سید عطاء اللہ شاہ بخاری رحمہ اللہ، ترس گئی ہے سماعت تری صداؤں کو

سید عطاء اللہ شاہ بخاری رحمہ اللہ، ترس گئی ہے سماعت تری صداؤں کو

سید عطاء اللہ شاہ بخاری رحمہ اللہ 23ستمبر 1892ء (یکم ربیع الاول 1310ہجری) کو اپنی ننھیال پٹنہ میں پیدا ہوئے تھے اور 21اگست 1961ء کو ملتان میں رحلت فرمائی اور وہیں آسودہ خاک ہیں۔
امیرشریعت سیدعطاء اللہ شاہ بخاری رحمہ اللہ ایک عالم باعمل، بے باک ونڈر اور محبت رسول کی دولت سے مالامال ایک خوبصورت شخصیت کے مالک تھے۔
شاہ جی بلاشبہ برصغیر پاک و ہند کے سب سے بڑے خطیب تھے۔ انہوں نے اپنی اجتماعی و سیاسی زندگی کا آغاز 1916ء میں کیا اور 1919ء کے حادثہ جلیانوالہ با غ کے خلاف احتجاج میں شامل ہونے پر برصغیر کے سیاسی افق پر انہیں بے پناہ شہرت ملی۔ پھر تحریک خلافت 1921ء میں انہوں نے بھرپور شرکت کی اور برصغیر کا چپہ چپہ ان کی شعلہ نوائی اور زورِ خطابت سے گونج اٹھا۔ صرف پنجاب میں تین ہزار خلافت کمیٹیاں قائم کیں۔ انہی دنوں لاہور کے ایک جلسے میں مولانا محمدعلی جوہر رحمہ اللہ نے ان کی خطابت سے متاثر ہو کر فرمایا: ‘‘بخاری مقرر نہیں ساحر ہے، تقریر نہیں جادو کرتا ہے۔’’ مولانا ابوالکلام آزادرحمہ اللہ نے شاہی مسجد لاہور میں ان کا خطاب سنا تو فرمایا: ‘‘میرے بھائی آپ کی اس خدمت پر ملک و ملت کا ہر گوشہ شکرگزار ہے۔’’ مفکر پاکستان علامہ اقبال نے 1930ء میں موچی دروازے لاہور کے ایک اجتماع میں سنا تو فرما: ‘‘شاہ جی اسلام کی چلتی پھرتی تلوار ہیں۔’’ علامہ محمدانور شاہ کشمیری نے شاہ جی فرمایا: ‘‘عطاء اللہ عہد نبوت میں ہوتے تو ناقۂ رسالت کے حُدی خواں ہوتے ۔ میں انہیں امیرشریعت منتخب کرتا ہوں۔’’
ان کی پوری زندگی تحفظ ختم نبوت کی جد و جہد میں گزری۔ اس مقدس مشن کی خاطر بقول خود انہی کے ‘‘ میری آدھی زندگی جیل میں آدھی ریل میں گزری۔’’ قسّام ازل نے شاہ جی کو گوناں گو امتیازی خصوصیات سے نوازا تھا۔ وہ اپنی ذات میں بیک وقت بے مثل خطیب، برجستہ گو شاعر، دور اندیش سیاست دان، اعلیٰ مدبر، نابغہ اور صاحب بصیرت انسان تو تھے ہی، مگر اس کے ساتھ ساتھ معاملہ فہمی، مزاج شناسی، دوست داری، تحمل و رواداری جیسی صفات بھی ان کی ذات میں بدرجہ اتم موجود تھیں۔ یہی وہ بنیادی وجوہ تھیں کہ جن کی بناء پر وہ مرجع خلائق اور عام و خاص کے دلوں کی دھڑکن تھے۔
برصغیرمیں شاہ صاحب جیسی کسی دوسری دلنواز شخصیت کا وجود نہ تھا۔ وہ اپنے دینی اصول و عقائد پر سختی کے ساتھ کاربند تھے اور ان میں کسی نرمی اور ترمیم کے روادار نہ تھے، مگر ذاتی حیثیت سے وہ ہر دینی و سیاسی ، علمی و ادبی حلقوں، حتی کی ایک حد تک مذہب سے گریز پا طبقات میں بھی ہر دلعزیز تسلیم کیے جاتے تھے۔ اِسی سبب وہ جہاں علامہ سید انور شاہ کشمیری رحمہ اللہ جیسی عظیم علمی و دینی ہستی کے منظور نظر تھے ، وہیں وہ فیض احمد فیض، صوفی تبسم، اختر شیرانی، عبدالحمید عدم، ساغر صدیقی کے ہاں بھی میرمحفل مانے جاتے تھے۔ شاہ جی رحمہ اللہ برصغیر کی وہ واحد شخصیت تھے کہ جن کا احترام ہر طبقہ میں پایا جاتا تھا۔ وہ جہاں حضرت پیر سید مہرعلی شاہ گولڑوی رحمہ اللہ، حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ اور قطب الاقطاب حضرت شاہ عبدالقادر رائے پوری رحمہ اللہ کی محبتوں کا مرکز تھے، وہیں وہ شیخ الاسلام مولانا سیدحسین احمد مدنی رحمہ اللہ اور مفتی اعظم ہند مفتی کفایت اللہ دہلوی رحمہ اللہ کی آنکھوں کی ٹھنڈک بھی تھے۔ شاہ جی رحمہ اللہ یکساں طور پر مولانا ابوالکلام آزاد، علامہ محمداقبال اور مولانا محمدعلی جوہر ی عنایات اور ان کی صحبتوں سے فیض یاب ہوئے۔ مولانا غلام رسول مہر، مولانا عبدالمجید سالک، چراغ حسن حسرت جیسے کہنہ مشق صحافیوں، حفیظ جالندھری، احسان دانش، احمد ندیم قاسمی، سیف الدین سیف، حبیب جالب جیسے نامور شاعروں اور ڈاکٹر ایم ڈی تاثیر، ڈاکٹر سید محمد عبداللہ، پطرس بخاری، علامہ طالوت، نسیم حجازی جیسے ادیبوں کے شاہ صاحب کے ساتھ قریبی مراسم تھے۔
ایک طرف وہ دینی حلقے کے محبوب تھے تو دوسری طرف شاہ جی کی محفلوں میں دنیادار لوگوں کی تعداد بھی ان گنت تھی۔ ہر مکتب فکر نے شاہ صاحب کی وسعت ظرفی اور وسیع المشربی کی بدولت ان کو سر اور آنکھوں پر جگہ دی۔ دل سے ان کا احترام کیا اور طرح وہ سب کے لیے عقیدت و محبت کا روشن مینار تھے۔ اپنی بے مثال قوت لسانی، فکر و نظر کی پختگی اور انسانیت سے بے لوث محبت کے پیش نظر وہ ہندوستان کی ہر دلعزیز شخصیت تھے۔
حضرت شاہ جی رحمہ اللہ نے جب قادیانیت کے خلاف محاذ کھولا تو تمام طبقات کو ایک پیج پر جمع کیا اور 53 کی تحریک ختم نبوت تک ایک ایسا ماحول بنادیا کہ ہر شخص حضور سرور کونین محمد کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ناموس اور ختم نبوت کے تحفظ کے لیے اپنی جان و مال کو قربان کرنے کے لیے تیار تھا ور پھر تاریخ نے دیکھا کہ حضرت شاہ جی کی قیادت میں تقریباً دس ہزار لوگوں نے تحریک ختم نبوت میں قربانی دی۔ اللہ تعالی ان کی قبروں کی اپنی رحمتوں سے بھردے اور حضرت شاہ جی کا سچا نعم البدل عطا کرے جو انہی کی طرح تمام طبقات کو اتحاد و یگانگت کا آفاقی درس دے اور یہ دھرتی اسلام کی سچی اور سُچی تعلیمات کی بدولت امن و آشتی کا گہوارہ بن جائے۔ شاہ کے متعلق سیف الدین سف نے کیا ہی خوب کہا ہے:
ملا نہ پھر کہیں لطفِ کلام تیرے بعد
حدیث شوق رہی ناتمام تیرے بعد
ترس گئی ہے سماعت تری صداؤں کو
سنا نہ پھر کہیں تیرا پیام تیرے بعد
جو تیرے دستِ حوادث شکن میں دیکھی تھی
وہ تیغ پھر نہ ہوئی بے نیام تیرے بعد
بنا ہے حرف شکایت سکوت لالہ و گل
بدل گیا ہے چمن کا نظام تیرے بعد


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں