بھارت میں مسلمانوں کی قدیم تاریخ اور ان پر وحشیانہ تشدد

بھارت میں مسلمانوں کی قدیم تاریخ اور ان پر وحشیانہ تشدد

مسلمان اپنے ایمان اور تشخص کو بچانے کی خاطر سب کچھ قربان کرنے کیلئے تیار رہتا ہے، ایمان ہی س کی پہلی اور آخری پونجی ہوتی ہے، جس کے سہارے وہ اپنی زندگی گزارتا ہے، قبر، پل صراط، حشر اورجنت و دوزخ سے متعلق عقائد بھی ایمان سے متعلق ہیں جس کی وجہ سے عمل سے کوسوں دور مسلمان بھی ایمان کی خاطر سب کچھ لٹا دیتا ہے تا کہ کبھی نہ کبھی اسے بخشش کا پروانہ حاصل ہو اور رب ذوالجلال کے سامنے سرخروئی ملے، لہذا عمل کے اعتبار سے کمزور سے کمزور ایمان والا بھی اس وقت طاقتور مسلمان بن جاتا ہے جس اس سے اس کے ایمان اور تشخص چھیننے کی کوشش کی جاتی ہے، وہ کسی بھی قیمت پر ایمان کا سودا نہیں کرتا، چاہے اس کوشش میں اس کی جان چلی جائے۔
آج کل ہندوستان کے مسلمانوں پر بھی کچھ اس طرح کے حالات ہیں، جہاں ان کے ایمان اور تشخص کو مٹانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اسلام دشمنوں نے مشہور تو یہی کروایا کہ ہندوستان میں اسلام بزورِ شمشیر پھیلا، ظہیرالدین بابر، محمود غزنوی اور اورنگزیب عالمگیر جیسے بادشاہوں نے طاقت کے بل بوتے پر ہندوستان میں اسلام کو مضبوط کیا، لیکن انصاف اور فراخدلی کے ساتھ تاریخ کا مطالعہ کریں تو پتہ چلتا ہے کہ ہندوستان کا تعلق عرب دنیا کے ساتھ بعثت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی پہلے کا ہے، ہندوستان کے مختلف قبائل جٹ، ٹھاکر، مید، سیابچہ یا سیابجہ، احامرہ، اساورہ، بیاسرہ تجارتی قافلوں کی صورت میں عرب کے مختلف ممالک جیسے بحرین، بصرہ، مکہ اور مدینہ میں آباد تھے، وہ لوگ ہندوستان سے ناریل، لونگ، صندل، روئی کے مخملی کپڑے، سندھی مرغی، تلواریں، چاول اور گیہوں عرب کی منڈیوں میں لے جاتے تھے، نیز تاریخ طبری میں درج ہے کہ: 10ھ میں نجران سے بنوحارث بن کعب کے مسلمانوں کا وفد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو دیکھ کر فرمایا: یہ کون لوگ ہیں جو ہندوستانی معلوم ہوتے ہیں۔ (تاریخ طبری)
اس کا مطلب یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھی ہندوستانی لوگوں کا مختلف کاموں کے سلسلے میں آنا جانا تھا، جس کی وجہ سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم ان کو پہچانتے تھے۔
تاریخ و جغرافیہ کی کتابوں سے معلوم ہوتا ہے کہ جاٹ برصغیر سے ایران پہنچے، وہاں کے مختلف قصبات میں آباد ہوئے، پھر ایران سے عرب گئے اور وہیں بود و باش اختیار کرلی۔
یہ واقعہ تو بہت مشہور ہے کہ ہندوستان کے ایک ساحلی علاقہ مالابار کے بادشاہ چکرورتی فرماس نے شق القمر کا معجزہ دیکھا تو اپنے بیٹے کو ذمہ داری سونپ کر خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ اقدس میں حاضر ہونے کے لئے نکل پڑے۔
ان تمام واقعات سے یہ بات واضح ہے کہ ہندوستان میں اسلام کو لانے اور پھیلانے والے خود ہندوستانی تھے جو پہلے ہندو تھے، بعد میں مسلمانوں کے اعلیٰ اخلاق اور اوصاف حمیدہ کے گرویدہ ہو کر مسلمان ہوگئے، اور عرب کے تجارتی قافلے کیرالہ شہر کے ساحل علاقہ مالابار آتے رہتے تھے، مالابار ہندوستان کا خوب صورت اور دلکش ساحلی علاقہ ہے جہاں دنیا کی دوسری قوموں نے بسنے کی کوشش کی لیکن عربوں نے یہاں کسی اور کو بسنے نہیں دیا، وہیں انہوں نے شادیاں کرلیں اور گھربار بسا لئے، لہذا باقی ہندوستان میں اسلام یہاں سے بھی پھیلا ہے۔
اسلام سے پہلے ہندوستان جہالت کا گڑھ تھا، جہاں سینکڑوں کی تعداد میں خدا تھے، جس نے جس کو چاہا اپنا خدا بنالیا، جس کے نتیجے میں ان کے اندر ہزاروں طبقات بن گئے، ہر طبقہ دوسرے طبقہ کے خلاف صف آراء رہتا تھا، انتہائی خستہ حالی اور بے ہنگم زندگی گزارتے تھے، لیکن جوں جوں مسلمانوں کی آمد ہندوستان میں ہونے لگی تو مسلمان اپنا تمدن اور رہن سہن کا طریقہ بھی ان کو سکھانے لگے جس کی وجہ سے یہاں نئی ثقافت اور شناخت نے جنم لیا اور یہاں کے لوگ بھی تمدن اور علم سے آراستہ ہونے لگے، لہذا ہندوستان میں مسلمانوں کا وجود ہزار سال پہلے سے ہے، جہاں مسلمان اور ہندو ایک ساتھ رہ رہے ہیں۔
پچھلے دنوں بھارت کی حکمران جماعت بھارتیا جتنا پارٹی کی رکن نپور شرمانے آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں نازیبا الفاظ کہے جس کو لے کر پوری دنیا کے مسلمانوں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی اور مسلمان سراپا احتجاج بن گئے۔ اس واقعہ کے بعد پورے ہندوستان میں احتجاج ہونے لگا، جہاں جہاں مسلمان بستے ہیں وہ اپنے اپنے علاقوں میں اس گستاخی کے خلاف احتجاج کرنے لگے اور انہوں نے اسے ناقابل برداشت قرار دیا۔
گستاخی کے خلاف احتجاج کو روکنے کے لئے بھارتی حکومت نے پولیس کی بھاری نفری مقرر کردی، جس نے تمام حدوں کو پامال کرتے ہوئے مظاہرین کے خلاف وحشیانہ تشدد کیا، گھروں کے اندر گھس کر چاردیواری کی حرمت کو پامال کیا، سینکڑوں مسلمانوں کو گرفتار کیا گیا، احتجاج میں شریک مسلمانوں کے گھروں مسمار کیا گیا، اندھا دھند فائرنگ کی گئی جس سے کئی لوگ جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ بھارتی حکومت مظاہرین کے خلاف طاقت کا بے دریغ استعمال کر رہی ہے، اور مسلمانوں کو انتہائی دردناک انداز سے مارپیٹ کررہی ہے۔ مرد تو مرد بچے، بوڑھے اور خواتین پر بھی وحشیانہ انداز میں لاٹھی چارج کیا جارہا ہے، مسلمان اپنے گھروں اور علاقوں میں محفوظ نیں ہیں، وہ ہر جگہ محصور اور ظلم کا شکار ہیں، دسیوں ویڈیو منظر عام پر آگئی ہیں جہاں دیکھا جاسکتا ہے کہ کس طرح بھارتی پولیس مسلمانوں کے املاک کو نقصان پہنچا رہی ہیں۔
ایک طرف پورے ہندوستان میں مسلمان سراپا احتجاج ہیں مگر بدقسمتی سے پوری دنیا بشمول اسلامی ممالک، مسلمانوں کی بے بسی کا تماشا دیکھ رہے ہیں، اسی طرح کا تشدد اگر کسی اسلامی ملک میں غیرمسلموں پر ہوتا تو پوری دنیا چیخ پڑتی اور اسے اپنا مسئلہ بتاتی، مگر خونِ مسلم اتنا ارزاں ہوچکا ہے کہ روز سینکڑوں ویڈیو پوری دنیا میں وائرل ہورہی ہیں مگر انسانیت سے عاری کسی انسانی حقوق کی تنظیم کے کان میں جوں تک نہیں رینگ رہی، اور اس کے خلاف عالمی سطح پر کوئی ایکشن نہیں لیا جارہا، آخر مسلمانوں کا جرم کیا ہے؟ یہی کہ وہ کلمہ پڑھتے ہیں! اپنے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ناموس کی خاطر نکلے ہیں، گستاخ نبی کی سزا کا مطالبہ کررہے ہیں، اس بنیاد پر اتنا وحشیانہ تشدد! ورنہ تو یہی مسلمان وہاں ہزاروں سال سے رہ رہے ہیں آج ان پر یہ قیامت کیوں ڈھائی جارہی ہے، کیا احتجاج کی سزا موت ہے؟ لیکن احتجاج اور قربانی اپنا اثر رکھتی ہے، اسی احتجاج اور قربانی کی بنیاد پر ایک مرتبہ ہندوستان تقسیم ہوا تھا، کیا ہندوستان دوبارہ تقسیم ہونا چاہتا ہے؟ کیونکہ آج بھی وہاں اتنے مسلمان آباد ہیں کہ اگر وہ آزادی حاصل کرلیں تو دنیا کا سب سے بڑا مسلم ملک بن جائے، لہذا ہندوستان ہوش کے ناخن لے، مزید ٹکڑوں سے بچنا چاہتا ہے تو مسلمانوں سے غیرمشروط معافی مانگے، ان پر زمین تنگ نہ کرے، ورنہ ہر زبان پر آزادی ہوگی اور کشمیر سمیت ایک اور مسلمان ملک دنیا کے نقشے پر ابھر کررہے گا۔


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں