بھارت کی جنوبی ریاست میں بند اسکول دوبارہ کھول دیے گئے، ان اسکولوں کو گزشتہ ہفتے طلبہ کی جانب سے کلاسز میں حجاب پر پابندی کے خلاف احتجاج کے پیش نظر بند کیا تھا۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کے مطابق اس وقت جب وزیر اعظم نریندرا مودی کی بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) اہم ریاست میں انتخابات کی تیاریوں میں مصروف ہے بھارتی مسلم برادری کی جانب سے اٹھائے گئے اس مسئلے کو حکام کی جانب سے دبانے کی کوشش کی گئی۔
اسکول کھلنے کے بعد گلابی یونیفارم میں درجنوں لڑکیاں اسکول میں داخل ہوئیں اس موقع پر سرکاری اسکول کے باہر پولیس تعینات تھی، حجاب سے متعلق واقعہ بنگلورو ٹیک حب سے تقریباً 400 کلو میٹرز دور کرناٹک ریاست کے ضلع اڈوپی میں پیش آیا تھا۔
حکومت نے تعلیمی ادارے کے 200 کلو میٹر کے احاطے میں 5 سے زائد افراد کے جمع ہونے پر پابندی عائد کردی ہے، یہاں پرائمری ہائی اسکول میں کلاسز کا آغاز کردیا گیا ہے، تاہم سیکنڈری اور کالج کی کلاسز کا تاحال آغاز نہیں کیا گیا ہے۔
اسکول کھلنے کا اقدام ریاست کی عدالت میں معاملے کی سماعت کے بعد سامنے آیا جس میں طلبہ کو کہا گیا کہ وہ تاحکم ثانی کلاس روم میں چادر سے حجاب تک کسی قسم کا مذہبی لباس نہیں پہنیں گی۔
گزشتہ ہفتے عبوری حکم نامے میں عدالت نے کہا کہ ’اگر کلاس روم میں حجاب پہننا اسلامی تعلیمات بنیادی حصہ ہے تو آئینی ضمانت کی روشنی اس کا جائزہ لیا جائے گا‘۔
یہ مسئلہ گزشتہ ہفتے منظر عام پر آیا جب کچھ اسکولوں نے حجاب پہننے کو منع کردیا، معلوم ہوتا ہے یہ مسئلہ ایک ریاست میں 5 فروری کو یونیفارم سے متعلق حکم کے بعد سامنے آیا تھا، اس ریاست میں وزیر اعظم نریندرا مودی کی جماعت بی جے پی ووٹرز بڑی تعداد میں موجود ہیں۔
پارٹی کو بھارت میں موجود ہندو اکثریت کی مکمل حمایت حاصل ہے، بھارت کی ایک ارب 40 کروڑ کی آبادی میں 80 فیصد آبادی ہندوؤں کی ہے جبکہ یہاں 13 فیصد مسلمان آباد ہیں۔
اڈوپی کی طالبعلم عائشہ امتیاز کا کہنا ہے کہ کلاس میں داخل ہونے پر حجاب اتار دینے کا حکم شرمناک ہے۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کا کو بتایا کہ ’ مجھے محسوس ہوتا ہے کہ میرے مذہب پر سوالات اٹھائے گئے اور اس جگہ اس کی توہن کی گئی جسے ہم تعلیم کا گڑھ سمجھتے ہیں‘۔
ساحلی ضلع اڈوپی کے عہدیدار پرادیب کروندیکار ایس نے میڈیا کو بتایا کہ حکام عدالت کے آئندہ حکم یا حکومت کی جانب سے تمام کلاسز دوبارہ شروع کروانے کے منتظر ہیں۔
اس مسئلے سے مسلمان خواتین اور امریکی حکومت سے نوبل اعزاز یافتہ ملالہ یوسف زئی کی حمایت کے اظہار نے جنم لیا ہے۔
آپ کی رائے