شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید:

عالمی برادری اور مسلم ممالک افغانستان کی نئی حکومت کو تسلیم کریں

عالمی برادری اور مسلم ممالک افغانستان کی نئی حکومت کو تسلیم کریں

خطیب اہل سنت زاہدان نے پندرہ اکتوبر دوہزار اکیس کے خطبہ جمعہ میں افغانستان پر پابندی کو ناانصافی، ظلم اور بین الاقوامی اصولوں کے خلاف یاد کرتے ہوئے بین الاقوامی برادری خاص کر مسلم ممالک سے مطالبہ کیا افغانستان کی نئی حکومت کو تسلیم کرکے اس ملک سے سفارتی تعلقات قائم کریں۔
شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے زاہدان میں ہزاروں فرزندانِ توحید سے خطاب کرتے ہوئے کہا: جس طرح بعض بین الاقوامی طاقتیں ایران پر پابندی عائد کرکے ایرانی قوم کو مشکلات سے دوچار کرچکی ہیں، اسی طرح وہ افغانستان پر پابندی لگا کراس ہمسایہ ملک کے حالات کو خراب کرنا چاہتی ہیں۔
انہوں نے کہا: افغانستان لگ بھگ چار کروڑ افغانوں کا ملک ہے۔ یہ ترقی یافتہ ملک نہیں ہے؛ انڈسٹری اور ٹیکنالوجی وہاں کمزور ہے اور لوگ عام طورپر کھیتی باڑی اور مال مویشی پالنے سے گزارا کرتے ہیں اور غربت کے شکنجے میں ہیں۔
مولانا عبدالحمید نے مزید کہا: دو ماہ ہوچکے ہیں کہ افغانستان میں ایک نئی حکومت بر سر کار آئی ہے، لیکن عالمی طاقتیں اس حکومت کو تسلیم کرنے سے گریز کرتی ہیں، بلکہ افغانستان کے اثاثوں کو بلاک کرکے افغان قوم پر پابندی عائد کرچکی ہیں۔ ان پابندیوں کا منفی اثر براہ راست غریب عوام ہی پر پڑتاہے۔ یہ بہت بڑا ظلم ہے۔
انہوں نے کہا: کسی بھی قوم پر پابندی عائد نہیں کرنی چاہیے؛ عالمی طاقتوں کی پابندیوں کا بوجھ درحقیقت کاشت کاروں اور مویشی پالنے والے غریبوں کے کاندھوں پر ہے۔ ان ہی پابندیوں کی وجہ سے لوگ مہاجرت کی راہ اختیار کرتے ہیں جس سے پوری دنیا متاثر ہوتی ہے۔
صدر دارالعلوم زاہدان نے کہا: عالمی برادری بلاشبہ انسانی حقوق اور خواتین کے حقوق جیسے مسائل کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کرے، لیکن نئی حکومت کو بھی موقع دینا چاہیے تاکہ اپنی کارکردگی کا مظاہرہ کرے۔ قوموں پر پابندی لگانا ایک قسم کی ناانصافی اور ہٹ دھرمی اور بین الاقوامی قوانین اور اصول کے خلاف ہے۔
انہوں نے مزید کہا: ہم عالمی برادری سمیت سب ملکوں بشمول مسلم ممالک سے چاہتے ہیں کہ وہ افغانستان سے سفارتی تعلقات قائم کریں اور نئی حکومت کو تسلیم کرلیں۔ مسلم ممالک کو عالمی طاقتوں کے ہاتھوں اسیر نہیں ہونا چاہیے؛ چین اور روس بھی یورپ کی اسارت سے جان چھڑائیں۔ مسلم ممالک کو چاہیے کہ وہ عالم اسلام کے مفادات کو مدنظر رکھیں تاکہ مسلم افغان قوم بھوک اور رنج و غربت جیسے مسائل سے نجات پائے۔

عوامی اعتماد، عوام کی عزت امن کی پاسداری میں موثر ہیں
شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے اپنے خطاب کے ایک حصے میں صوبہ سیستان بلوچستان کے پولیس سربراہ ’سردار احمد طاہری‘ اور ان کے ساتھیوں کی آمد پر انہیں خوش آمدید کہتے ہوئے ’ہفتہ پولیس‘ کو انہیں مبارکباد دی۔
انہوں نے صوبائی پولیس حکام کی موجودی میں کہا: سردار طاہری نے اپنے خطاب میں خبر دی کہ صوبہ سیستان بلوچستان میں امن کی صورتحال ملک کے بہت سارے صوبوں سے کافی بہتر ہے۔ جرائم کے لحاظ سے ہمارے صوبے کا مقام 33 ہے۔ اس کا مطلب ہے جرائم کا وقوع ہمارے صوبے میں بہت کم ہے۔ یہ مسرت بخش رپورٹ ہے۔ پولیس کی کامیابی امن قائم کرنے میں ہے۔
مولانا نے مزید کہا: قیام امن سے عوامی حمایت بہت اہم ہے جو پولیس کے لیے ایک عظیم اثاثہ ہے۔ عوام کی حمایت، ان کا اعتماد اور ان کی عزت کا خیال رکھنا سب سے بڑھ کر قیامِ امن میں موثر ہے۔
انہوں نے کہا: موجودہ حالات میں جب ایک طرف سے خشکسالی نے صوبہ سیستان بلوچستان کے عوام کو متاثر کیا ہے اور دوسری طرف سے بے روزگاری اور غربت سے عوام کے معاشی حالات خراب ہیں، ملکی اور صوبائی حکام سے ہمارا مطالبہ ہے کہ عوام پر مزید توجہ دیں، روزگار کی فراہمی کے لیے محنت کریں اور مختلف سرحدی تجارتی گیٹس سے درست استفادہ کے لیے مناسب منصوبہ بندی کریں۔
مولانا عبدالحمید نے بات آگے بڑھاتے ہوئے پولیس میں قابل سنی شہریوں سے کام لینے اور انہیں محکمہ پولیس میں روزگار فراہم کرنے پر زور دیا۔ انہوں نے کہا مختلف قومیتوں اور مسالک کے قابل افراد کو پولیس میں بھرتی کرنے سے اتحاد و بھائی چارہ کو تقویت ملے گی۔
خطیب اہل سنت زاہدان نے اپنے خطاب کے آخر میں شہریوں سے درخواست کی قومی شاہراہوں پر گاڑی چلاتے ہوئے احتیاط سے کام لیں۔ اگر کسی نے ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کسی حادثے کا باعث بنا جس سے لوگوں کی موت واقع ہوئی، ایسا ڈرائیور مجرم اور قاتل شمار ہوگا۔
انہوں نے مزید کہا: آج کل اس بات پر توجہ نہیں دی جاتی ہے کہ اگر کوئی ڈرائیور حادثے کا شکار ہوجائے جس میں کچھ لوگ مرجائیں، پولیس کی رائے بھی یہی ہو کہ مذکورہ ڈرائیور قصوروار ہے، شرعی اور قانونی لحاظ سے یہ ڈرائیور گناہکار ہے؛ اسے چاہیے دیہ ادا کرنے کے ساتھ ساتھ 60 دن کفارہ قتل خطا کے لیے روزہ رکھے۔
مولانا عبدالحمید نے کہا: ٹریفک حادثات میں ہمارے بہت سارے مفید افراد فوت ہوچکے ہیں؛ بعض اوقات ایک ہی خاندان کے تمام افراد فوت ہوجاتے ہیں جس کی وجہ حد سے زیادہ رفتار ہے۔ گاڑی کی رفتار بلاضرورت بڑھانا دین و تقویٰ کے خلاف ہے۔


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں