تہران (سنی آن لائن) صوبہ خراسان سے متنخب سنی رکن پارلیمنٹ نے ایرانی صدر کے پارلمانی نائب سے گفتگو میں اہل سنت کے جائز مطالبات کو مسترد کرنے پر سخت تنقید کرتے ہوئے اسے مستقبل کے لیے ’خطرناک‘ قراردیا۔
ڈاکٹر جلیل رحیمی جہان آبادی نے مجلس شورائے اسلامی کے سنی بلاک کی نائب صدر سے ملاقات میں کہا: انقلاب سے تینتالیس سال گزرچکے ہیں اور اب ہماری باتیں آپ کے لیے نئی نہیں اور تمہاری باتیں ہمارے لیے بھی نئی نہیں ہیں۔ ہم باربار اپنی آواز اپنے حقوق کے لیے بلند کرتے رہے اور خاطرخواہ جواب بھی نہیں ملا۔
انہوں نے کہا: حقیقت یہی ہے کہ اب ہمارے لوگ اپنے قائدین، علما اور بااثر شخصیات کی تاویلوں پر کوئی توجہ نہیں دیتے ہیں کہ چار عشرے گزرچکے ہیں اور اہل سنت کے مطالبات کا ڈھیر ابھی تک باقی ہے۔
تربت جام، تایباد، باخرز اور صالح آباد کے منتخب نمائندہ نے اہل سنت کے بعض مطالبات واضح کرتے ہوئے کہا: تہران میں اہل سنت کی ایک مسجد بھی نہیں ہے، لوگ گھروں، سڑکوں پر اور کرایے کے مکانوں میں نماز پڑھتے ہیں، صدر مملکت کا کوئی سنی نائب نہیں ہے، کوئی وزیر یا صوبائی گورنر اہل سنت سے نہیں ہے، ایک سو سے زائد سفیروں میں صرف ایک یا دو سفیر سنی ہیں؛ یہ صورتحال ہمارے لیے اور عالم اسلام کے لیے ناقابل قبول ہے۔
رحیمی نے کہا ہے کہ مختلف محکموں میں اہل سنت کو چپڑاسی کی اسامی تک پہنچنے کے لیے مشکلات کا سامنا ہے اور ان کے مسلک کے بارے پوچھا جاتاہے۔ حکومتیں تبدیل ہوتی رہتی ہیں، لیکن اہل سنت کے ساتھ ان کا رویہ نہیں بدلتا اور وہ بدستور اپنے جائز حقوق سے محروم ہیں۔ علما اور بطور خاص نوجوان نسل میں مایوسی پھیل رہی ہے کہ اہل سنت کے مطالبات کی کوئی شنوائی نہیں ہورہی ہے اور انتخابات کے ذریعے کوئی مثبت تبدیلی رونما نہیں ہوگی؛ اس سوچ کے نتائج سکیورٹی کے لیے خطرناک ہوسکتے ہیں۔
پارلیمنٹ کے سیاست خارجہ اور سلامتی کمیشن کے رکن نے کہا: جو لوگ کسی بھی بہانے اہل سنت کو سرکاری محکموں سے دور رکھنا چاہتے ہیں، انہیں سمجھ لینا چاہیے کہ وہ ملک سے غداری کا مرتکب ہورہے ہیں؛ وہ ہمارے لوگوں کو نظام سے دور کرکے امن عامہ کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔
آپ کی رائے