جب تہران شہر سے زیادہ ایک چھوٹے سے گاؤں کی طرح تھا، رے اور ایران کے دوسرے شہروں کے زیادہ تر باشندے سنی مسلک پر تھے، اور ایران بھر میں کچھ پرانےاور قدیم مساجد اور مدارس اُس زمانے کے آثار ہیں۔ صفوی دور کے بعد جب شیعہ سرکاری مسلک قرار پایا، قاجار حکومت کے دور تک تہران میں سنیوں کی موجودگی کی کوئی دستاویز دستیاب نہیں ہے۔
تہران کے سنی باشندوں کی کہانی اور مساجد، عبادت گاہوں اور تعلیمی مراکز حاصل کرنے کے لیے ان کی کوششوں کا قصہ، ایک طویل داستان ہےجس کا مختصراً اس مضمون میں ذکر کیا گیا ہے، شاید اس معمہ کو حل کرنے میں تھوڑی بہت مدد ملے اور شاید حکمران اس موضوع پر دوبارہ غور کریں گے۔
قاجار حکومت کے وقت تہران میں سنیوں کی تعداد سو سے کم تھی۔ وزیرِ اعظم “امیر کبیر” کے داماد “عزیز خان” مسلح افواج کے سپہ سالار تھے جن کا تعلق اہل سنت سے تھا۔ عزیز خان پہلے تبریز میں اپنے رشتہ داروں کے ساتھ رہتے تھے اور پھر تہران چلے گئے (ان کا مکان تہران میں عزیز خان روڈ پر واقع ہے)۔
قاجار اور رضاشاہ کے دور میں تہران میں سنیوں کی تعداد بہت کم تھی اور ان کے پاس کوئی مسجد نہیں تھی۔ 1941 میں غیر ملکیوں کے ایران پر حملے، اور ایران کے شمال، جنوب اور مغرب میں ہونے والی لاقانونیت اور بدامنی کے بعد، بہت سارے سنی، خاص طور پر کُرد علاقوں کے لوگ، تہران ہجرت کر گئے۔نظریاتی، پیشہ ورانہ اور مسلکی روابط نے ان مہاجروں کو اپنے لیے ایک مسجد بنانے کے بارے میں سوچنے پر اکسایا۔ مشہور صوفی مشایخ، خاص طور پر نقشبندی مشایخ کے ایران میں سنی برادریوں کے ساتھ تعلقات نے تہران میں سنیوں کی علمی اور سماجی سرگرمیوں میں اضافہ کیا۔
شیخ “عمر ضیاءالدین” اور شیخ “علی حسام الدین” کے مریدین کی حکومتی عہدوں پر فائز اور تہران بازار میں موجود تھے اور شیخ “عثمان نقشبندی”، سراج الدین دوم (شیخ عثمان کا پوتا؛ سراج الدین اول) کی ’ترکمن صحرا‘ کی جانب اسفار نے جو اکثر تہران سے ہوتے تھے، چنانچہ سنیوں کے لیے ایک مسجد اور ان کی باہمی ملاقات کے لیے مخصوص مکان کی ضرورت کا مزید احساس ہوا۔ان ہی اسفار کے دوران، ایک مرتبہ شیخ عثمان کی رضاشاہ سے ملاقات طے ہوئی تھی۔ کچھ سنی شہریوں نے شیخ عثمان کو پیغام دیا کہ وہ تہران میں سنیوں کے لیے ایک مسجد کی تعمیر کا ارادہ رضاشاہ کے سامنےپیش کریں۔ چنانچہ بادشاہ نے تہران میں سنیوں کے لیے ایک مسجد قائم کرنے پر رضامندی ظاہر کی اور اوقاف کے سربراہ کو باقاعدہ خط بھیجا۔
جن شخصیات نے اس زمانے میں اہل سنت کی مخصوص مسجد کی تعمیر کے لیے زیادہ کوششیں کیں، ان کے نام درج ذیل ہیں: تہران کے بازار میں تھوک فروش حاجی مصطفیٰ اوطمیش، حاج کاک احمد یوسفی فر (ایران ٹینٹ کمپنی کے بانی) ، کردستان کے سید محمد شیخ الاسلام (تہران یونیورسٹی میں فیکلٹی آف تھیولوجی کے پروفیسر)، حاجی حبیب اللہ گل عنبر، ایرانی بلوچستان کے سنی عالم دین مولانا عبدالعزیز ملازادہ، جنوبی شہر بندرعباس کے سنی خطیب اور ممتاز عالم دین سید عبدالرحیم خطیب کے شاگرد اور متعلقین، بندر لنگہ کے مایہ ناز عالم دین شیخ محمدعلی خالدی سلطان العلما، طریقت قادریہ کے بعض دراویش، تہران یونیورسٹی کے بعض اساتذہ اور عدالتوں کے وکلا۔
یہ کوششیں اور مطالبات جاری رہنے کے بعد، بالاخر محکمہ اوقاف نے اہل سنت کو تہران میں مسجد تعمیر کرنے کے لیے زمین الاٹ کی۔لیکن زمین الاٹ کرنے سے آگے کوئی کام نہیں ہوا۔ وجہ یہ تھی کہ محکمہ اوقاف کے سربراہ مسٹر عصار اس مسجد کی تعمیر کے خلاف تھے۔ کہاجاتاہے مسٹر عصار نے شاہ سے اپنی مخالفت کی وجہ بتاتے ہوئے کہاہے بعض مراجع اور شیعہ علما تہران میں اہل سنت کی مسجد کی تعمیر کے خلاف ہیں؛ لہذا فی الحال اس موضوع کے بارے میں خاموش رہنا چاہیے۔
1979 کے انقلاب کی کامیابی تک یہ خاموشی برقرار رہی۔ (ان تمام سالوں میں تہران میں سنیوں نے جمعہ اور عید منانے اور نماز پڑھنے کے لیے پاکستانی سفارت خانے کا رخ کیا۔) انقلاب کے بعد شہر کی آبادی میں اضافہ ہوا اور سنیوں کے لیے ایک مسجد کی ضرورت مزید بڑھ گئی، اس لیے سنی شخصیات نے بارہا حکام کے سامنے تہران میں اپنی مسجد تعمیر کرنے کا مطالبہ اٹھایا، لیکن انھیں کوئی مثبت جواب نہیں ملا۔
1985 میں جب میرے والد شیخ “محمد شمس برہان” علاج کے لیے تہران تشریف لائے تو تہران کے بہت سے سنیوں نے انھیں مشورہ دیا کہ تہران میں مسجد کی تعمیر کی درخواست اور مسئلہ قم میں موجود ایک شیعہ مرجع تقلید کے سامنے پیش کریں۔ اس سفر میں، میں والد صاحب کے ساتھ تھا جہاں والد صاحب نے اس پیشوا سے کہا اہل سنت کے لیے تہران میں اپنی مسجد تعمیر کرنا ضروری ہے جس طرح ’ہفتہ وحدت‘ بھی ضروری ہے اور منایاجارہاہے۔انہوں نے قرآن و سنت کی روشنی میں ان صاحب پر واضح کیا کہ ایسی مسجد کی تعمیر پوری امت اور قوم کے عین مفاد میں ہے۔ اس محترم مرجع نے جواب میں کہا کہ تہران بہت بڑا شہر ہے اور مسجد تعمیر کرنے کی صورت میں شہر کے مختلف علاقوں اور محلوں سے سنی نمازیوں کے لیے ایک ہی مسجد میں اکٹھے ہونا مشکل ہے۔ لہذا آپ شہر میں موجود شیعہ مساجد میں نماز قائم کیا کریں اور خاص سنی مسجد کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔
اس کے بعد، زاہدان میں اہل سنت کے خطیب اور جامعہ دارالعلوم زاہدان کے صدر مولانا عبدالحمید سمیت پارلیمنٹ میں سنی بلاک کے ارکان نے اس مطالبہ کی پیروی کی اور کررہے ہیں، لیکن ابھی تک حکام نے اہل سنت کو تہران میں مسجد تعمیر کرنے کی اجازت نہیں دی ہے۔
(مسجد نہ ہونے کی وجہ سے تہران کے سنی باشندے مختلف مقامات پر نمازخانوں میں پنج وقتہ نمازیں اور نماز جمعہ ادا کرتے ہیں۔)
آپ کی رائے