مولانا عبدالحمید زاہدان کے مرکزی اجتماع برائے نماز جمعہ کے حاضرین میں:

امام حسینؓ کا قیام ظلم کے خلاف اور انصاف کے نفاذ کے لیے تھا

امام حسینؓ کا قیام ظلم کے خلاف اور انصاف کے نفاذ کے لیے تھا

ایرانی بلوچستان کے صدر مقام زاہدان میں پانچ اگست دوہزار بائیس کو نماز جمعہ سے پہلے خطاب کرتے ہوئے مولانا عبدالحمید نے حضرت حسینؓ کو سب مسلمانوں اور حریت پسند لوگوں کے لیے مثال یاد کرتے ہوئے تمام اہل بیتؓ کی سیرت کی پیروی پر زور دیا۔ انہوں نے واقعہء کربلا کے بعض گوشوں پر روشنی ڈالتے ہوئے امام حسینؓ کے قیام کو ایک عوامی مطالبہ قرار دیا۔
خطیب اہل سنت زاہدان نے اپنے بیان کا آغاز سورت آل عمران کی آیت 169 کی تلاوت سے کرتے ہوئے کہا: امام حسینؓ کے قیام میں سب مسلمانوں اور دنیا کے حریت پسندوں کے لیے سبق موجود ہے۔ یہ قیام ہمیشہ ذہنوں میں زندہ رہنا چاہیے۔
انہوں نے مزید کہا: اہل بیت ؓ نبی کریم ﷺ کی حیات میں ان کے پشتیبان تھے، خلفائے راشدین کے دور میں ان کے حامی رہے اور انہیں ساتھ دیا۔ اس وقت مسلمانوں میں کوئی اختلاف نہ تھا اور اختلافات حضرت عثمان ؓ کی شہادت کے بعد پیدا ہوئے اور مسلم امہ دو گروہوں میں تقسیم ہوئی؛ مسلمانوں کے اکثر امور حضرت علیؓ کے اختیار میں تھے اور بعض امور حضرت امیرمعاویہؓ کے ہاتھ میں تھے۔ حضرت علیؓ کی شہادت کے بعد، سیدنا حسن ؓ نے بلاد مسلمہ میں دو حکمرانوں کو مناسب نہ سمجھا اور حضرت معاویہؓ سے صلح کیا۔ اس بات پر متفق ہوئے کہ حاکم نبی کریم ﷺ اور خلفائے راشدین کے منہج پر حکومت کرے اور مسلمان متحد رہیں۔
شیخ الحدیث دارالعلوم زاہدان نے کہا: جب تک حضرت معاویہ ؓ حیات تھے، خلافت نبی کریم ﷺ اور خلفائے راشدین ؓ کے طریقے پر جاری رہی۔ امیرمعاویہ ؓ کے انتقال کے بعد، جب یزید نے امورِ حکومت سنبھال لیا تو مملکت میں ناانصافی عام ہوئی اور کرپشن پیدا ہوا۔ یزید ایک نالائق، عاجز اور بے تجربہ نوجوان تھا ۔ اسی لیے بعض صحابہ کرام ؓ نے اس سے بیعت نہیں کی۔ خطرہ تھا کہ مسلمانوں کی شان و شوکت برباد ہوجائے اور نبی کریم ﷺ اور خلفائے راشدینؓ کی کامیابیاں تباہ ہوجائیں۔
انہوں نے مزید کہا: ان ہی حالات میں اہلیانِ کوفہ نے جو حضرت علی ؓ سے قریب تھے ناراضگی کا اظہار کیا۔ ان کا خیال تھا کہ عالم اسلام کو ایک عادل اور قابل حکمران کی ضرورت ہے۔اسی لیے انہوں نے حضرت حسینؓ کو کوفہ آنے کی دعوت دی اور انہیں حکومت چلانے کے لیے بہترین فرد سمجھا۔
مولانا عبدالحمید نے کہا: حضرت حسینؓ نے اس عوامی مطالبہ کو درست سمجھا اور ان سے براہِ راست بیعت لینے کے لیے کوفہ روانہ ہوئے۔ جب حضرت حسین کوفہ پہنچے تو اہلِ کوفہ نے غدر کیا، حالانکہ انہوں نے اس سے پہلے ان کے نمائندہ مسلم بن عقیل سے بیعت کی تھی۔ امام حسین نے فرمایا : تم نے مجھے بلایاہے اور میں لڑنے کے لیے نہیں آیاہوں۔ اب تم ناراض ہو تو میں واپس مدینہ جاتاہوں۔ لیکن انہوں نے حضرت حسینؓ کو واپس جانے کی اجازت نہیں دی اور انہیں قیدی بناکر یزید کے پاس لے جانے کا ارادہ اظہار کیا۔ حضرت حسینؓ نے اس کو ذلت قرار دی اور اسارت سے بچنے کے لیے تلوار نکالی اور ساتھیوں سمیت شہید ہوئے۔
انہوں نے مزید کہا: یزید کے دو ایسے کارنامے ہیں جن کی کوئی توجیہ نہیں ہوسکتی: ایک کربلا میں امام حسینؓ کی ساتھیوں سمیت شہادت اور دوسرا واقعہ حرہ۔ حرہ واقعہ میں مدینہ منورہ پر دھاوا بول دیا گیااور مسجد النبیﷺ تین دنوں تک بند رہی۔ اگر یزید لائق اور قابل حاکم ہوتا، یہ واقعات پیش نہ آتے۔
مولانا عبدالحمید نے کہا: حضرت حسین ؓ لڑنے کی نیت سے نہیں گئے تھے، لیکن انہیں لڑنے پر مجبور کیا گیا۔ اگر آپؓ لڑنے کے لیے جاتے، اپنے ساتھ ایک فوج لے جاتے، بچوں اور خواتین کو ساتھ نہ لے جاتے۔ لیکن جب انہیں قیدی بنانے کی کوشش کی گئی، تو انہوں نے شہادت کو اسارت پر ترجیح دی۔
انہوں نے کہا: حضرت حسین ؓ سب مسلمانوں اور حریت پسند لوگوں کے لیے اسوہ اور مثال ہیں۔ آپؓ کا قیام ظلم اور ناانصافی کے خلاف تھا اور انہوں نے عوام کے جائز مطالبے پر مدینہ چھوڑا تاکہ ان کی بات سنیں۔

اہل بیتؓ کی سیرت پر عمل کرنا مسلمان فرقوں کا نقطہ اشتراک ہے
شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے اپنے بیان کے ایک حصے میں کہا: اہل بیتؓ مسلمانوں کے مشترکات میں شمار ہوتے ہیں اور سب مسلمان ان سے محبت کرتے ہیں۔ اہل سنت اپنی فقہ کے مطابق کسی بھی شخص کے لیے تین دن سے زائد ماتم نہیں کرتے ہیں اور برسی ہفتم، چہلم و ۔۔۔ پر اعتقاد نہیں رکھتے ہیں۔ حتیٰ کہ نبی کریم ﷺ اور خلفائے راشدین سمیت اپنے ہی عزیزوں کی برسی نہیں مناتے اور اس دن کالے کپڑے نہیں پہنتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا: مسلمان فرقے اس پر متفق ہیں کہ ان بزرگوں کی سیرت کو اپنا کر ان کے نقش قدم پر چلنا چاہیے۔ اسی سے اللہ تعالیٰ کی رضامندی حاصل ہوتی ہے؛ محض محبت کے دعوے کافی نہیں ہیں اور عمل میں بھی اس محبت کا رنگ ہونا چاہیے۔
خطیب اہل سنت نے کہا: جس طرح اہل بیت ؓ نے وحدت کا خیال رکھا اور مسلمانوں میں تفرقہ ڈالنے سے گریز کیا، ہمیں بھی ایسا ہی کرنا چاہیے؛ ایک دوسرے کی مقدسات کا احترام کریں اور کسی کے عقائد کی توہین نہ کریں۔ دشمنوں کی کوشش ہے کہ مسلمانوں میں تفرقہ ڈالیں اور مسلم قوم کو آپس میں لڑائیں۔

اتحاد بین المسلمین کا تقاضا ہے ایک دوسرے کی مذہبی تقریبات کو برداشت کریں
شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے اپنے خطاب کے آخری حصہ میں کہا: مسلم جہاں بھی ہیں ایک دوسرے کی مذہبی تقریبات کو برداشت کریں۔ یہ اتحاد کا تقاضا ہے۔ جس طرح گزشتہ جمعے کو عرض کیا، ہمارے شیعہ بھائی جہاں بھی رہتے ہیں ان کی سکیورٹی یقینی بنانا چاہیے تاکہ وہ اپنے عقائد کے مطابق اپنی رسومات بجالائیں۔
انہوں نے کہا: ایک دوسرے کو برداشت کیے بغیر حقیقی اتحاد اور ہمدلی پیدا ہونے کا امکان بہت کم ہے۔ لہذا مسلمان ایک دوسرے کی تقریبات برداشت کریں۔
انہوں نے عاشورا کے دن روزہ رکھنے کی فضیلت یاددہانی کرتے ہوئے کہا: رمضان میں روزہ کی فرضیت سے پہلے عاشورا کو روزہ رکھنا فرض تھا، لیکن رمضان میں روزے کی فرضیت کے بعد عاشورا میں روزہ کی فرضیت ساقط ہوئی اور مستحب تک محدود ہوا۔ رمضان کے روزے کے بعد سب سے زیادہ فضیلت عاشورا کے دن روزہ رکھنے کی ہے۔

میاں بیوی ایک دوسرے کے لیے رحمت ہیں
مولانا عبدالحمید نے اپنے خطاب کے پہلے حصے میں میاں بیوی کے دوطرفہ حقوق کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا: میاں بیوی ایک دوسرے کے لیے اللہ کی رحمت ہیں؛ وہ ایک دوسرے کو موقع سمجھیں اور برداشت سے کام لیں۔ جب وہ آپس میں احترام کا خیال رکھیں، ایک دوسرے کے حقوق ادا کریں اور محبت کریں، یہ محبت، احترام اور حقوق کی ادائیگی اولاد میں منتقل ہوجاتے ہیں اور پھر ان کے ذریعے پورے معاشرے میں یہ اچھائیاں پھیل جائیں گی۔
انہوں نے کہا: میاں بیوی اپنی خوشگوار زندگی کو طول دینے کے لیے ایک دوسرے کو برداشت کریں اور محبت اور نیکی سے کام لیں۔ نبی کریم ﷺ نے حجۃ الوداع میں مردوں کو خواتین کی نسبت اچھائی کرنے کی نصیحت اور وصیت فرمائی۔ والدین اور بہن بھائی کو چاہیے میاں بیوی کے تعلقات میں مداخلت نہ کریں۔


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں