انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں حلقہ بندی کمیشن کی تجویز

انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں حلقہ بندی کمیشن کی تجویز

جموں کشمیر کے تین سابق وزرائے اعلیٰ، فاروق عبداللہ، عمرعبداللہ اور محبوبہ مفتی کئی دیگر ہند نواز رہنماوٴں کے ہمراہ یکم جنوری کو انڈین حکومت کے انتخابی حلقہ بندی کمیشن کی سفارشات کے خلاف ‘خاموش احتجاج‘ کر رہے ہیں۔
ان سیاسی حلقوں کے اتحاد ‘پیپلز الائنس فار گپکار ڈیکلیریشن‘ یا پی اے جی ڈی نے یہ اعلان سرینگر میں کیا ہے۔
انڈیا کی سابق چیف جسٹس رنجنا پرساد دیسائی کی سربراہی والے انتخابی حلقہ بندی کمیشن نے 20 دسمبر کو نئی دہلی میں ایک اجلاس کے بعد یہ اعلان کیا تھا کہ جموں کشمیر کی موجودہ 83 نشستوں میں سات نشتوں میں اضافہ کیا جائے۔ لیکن کمیشن کی سفارشات میں تھا کہ وادی کشمیر کے لیے صرف ایک جبکہ جموں خطے کے لیے چھ نشستوں کا اضافہ کیا جائے۔
اس کے علاوہ 16 نشستوں کو شیڈول کاسٹ یعنی مخصوص ذاتوں اور قبائل کے لیے مختص کیا گیا ہے۔
واضح رہے لداخ کو مرکز کے زیرانتظام علیحدہ خطہ قرار دینے کے بعد 87 رکنی جموں و کشمیر اسمبلی میں نششتوں کی تعداد 83 رہ گئی ہے جن میں سے 43 کشمیر جبکہ 37 جموں میں ہیں۔
نئی سفارشات کے مطابق اب جموں میں نشتوں کی تعداد بڑھ کر 43 ہو جائے گی جبکہ کشمیر میں فقط 44 نشتیں ہوں گی۔
ان سفارشات کو کشمیر کے تقریباً تمام ہند نواز سیاسی حلقوں نے ناقابل قبول اور کشمیریوں کو ‘ڈِس ایمپاور’ یعنی بے اختیار کرنے کے مترادف قرار دیا ہے۔
تاہم جموں کے اکثر سیاسی حلقے اس سفارش کو جموں کے دیرینہ سیاسی مطالبات کو تسلیم کرنے کی طرف پہلا قدم قرار دے رہے ہیں۔

کمیشن کی سفارش سے کیا خدشات ہیں؟
کمیونسٹ پارٹی کے سربراہ اور پی اے جی ڈی کے ترجمان محمد یوسف تاریگامی کہتے ہیں کہ جموں کشمیر کی سابق اسمبلی نے 20 برس قبل ایک قرار داد منظور کر کے انتخابی حلقوں کی نئی حلقہ بندی کو 2026 تک موٴخر کرنے کے لیے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی تھی جس کے بعد یہ عمل سرد خانے میں پڑ گیا۔
اب پورے ملک میں مُردم شماری کے بعد 2026 میں ہی حلقہ بندی ہو گی، لیکن جموں کشمیر واحد خطہ ہے جہاں یہ عمل ابھی انجام دیا جارہا ہے۔
محمد یوسف تاریگامی کہتے ہیں کہ ’ظاہر ہے اس سے یہ عمل ہی مشکوک ہو جاتا ہے، اور پھر ہم نے پچھلے سال تشکیل دیے گئے اس کمیشن کو ہی عدالت میں چیلنج کیا تھا اور معاملہ زیر سماعت ہے۔ عدالتی فیصلے سے پہلے ہی حلقہ بندی کیسے ہو سکتی ہے۔‘
تاریگامی 2011 میں ہوئی مردم شماری کے اعداد و شمار کو حوالہ دے کر کہتے ہیں کہ ’کشمیر کی آبادی 68.8 لاکھ جبکہ جموں کی آبادی 53.5 لاکھ ہے۔ جہاں 15 لاکھ لوگ زیادہ ہیں وہاں ایک سیٹ کا اضافہ اور جہاں لوگ کم ہیں وہاں چھ سیٹیں یہ کیسے ہوسکتا ہے!‘
سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ انڈیا کی حکمران جماعت بی جے پی جموں کشمیر میں انتخابات سے قبل غیر منصفانہ طریقے سے نشستوں کا بٹوارہ کر کے نئی اسمبلی کے ذریعے پانچ اگست 2019 کو لیے گئے فیصلوں پر مہرِ تصدیق ثبت کرنا چاہتی ہے۔
سابق وزیر اور پیپلز کانفرنس کے سربراہ سجاد غنی لون نے اپنے شدید ترین ردعمل میں بتایا ’یہ اُن ہزاروں لوگوں کی قربانی کی توہین ہے جنھوں نے انڈیا کے لیے سینے پر گولی کھائی ہے، یہ فیصلہ ہماری آئندہ کئی نسلوں کو متاثر کرے گا، اس فیصلے نے ثابت کر دیا کہ یہ جگہ ہمارے لیے نہیں ہے۔‘
محبوبہ مفتی نے اپنے ردعمل میں کہا کہ اس سفارش سے یہ ثابت ہوا کہ طویل عرصے سے جن خدشات کا وہ اظہار کر رہی تھیں وہ بے بنیاد نہیں تھے۔
بعض کشمیری سیاسی حلقوں کو خدشہ ہے کہ ’جموں کے ہندو اکثریتی خطے میں ایسے علاقوں میں نشستوں کا اضافہ کیا جا رہا ہے جہاں ہندووٴں کی اکثریت ہے اور اس راجوری، پونچھ، ڈوڈہ، رام بن، بھدرواہ، کشتواڑ جیسے علاقے، جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے، ان علاقوں میں مسلمانوں کی نمائندگی کمزور پڑجائے گی۔‘
یہ بات قابل ذکر ہے کہ چار اگست 2019 کو سرینگر کے گپکار علاقے میں واقع فاروق عبداللہ کی رہائش گاہ پر فاروق عبداللہ کی نیشنل کانفرنس، سجاد لون کی پیپلز کانفرنس، محبوبہ مفتی کی پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی، محمد یوسف تاریگامی کی کمیونسٹ پارٹی، حکیم یاسین کی پیپلز ڈیموکریٹک فرنٹ اور دیگر کئی پارٹیوں کے کل جماعتی اجلاس میں ایک قرار داد منظور کی گئی تھی، جس میں جموں کشمیر کی خود مختاری کے تحفظ کے لیے سیاسی اتحاد کا اعلان کیا گیا تھا۔
تاہم اگلے ہی روز نئی دہلی کی پارلیمنٹ میں دفعہ 370 کے خاتمہ کا اعلان کیا گیا اور جموں کشمیر کی نتظیم نو سے متعلق بل منظور کیا گیا۔ اس کے فوراً بعد پی اے جی ڈی قرارداد کو سیاسی اتحاد کا نام دیا گیا، تاہم گذشتہ برس اس اتحاد سے الطاف بخاری اور سجاد غنی لون الگ ہو گئے۔
سجاد لون نے حلقہ بندی کمیشن کی تازہ سفارشات کے حوالے سے نیشنل کانفرنس پر الزام عائد کیا ہے کہ حلقہ بندی کمیشن کے اجلاس میں اس پارٹی کے تینوں اراکینِ پارلیمان کی شمولیت نے کمیشن کی سفارشات کو قانونی جواز دیا ہے۔
لون کہتے ہیں ’حلقہ بندی قانون واضح ہے کہ اس کی سفارشات کو کسی عدالت میں چیلنج نہیں کیا جا سکتا۔‘
‘فاروق عبداللہ، حسنین مسعودی اور اکبر لون کشمیر سے پارلیمنٹ کے ممبر ہیں۔ تینوں میٹنگ میں موجود تھے اور اب کشمیر پہنچ کر الگ بولی بول رہے ہیں۔‘
تاہم اس کے جواب میں فاروق عبداللہ نے کہا ’اگر ہم نہیں جاتے تو ہمیں پتا کیسے چلتا کہ کیا ہو رہا ہے۔ اعتراضات داخل کرنے کے لیے کمیشن نے اعتراضات داخل کرنے کی مدت اس ماہ کے آخر تک مقرر کی ہے۔‘
واضح رہے حلقہ بندی کمیشن جب بھی نئے انتخابی حلقوں کی نشاندہی کرتا ہے تو اس میں آبادی کا تناسب بنیادی معیار ہوتا ہے۔
تاہم جموں میں بھاجپا اور دیگر سیاسی حلقے کہتے ہیں کہ محض آبادی نہیں بلکہ جغرافیائی حالات اور بنیادی سہولیات تک لوگوں کی رسائی کو بھی معیار بنایا جائے۔ تاہم نئی سفارشات میں کس چیز کو معیار بنایا اس بارے میں کمیشن خاموش ہے۔
پی اے جے ڈی اور اس اتحاد سے باہر سیاسی رہنماوں کے درمیان سیاسی نوک جھونک اپنی جگہ، لیکن دس سال بعد پھر ایک بار سبھی ہند نواز سیاسی رہنما دلّی کے تازہ فیصلے کو یکساں شدّت کے ساتھ چیلنج کر رہے ہیں۔
الطاف بخاری، جو محبوبہ مفتی کی پی ڈی پی سے الگ ہو کر ‘جموں کشمیر اپنی پارٹی‘ بنا چکے ہیں، وہ بھی حلقہ بندی کمیشن کی سفارشات کو مسترد کرنے کے لیے جمعے کے روز خاموش احتجاج کریں گے جبکہ یکم جنوری کو پی اے جی ڈی کے رہنما ‘خاموش احتجاج’ کرنے کا اعلان کر چکے ہیں۔
اُدھر جموں میں پروفیسر بھیم سنگھ کی پینتھرس پارٹی نے جموں کے لیے چھ نشستوں کے اضافے کو بھی ناکافی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ’جموں والوں سے پھر ایک بار دھوکہ کیا گیا۔‘
جموں میں مقیم سینئیر صحافی تروُن اُپادھیائے کہتے ہیں کہ جموں میں کئی دہائیوں سے عوام کے اندر یہ تاٴثر پایا جاتا ہے کہ کشمیریوں نے اقتدار اور وسائل پر قبضہ کر کے ہندو اکثریتی جموں کا استحصال کیا ہے۔
وہ کہتے ہیں ’طویل جدوجہد کے بعد جموں میں یونیورسٹی سنہ 1969 بنائی گئی اور میڈیکل کالج سنہ 1971 میں قائم ہوا۔ اگر پورا خطہ ایک ہے تو اقتدار اور مراعات پر صرف کشمیریوں کو ہی حق تو نہیں۔

• ریاض مسرور
• بی بی سی سرینگر


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں