کورونا کے نئے ’اومیکرون‘ ویرینٹ نے دنیا بھر میں کھلبلی مچادی

کورونا کے نئے ’اومیکرون‘ ویرینٹ نے دنیا بھر میں کھلبلی مچادی

کورونا وائرس کے ارتقا کو دو برس ہوگئے، دنیا کورونا وائرس کے نئے ویرینٹ سے مقابلے کی کوشش کر رہی ہے جو کورونا وائرس کی اس سے پہلے سامنے آنے والی دیگر اقسام سے زیادہ خطرناک ہے جس نے تقریباً دنیا کے تمام براعظموں میں متعدی مرض کی لہر کو ہوا دی ہے۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے ’اے پی‘ کی رپورٹ کے مطابق عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے پینل نے اس ویرینٹ کو ’اومیکرون‘ کا نام دیا ہے اور اس کی درجہ بندی تیزی سے منتقل ہونے والے وائرس کے طور پر کی گئی ہے، یہ اس سے قبل غالب وائرس ڈیلٹا ویرینٹ کی ہی قسم ہے،جس کے کیسز یورپ اور امریکا میں اب بھی سامنے آرہے ہیں اور یہ لوگوں کی اموات کی وجہ بن رہا ہے۔
امریکی صدر جوبائیڈن کا کہنا تھا کہ’ایسا لگتا ہے کہ یہ بہت تیزی سے پھیلتا ہے‘۔
یہ وائرس امریکا میں پابندیاں ختم ہونے کے بعد اور زندگی معمول پر آنے کا جشن منانے کے بعدسامنے آیا جس میں تصور کیا گیا تھا ویکسین لگوانے افراد کی زندگی معمول پر آگئی ہے۔
نئی سفری پابندیوں کا اعلان کرتے ہوئے جوبائیڈن کا کہنا تھا کہ’ میں نے فیصلہ کیا ہے ہم محتاط رہیں گے‘۔
ڈبلیو ایچ او کا کہنا تھا کہ ہم اب تک سمجھ نہیں سکیں ہیں کہ اومیکرون کس حد تک خطرناک ہوگا، ابتدائی شواہد سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ دیگر منتقل ہونے والے وائرس کےمقابلے دوبارہ انفیکشن کا خطرہ زیادہ بڑھا سکتا ہے۔
انہوں نے کہا وہ افراد جو کورونا وائرس سے متاثر ہو کر صحتیاب ہوچکے ہیں یہ وائرس ان پر حملہ آور ہوسکتا ہے۔
اقوام متحدہ کے ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ یہ جاننے میں ہفتوں لگیں گے کہ کیا موجودہ ویکسین اس کے خلاف مؤثر ہیں یا نہیں۔
جنوبی افریقہ میں اس وائرس کی تشخیص کے بعد امریکا، کینیڈا، روس اور دیگرممالک کے میزبانی کرنے والے مشترکہ یورپی یونین نے اس خطے سے آنے والے مسافروں پر پابندی عائد کردی ہے، یہ ویرینٹ انفیکشن میں نیا اضافہ ہے۔
وائٹ ہاؤس کا کہنا ہے کہ امریکا جنوبی سے سفر پابندی عائد کر دے گا، اور ساتھ دیگر ممالک بھی پیر سے اس ہی پابندی کا اطلاق کریں گے۔
ڈبلیو ایچ او سمیت دیگر ماہرین نے اس وائرس کے مطالعے کے بعد اس کے ری ایکشن کے حوالے سےخبردار کرتے ہوئے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ عالمی وبا کے بعد یہ ایک مضبوط وائرس ہے۔
دنیا بھر میں کورونا وائرس کے باعث 50 لاکھ سے زائد اموات ریکارڈ کی گئی ہیں۔
برطانیہ کے سیکٹریٹری صحت ساجد جاوید نے قانون سازوں کو بتایا کہ’ہمیں جلد اور ابتدائی لمحات میں ہی اس کے لیے اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے‘۔
اومیکرون کی تشخیص اب تک بیلجیئم، ہانگ کانگ اور اسرائیل کے ساتھ ساتھ جنوبی افریقہ سے آنے والے مسافروں میں ہوئی ہے، جنوبی افریقہ کے ماہرین کاکہنا ہے کہ اب تک وائرس کی وجوہات اور اس میں بیماری کی شدت کا اندازہ نہیں لگایا جاسکا ہے۔
ایک اور عالمی وبا کے خدشے نے ایشیا، امریکا اور یورپ کی اسٹاک کو گرادیا ہے۔
جوبائیڈن کا کہنا ہے کہ برطانیہ، یورپی ممالک اور دیگر ممالک نےجمعے سے سفری پابندیاں شروع کردی ہیں جبکہ امریکا میں سفری پابندیوں سے متعلق ایک سوال کے جواب میں جوبائیڈن کا کہنا تھا کہ ’ یہ سفارش صرف میڈیکل ٹیم کی جانب سے دی گئی ہے‘۔
دوسری جانب یورپی کمیشن کی صدر ارسیلا وون کا کہنا تھا کہ پروازیں تب تک معطل رہیں گی جب تک ہم اس کے خطرات کے حوالے سے آگاہ نہ ہوجائیں اور وطن واپس آنے والے مسافروں پر قرنطینہ کی پابندی عائد کی جائے گی۔
انہوں نے کہا کہ بیلجیئم کے وزیر صحت فرانک وینڈر بروک کا کہنا تھا کہ ’یہ مشکوک وائرس ہے یورپی یونین ملک اس وائرس کا اعلان کرنے والا پہلا ملک ہے اور ہم نہیں جانتے ہیں کہ یہ کتنا خطرناک ہے۔
امریکا کے سرفہرست ماہر متعدی امراض ڈاکٹر اینتھونی فاؤچی نے غیر ملکی نشریاتی ادارے ’سی این این‘ کا کہنا ہے کہ امریکا میں اب تک اومیکرون کیس کی تشخیص نہیں ہوئی، ممکنہ طور پر یہ زیادہ تیزی سے منتقل ہوتا ہو اور دوسرے ویرینٹ کے مقابلے ویکسین کی مزاحمت کریگا۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اس ویرینٹ کی تشخیص سے ظاہر ہوتا ہے کہ کس طرح امیر ممالک ویکسین کی ذخیرہ اندوزی کرتے ہیں اور دنیا کے خطرات کا باعث بن رہے ہیں۔
یاد رہے کہ افریقہ میں تقریباً 6 فیصد افراد کورونا وائرس کے خلاف مکمل ویکسین لگوا چکے ہیں جبکہ لاکھوں طبی ملازمین اور دیگر شہریوں کی جانب سے اب تک کورونا وائرس کے خلاف ایک خوراک بھی نہیں لگوائی۔
افریقہ کے مرکز برائے صحت نے ایسے ممالک جہاں نئے ویرینٹ کی تشخص ہوئی ہے، پر سفری پابندی کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ سفر پر پابندی کا اقدام غیرمنطقی ہے۔
امریکا کہ جنوبی افریقہ، بوٹسوانا، زمبابوے، نمیبیا سمیت افریقہ کے دیگرممالک پر پابندیاں عائد کی جائیں گی۔


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں