زاہدان (سنی آن لائن) ایران کے صوبہ سیستان بلوچستان کے صدرمقام زاہدان میں ہزاروں نمازیوں سے خطاب کرتے ہوئے نامور سنی عالم دین نے صوبہ سیستان بلوچستان کی تقسیم کو مسترد کرتے ہوئے ایسے منصوبوں کو اکثر باشندوں کی مرضی کے خلاف یاد کیا۔
بارہ نومبر دوہزار اکیس کو نماز جمعہ سے پہلے خطاب کرتے ہوئے مولانا عبدالحمید نے کہا: آج کل سوشل میڈیا میں صوبہ سیستان بلوچستان کی تقسیم کے بارے میں گفتگو ہورہی ہے، بعض ارکان پارلیمنٹ نے اس موضوع کو چھیڑا ہے جس پرقومیتوں اور سماج کے مختلف طبقوں نے ردعمل کا اظہار کیا ہے۔
انہوں نے مزید کہا: ہمارے صوبے میں الحمدللہ مختلف مسالک اور لسانی برادریوں میں دیرینہ تاریخی باہمی تعلقات اور محبت بھرے روابط ہیں۔ جغرافیائی طورپر بھی صوبے کے مختلف علاقے ایک دوسرے کی تکمیل کرتے ہیں؛ اگر چابہار کو زاہدان کی پیشانی سے الگ کیا جائے، یا زاہدان کو چابہار و ایرانشہر سے اور ان سب کو ’سیستان‘ سے دور کرکے مختلف صوبے بنائے جائیں، ہمارا صوبہ ناقص ہوگا اور اسے کمی کا سامنا کرنا پڑے گا۔
خطیب اہل سنت زاہدان نے کہا: صوبہ سیستان بلوچستان کے اکثر لوگ تقسیم کے موضوع پر حساس ہیں اور وہ صوبے کی تقسیم کو پسند نہیں کرتے ہیں۔ ان کی رائے میں تاریخی اور جغرافیائی تعلقات اور رشتوں کو ختم نہیں کرنا چاہیے۔
انہوں نے سوال اٹھایا: اس میں کیا اشکال ہے کہ ایران میں صوبہ سیستان بلوچستان کا رقبہ ایک یورپی ملک کے برابر ہو اور ہمارے صوبے کے لوگ اکٹھے رہیں اور ان میں عدل نافذ ہو؟
صدر دارالعلوم زاہدان نے نفاذِ عدل کو سیستان بلوچستان کی ترقی کا بہترین فارمولا یاد کرتے ہوئے کہا: عدل و انصاف کی فراہمی اور لوگوں میں یکجہتی اور ہمدلی پیدا کرناصوبہ سیستان بلوچستان کی ترقی اور خوشحالی کی بہترین راہ ہے۔
مولانا عبدالحمید نے مزید کہا: موجودہ حالات میں جب ملک معاشی مسائل دست و گریباں ہے، صوبہ سیستان بلوچستان کی تقسیم سے اس صوبے کو کوئی فائدہ نہیں ملے گا، الٹا لوگوں کی ناراضگیوں میں ایک اور ناراضگی کا اضافہ ہوگا اور یہ لوگوں کو اشتعال دینے والی بات ہے۔
ممتاز بلوچ عالم دین نے ارکان پارلیمنٹ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: ارکان پارلیمنٹ سے میری درخواست ہے کہ وہ پارلیمنٹ میں سیستان بلوچستان کی تقسیم کا کیس چھوڑدیں اور اس صوبے کو اپنی حالت پر باقی رہنے دیں۔ اس کے بجائے، ہم سب کو محنت کرنی چاہیے کہ لوگوں کے معاشی اور روزگار کے مسائل حل ہوں اور ان کی زندگی بہتر ہو جو دیوالیہ ہونے والی ہے۔ کوشش کریں صوبے کے باشندوں پر مزید توجہ ہو اور لوگ ماضی سے زیادہ ایک دوسرے کے ساتھ ہوں؛ اس سے اتحاد و بھائی چارہ اور پائیدار امن اور حتی کہ صوبے کی خوشحالی کو مدد ملے گی۔
یاد رہے اس سے پہلے، مولانا عبدالحمید نے ایک ٹوئٹر پیغام میں صوبہ سیستان بلوچستان کی ممکنہ تقسیم کی افواہوں پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے اپنی مخالفت کا اظہار کیا تھا۔ بعض بلوچ سیاستدانوں اور قبائلی رہ نماؤں نے بھی تقسیم کے خلاف بیانات شائع کیے ہیں۔
آپ کی رائے