انڈیا کے سابق نائب صدر محمد حامد انصاری نے کہا ہے کہ پیغمبرِ اسلام کے بارے میں حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے عہدیداروں کی طرف سے ‘نازیبا’ کلمات پر وزیر اعظم ‘مودی کی خاموشی کوئی اتفاق نہیں بلکہ یہ بہت معنی خیز ہے۔’
بی جے پی کی ترجمان نوپور شرما (جنھیں اب ترجمان کے عہدے سے ہٹا دیا گیا ہے اور پارٹی سے معطل کردیا گیا ہے) نے 26 مئی کو ایک ٹیلی ویژن چینل پر پیغمبرِ اسلام کے خلاف کچھ قابل اعتراض تبصرے کیے تھے۔
نوپور شرما کے علاوہ بی جے پی کے دلی کے سرکاری میڈیا سیل کے سربراہ نوین جندال (جنھیں اب پارٹی سے نکال دیا گیا ہے) نے ایسی ہی متنازع گفتگو ٹوئٹر پر شیئر کی تھی۔
اس واقعے کے تقریباً 10 دن بعد عرب ممالک کے علاوہ انڈونیشیا، ملائیشیا اور مالدیپ سمیت کم از کم 15 اسلامی ممالک نے انڈیا کے خلاف سخت ناراضی کا اظہار کیا ہے۔ یہاں تک کہ قطر نے انڈیا کی حکومت سے اس معاملے میں معافی مانگنے کو کہا تھا۔
انڈیا کی وزارت خارجہ نے ایک سرکاری بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ یہ بیانات اور ٹویٹس کسی بھی طرح حکومت کے خیالات کی عکاسی نہیں کرتے۔ ’یہ حاشیہ عناصر کے خیالات ہیں اور ایسے متنازع بیانات دینے والوں کے خلاف کارروائی کی گئی ہے۔‘
حامد انصاری نے اس سارے معاملے پر بی بی سی سے خصوصی گفتگو کی
یہ پوچھے جانے پر کہ وزیر اعظم نریندر مودی اب تک اس سارے معاملے پر خاموش کیوں ہیں، حامد انصاری نے کہا کہ ’یہ بہت معنی خیز ہے۔‘ انھوں نے کہا کہ ’نہ تو وزیر خارجہ، نہ ہی وزیر داخلہ اور نہ ہی وزیر اعظم نے اب تک کوئی بیان دیا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جن سے بیان کی توقع کی جاسکتی ہے۔‘
وزیر اعظم مودی کے عرب ممالک کے ساتھ تعلقات کا ذکر کرتے ہوئے انصاری نے کہا کہ موجودہ وزیر اعظم جن کے تمام ممالک سے روابط ہیں کی خاموشی ’معنی خیز ہے۔ حادثاتی نہیں۔‘
وزیر اعظم کی خاموشی پر رد عمل ظاہر کرتے ہوئے انصاری نے مزید کہا کہ ’اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اس سے اختلاف نہیں کرتے۔ کم از کم اتنا ہی کہا جاسکتا ہے۔ یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ وہ اسے متفق ہیں۔ دونوں باتیں غلط ہیں۔‘
انھوں نے کہا کہ وزیر خارجہ کا بیان بھی ابھی تک نہیں آیا ہے کیونکہ وزیر خارجہ کو بھی کہیں سے منظوری لینی ہوتی ہے۔
حامد انصاری نے کہا کہ یہ تنازع بہت نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے کیونکہ ہر مذہب کا ایک حساس نکتہ ہوتا ہے اور ان کے مطابق اسلام کے لیے پیغمبر اسلام کی شخصیت بھی اتنا حساس معاملہ ہے ’جس پر کسی قسم کی کوئی نامناسب یا متنازع بات نہیں کی جانی چاہیے۔‘
ان کے مطابق ’بی جے پی ترجمانوں کا بیان حضرت محمد کی شخصیت پر حملہ تھا اور دنیا کا کوئی مسلمان اسے کبھی برداشت نہیں کرتا۔‘
حامد انصاری کا کہنا تھا کہ دنیا بھر کے مسلمانوں کو اس سے تکلیف پہنچی ہے اور صرف یہ کہنا کہ حکومت ان بیانات سے متفق نہیں ہے ’حکومت کی جانب سے کافی نہیں ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ اصل بات یہ ہے کہ یہ سب ایک پالیسی کے تحت کیا جا رہا ہے۔
حامد انصاری نے کہا کہ عرب ممالک کی جانب سے ردعمل وہاں کے اعلیٰ ترین عہدوں پر فائز لوگوں کی رضامندی سے سامنے آیا ہے۔
انڈیا میں عرب اور دیگر اسلامی ممالک کے رد عمل کے بارے میں دو طرح کی چیزیں اٹھائی جا رہی ہیں۔
ایک طبقہ کہہ رہا ہے کہ عرب ممالک نے کبھی بھی انڈین مسلمانوں کے مسائل پر کوئی بیان نہیں دیا جبکہ دوسرا طبقہ یہ کہہ رہا ہے کہ عرب ممالک چین میں اویغور مسلمانوں پر مبینہ مظالم پر خاموش رہتے ہیں اور ’جب پاکستان میں احمدی برداری اور شیعہ مسلمانوں پر مبینہ ظلم و ستم ہوتا ہے تو یہ تمام عرب اور اسلامی ممالک خاموش رہتے ہیں۔‘
حامد انصاری نے کہا کہ وہ چین پر بات کیوں نہیں کرتے، یہ سوال بالکل درست ہے۔ ’حقیقت یہ ہے کہ یہ اتنا حساس مسئلہ ہے کہ وہ خاموش نہیں رہ سکتے تھے۔’
قطر نے اس معاملے پر انڈیا سے معافی مانگنے کا مطالبہ کیا ہے۔ اس صورت میں انڈیا میں عوام کی رائے منقسم ہے۔
کانگریس سمیت کئی حزب اختلاف کی جماعتوں کا کہنا ہے کہ بی جے پی کے دو ترجمانوں نے یہ قابل اعتراض بیان دیا ہے، لہذا انڈین حکومت کو اس معاملے میں معافی نہیں مانگنی چاہیے۔
حامد انصاری نے کہا کہ ’یہ کہنا کہ یہ صرف ایک شخص کا بیان تھا جس کی کوئی حیثیت نہیں تھی بالکل غلط ہے۔ حکمران جماعت کے سرکاری ترجمان کا بیان اس طرح نہیں دیا گیا ہے۔‘
حامد انصاری نے اس پر حکومت کو آڑے ہاتھوں لیا اور کہا کہ یہ بیان صرف بیان نہیں ہے بلکہ گذشتہ چند ماہ میں اس طرح کے بہت سے بیانات سامنے آئے ہیں۔ ان کے مطابق اس سارے تنازع میں مسلمانوں کے خلاف بحث کی گئی مگر ’حکومت خاموش رہی ہے۔‘
حامد انصاری نے اس کے لیے حکومت کو براہ راست ذمہ دار قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’ایسا اچانک نہیں ہوا۔ حالات بگڑ رہے تھے اور حکومت اسے برداشت کر رہی تھی کیونکہ حکومت کی ایک پالیسی ہے اور وہ یہ قبول نہیں کرے گی۔‘
حامد انصاری نے کہا کہ اگر وہ آج وزارتِ خارجہ میں ہوتے تو وزیر خارجہ یا وزیر اعظم سے درخواست کرتے کہ وہ ان سے بات کریں اور معاملہ نمٹا دیں۔
نوپور شرما کے بیان کے بعد انڈیا میں کچھ مسلمان کارروائی کا مطالبہ کر رہے تھے لیکن حکومت مکمل طور پر خاموش رہی اور عرب ممالک کے بیان کے بعد ہی یہ حرکت میں آئی۔
کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ ایسا کر کے انڈیا کی حکومت انڈیا کے مسلمانوں کو دوسرے اسلامی ممالک کی طرف دیکھنے پر مجبور کر رہی ہے۔
اس کی تردید کرتے ہوئے حامد انصاری نے کہا کہ ’ہم اس ملک میں رہتے ہیں۔ وہ اس ملک کے شہری ہیں۔ ہمارے حقوق یہاں ہیں. مسلمان آج نہیں بلکہ سینکڑوں سال سے رہ رہے ہیں۔ ہندوستانی مسلمانوں نے کبھی بھی بیرونی مدد کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ وہ اپنے حقوق کے لیے خود لڑتے ہیں اور انھیں کسی حد تک حاصل کرتے ہیں۔ وہ ایسا نہیں کرتے (کہ بیرونی مدد حاصل کریں)۔‘
حامد انصاری نے اس معاملے میں اپوزیشن جماعتوں پر بھی تنقید کی۔ ’تقریباً تمام اپوزیشن جماعتیں دس دن تک اس سارے معاملے پر خاموش رہیں۔ ان کا یہ بیان عرب ممالک کی جانب سے یہ مسئلہ اٹھانے کے بعد ہی سامنے آیا ہے۔‘
حامد انصاری نے کہا کہ ’وہ اس معاملے میں اپوزیشن جماعتوں کے رویے سے مایوس ہیں۔‘
اقبال احمد
بی بی سی، انڈیا
آپ کی رائے