مولانا عبدالحمید کا ایران میں سنی خطبا کی معزولی کے احکام پر احتجاج:

اہل سنت کے مذہبی امور میں مداخلت آئین کی تصریح کی خلاف ورزی ہے/ اہل سنت کا اپنا اوقاف بورڈ ہونا چاہیے

اہل سنت کے مذہبی امور میں مداخلت آئین کی تصریح کی خلاف ورزی ہے/ اہل سنت کا اپنا اوقاف بورڈ ہونا چاہیے

زاہدان (سنی آن لائن) شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے اپنے چوبیس دسمبر دوہزار اکیس کے بیان میں ایران کے بعض سنی اکثریت علاقوں میں اہل سنت کے مذہبی امور میں حکومتی مداخلت پر تنقید کرتے ہوئے ایسے اقدامات کو آئین کے واضح متن کی خلاف ورزی قرار دیا۔
خطیب اہل سنت زاہدان نے نماز جمعہ سے پہلے خطاب کرتے ہوئے آئین کے آرٹیکل بارہ پر عملدرآمد کی ضرورت پر زور دیا۔ انہوں نے کہا شیعہ علما ہمارے مذہبی امور کے بارے میں فیصلہ نہ کریں؛ ہمارا اپنا اوقاف بورڈ ہونا چاہیے جس طرح دیگر ملکوں میں اہل تشیع کا اپنا وقف بورڈ ہے۔
زاہدان میں ہزاروں فرزندانِ توحید سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا: آئین کے مطابق، اہل سنت کے تمام مسالک اپنے تعلیمی اور مذہبی امور میں آزاد ہیں۔ اگرچہ آئین نے ہمارے علمائے کرام مثلا مولانا عبدالعزیزؒ کی مخالفت کے باوجود فقہ جعفری اثناعشری کو ملک کا سرکاری مسلک قراردیا ہے، لیکن بالاخر یہی قانون پاس ہوا جس کو ہمیں ماننا پڑا۔ اب جو کچھ ہم کہتے ہیں اور مطالبہ پیش کرتے ہیں، وہ سب آئین کی حدود میں ہیں اور یہ عدل و انصاف سے بالاتر نہیں ہیں۔ آئین نے ہمیں مذہبی امور میں آزادی دی ہے۔
مولانا عبدالحمید نے مزید کہا: نماز جمعہ ایک مذہبی تقریب ہے اور کسی کو رکاوٹ ڈالنے کی اجازت نہیں ہے۔ افسوس سے کہنا پڑتاہے جو آزادی آئین نے ہمیں دی ہے، وہ عملا نہیں دی گئی۔ چنانچہ تہران میں ایک کونسل بنائی گئی ہے جو ہمارے مذہبی امور کو چلانے اور منصوبہ بندی کے لیے ہے۔ ہمارے صوبے میں انہیں کوئی رکاوٹ پیدا کرنے کی ہمت نہیں ہوئی ہے، لیکن دیگر علاقوں میں جو اس کونسل کا حصہ ہیں، مسائل کھڑے ہوئے ہیں؛ دینی مدارس کے اساتذہ کو ایک خاص حکومتی سیلیکشن کمیٹی سے منظوری لینی پڑتی ہے۔ سب سے زیادہ سخت حالات کردستان میں ہیں اور کرد علما سخت ناراض ہیں۔
انہوں نے بات آگے بڑھاتے ہوئے کہا: ہمیں توقع نہ تھی کہ سنندج (کردستان کے صدرمقام) کے اسلامی مرکز کے صدر قم سے آئے ہوئے ایک شیعہ ہو۔ حالانکہ حکومت کو ماننے والے اور ساتھ دینے والے متعدد علمائے کرام اس خطے میں ہیں۔ علمائے اہل سنت پر کیوں اس حوالے سے اعتماد نہیں کیا گیا؟
ممتاز سنی عالم دین نے کردستان کے سرکاری اسلامی مرکز اور حساس اداروں کے دباؤ کے نتیجے میں دسیوں دینی مدارس کی بندش کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا: سکیورٹی اداروں کا کام دینی مدارس اور مساجد کے امور میں مداخلت نہیں ہے۔ حکومت نگرانی کرسکتی ہے، لیکن مداخلت کا حق نہیں رکھتی۔ نگرانی بھی سکیورٹی اداروں، پولیس اور حساس اداروں کے ذریعے نہیں بلکہ بااثر عوامی شخصیات سے کرنی چاہیے۔ اداروں کے مزاج مختلف ہیں اور ان کی مداخلت کی وجہ سے کردستان میں دین داری کو نقصان پہنچ چکاہے؛ حالانکہ نظام اسلامی ہے اور اسلام پسندی کو تقویت ملنی چاہیے تھی۔ مذہبی امور اور نماز جمعہ و جماعت کے ائمہ کی برطرفی میں مداخلت کی گئی ہے کہ لوگ بیزار ہو کر مسجد جانے سے گریزاں ہیں۔
انہوں نے مزید کہا: امام ایک ایسا شخص ہو کہ لوگوں کو مانے اور لوگ اسے مانیں؛ بزورطاقت اسے امام نہ بنوایاجائے۔اس حوالے سے کردستان بہت شکایتیں موصول ہورہی ہیں۔ سرکاری ادارے خطیب جمعہ کی تقرری کو اپنا حق سمجھتے ہیں؛ مساجد کو لوگ خود آباد کرتے ہیں۔ جب اہل سنت خود مسجد اور مدرسہ بناتے ہیں، انہیں اپنا امام اور خطیب چننے کی اجازت حاصل ہونی چاہیے۔
انہوں نے کہا: ہم سب آئین کے پابند ہیں اور آئین ہی کے مطابق ہمارے مدارس و مساجد کو آزادی حاصل ہونی چاہیے۔ حیرت کی بات ہے کہ ایک گاؤں میں اگر مسجد تعمیر کرنے کا ارادہ ہو، اس کے لیے ایک ایسی کونسل کی رائے ضروری ہو جس میں سکیورٹی، عدالتی اور سول حکمرانوں کے علاوہ شیعہ علما شامل ہیں اور بہت کم تعداد میں سنی علما بھی اس کا حصہ ہیں۔ سکیورٹی ادارے ہمارے لیے عزیز ہیں اور انہیں ملک کی حفاظت پر کام کرنا چاہیے، لیکن مذہبی امور میں انہیں کھینچ کر نہ لایاجائے۔ حساس اداروں کا کام ملک دشمن عناصر سے مقابلہ ہے، مذہبی امور میں مداخلت نہیں!
مولانا عبدالحمید نے واضح کرتے ہوئے کہا: اب تک ہم نے رواداری سے کام لیاہے اور آئندہ بھی ہمارا رویہ یہی ہوگا، لیکن یہ ہمارا حق نہیں ہے۔ اہل سنت سے برتاؤ آئین کے واضح متن کے خلاف ہے اور ہم آئین ہی کی حدود میں حکم مانتے ہیں۔ ہمارا قومی عہد آئین ہی ہے؛ اگر کوئی آئین سے گزرجائے، اسے ماننا ہمارے لیے مشکل ہے۔ یہ ہمارے نقصان میں ہے۔ ہماری آزادی کی تعریف آئین میں آچکی ہے اور ہمارے خیال میں مذہبی امور میں ہمیں آزاد چھوڑنا چاہیے۔

انقلاب سے 43 سال گزرنے کے بعد بھی ایران کی سنی برادری اپنے مطالبات کی منظوری کے انتظار میں ہیں
سنی برادری کے حق میں امتیازی سلوک کی جانب اشارہ کرتے ہوئے اہل سنت ایران کے ممتاز رہ نما نے کہا: انقلاب کی کامیابی سے 43 گزرچکے ہیں اور ابھی تک مناصب کی تقسیم میں سنی برادری کو جان بوجھ کر نظرانداز کیا جارہاہے۔ صوبے کے جنوب میں بعض اضلاع کے گورنرز سنی ہیں، لیکن زاہدان جو سیستان بلوچستان کا صدر مقام ہے یہاں صرف دس فیصد عہدے اہل سنت کے پاس ہیں۔ تم نے سنی برادری کا حق پامال کیا ہے۔ حالانکہ ہمارے نزدیک شیعہ و سنی سب ہی اس ملک کے باشندے اور بھائی بھائی ہیں۔
خطیب اہل سنت زاہدان نے کہا: افغانستان سمیت سب مسلم ممالک میں ہم نے ہمیشہ شیعہ اقلیت کے حقوق کا دفاع کیا ہے اور ہمارے خیال میں افغانستان میں اہل تشیع پر ظلم نہیں ہوتا۔ جب وہاں خودکش حملے ہوئے ہمیں بہت صدمہ ہوا اور ہم نے اس کی مذمت کی۔ لسانی اور مذہبی اقلیتوں کے حقوق کے بارے میں عدل نافذ ہونا چاہیے اور یہ ہماری سیاست نہیں، عقیدہ ہے۔
انہوں نے کہا: تینتالیس سال گزرچکے ہیں اور ابھی تک ایک سنی بھی کسی کابینہ میں شامل نہیں ہوا ہے۔ ابھی تک ہم کوشش کررہے ہیں کہ اہل سنت کو اعلیٰ عہدوں پر دیکھیں۔ سنی اکثریت صوبوں کے مراکز میں ان سے بہت کم کام لیاجاتاہے۔ ہمیں آپ سے توقع ہیں؛ ہماری رشتہ داریاں ہیں۔ دنیا کے کس ملک میں مسلح افواج نے مخصوص مذہب یا قومیت کو بھرتی ہونے سے روکا ہے؟ پورے صوبہ سیستان بلوچستان میں دو سنی ججز تھے جو کورونا کی وجہ سے انتقال کرگئے اور ان کی جگہ اب خالی ہے۔ عدلیہ اور مسلح اداروں کو چاہیے اہل سنت کو خود سے دور نہ رکھیں اور انہیں خدمت کا موقع دیں۔
انہوں نے ایران کے مرشدِ اعلیٰ آیت اللہ خامنہ ای سے مطالبہ کیا بذاتِ خود اہل سنت کے مسائل حل کرائیں اور انہیں دیگر اداروں کے رحم و کرم پر نہ چھوڑیں۔
’ہم سب ایرانی ہیں اور ہمارے آباؤ اجداد نے اس ملک کی سرحدوں کی حفاظت کی خاطر اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا ہے۔ ہم نے انگریزوں اور پرتگالی فوجوں سے جنگیں لڑی ہے۔ تمام سرحدی علاقوں میں جہاں اہل سنت رہتے ہیں، انہوں نے اجنبی فوجوں سے لڑکر اپنے وطن کی خاطر اپنا خون بہایاہے۔ شیعہ علما، خاص کر وہ حضرات جو حکومت کا حصہ ہیں یا اس میں اثرو رسوخ رکھتے ہیں، اور صدر رئیسی سے ہماری کچھ توقعات ہیں؛ ہم نے تمام تر دباؤ کے باوجود قومی مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے انہیں ووٹ دیاہے۔‘
صدر دارالعلوم زاہدان نے کہا: کئی مہینے گزرچکے ہیں اور نئی حکومت نے اہل سنت کے لیے کچھ نہیں کیا ہے سوائے ایک مشیر کی تقرری کی۔ یہ ملک صرف شیعوں کا نہیں، اتنا ہی اہل سنت کا بھی ہے۔ ان امتیازی رویوں کا خاتمہ ہونا چاہیے۔
انہوں نے مزید کہا: ہمیں قبول ہے کہ ہمارا نظام اسلامی ہے، لیکن ملک پر شیعہ فقہ کا راج ہے سنی فقہ کا نہیں۔ ہمارے مشترکات بہت ہیں، لیکن اختلافات بھی زیادہ ہیں۔ جو پھانسی کے حکم ملک میں نافذ ہورہے ہیں، اہل سنت کی فقہ یہ ناقابل قبول ہیں۔ ملزموں سے جبری اعتراف لینا فقہ اہل سنت میں مردود ہے۔ان مسائل پر گفتگو کرنی چاہیے۔

مولانا گورگیج کی معزولی کا حکم عجلت پسندی پر مبنی تھا
شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے اپنے خطاب کے آخری حصہ میں ایران کے شمالی صوبہ گلستان کے ممتاز عالم دین مولانا محمد حسین گورگیج کی خطابت سے معزولی کے سرکاری حکم پر تنقید کرتے ہوئے کہا: مولانا گورگیج ملکی سطح پر ایک ممتاز عالم دین ہیں اور انہیں کافی مقبولیت حاصل ہے۔ چالیس سال سے زائد عرصے کے دوران انہوں نے دینی خدمات اور خطابت جمعہ سے لوگوں کی خدمت کی ہے اور اسی لیے لوگ انہیں چاہتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا: مولانا گورگیج ہرگز اہل بیت ؓ کی توہین کو برداشت نہیں کرتے اور ایسا کرنا ان کے عقیدے کے خلاف ہے۔ انہیں اہل بیت سے اتنی محبت ہے کہ جب ان کا تذکرہ کرتے ہیں تو آبدیدہ ہوجاتے ہیں۔ اس کے باوجود انہوں نے اپنی بات پر معذرت کی جس سے بعض لوگوں کی دل آزاری ہوئی تھی۔ یہ ان کی بہادری ہے۔
مولانا عبدالحمید نے کہا: ہم نے اس مسئلے کو حل کرانے کی کوشش کی؛ متعدد شخصیات سے رابطہ کیا اور سپریم لیڈر کو خط بھی لکھا۔ سپریم لیڈر کے نمائندوں نے کہا کہ اس مسئلے کو افہام و تفہیم سے حل کیاجانا چاہیے، لیکن آخر میں کہا گیا کہ صوبائی سکیورٹی کونسل نے مولانا گورگیج کی آزادشہر آمد اور امامت جمعہ کی مخالفت کی ہے۔ یہ بہت عجلت پسندی تھی کہ مولانا کو اپنی صفائی پیش کرنے کی اجازت نہیں دی گئی اور انہیں فورا برطرف کیا گیا۔
ممتاز سنی عالم دین نے کہا: اہل سنت ایران میں دو کروڑ سے زائد آبادی والی کمیونٹی ہے؛ ہم اس ملک کے اہم باشندے ہیں۔ ہمارے لیے ہرگز قابل قبول نہیں کہ ہماری مساجد کے لیے دیگر ادارے فیصلے کریں۔ جس طرح دیگر مسلم ممالک میں اہل تشیع کا اپنا اوقاف بورڈ ہے، اسی طرح اہل سنت کا اپنا اوقاف بورڈ ہونا چاہیے۔ ہم شیعہ علما کا احترام کرتے ہیں، لیکن ہمارے مذہبی امور کی بھاگ دوڑ ہمارے ہی ہاتھوں ہونی چاہیے اور اہل تشیع کے مذہبی امور خود ان ہی کے ہاتھوں۔ حکومت صرف نگرانی کرے۔
انہوں نے مزید کہا: ایسی زندگی گزاریں کہ تاریخ ہمارے بارے میں اچھا فیصلہ کرے کہ اہل سنت سے کس طرح سلوک کیا گیا۔ آنے والی نسلوں کے لیے ایک روشن تاریخ رقم کریں اور عدل و انصاف سے کام لیں۔ امید ہے مسائل حل ہوجائیں اور کسی کی دل شکنی نہ ہوجائے، بصورت دیگر دشمنوں کو تفرقہ ڈالنے اور غلط فائدہ اٹھانے کا موقع ہاتھ آئے گا۔


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں