت تبدیلی نہیں آئی ہے۔ کئی عشروں سے ہم کوشش کرتے چلے آرہے ہیں کہ صوبہ میں سب قومیتیں اور مسالک کو دیکھاجائے اور ان کے حقوق کا خیال رکھاجائے، افسوس ہے کہ ابھی تک ایسا نہیں ہوا ہے۔ اب تک ایک بار بھی کسی بلوچ شہری کو محکمہ تعلیم کی ذمہ داری نہیں دی گئی ہے۔ یہاں انتہائی قابل افراد موجود ہیں اور یہ انصاف سے دور ہے کہ تم انہیں نظرانداز کرو۔ کچھ پتہ نہیں ہماری شکایتوں کا انجام کیا ہوگا۔


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں