اسلامی سال میں شوال کے بعد آنے والے مہینے کا نام ’ذوا لقعدہ‘ ہے، جس کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ اہلِ عرب [جنگ وغیرہ سے الگ ہو کر] اس مہینے میں بیٹھ جایا کرتے تھے۔ اس کی جمع ’ذوات القعدۃ‘اور’ ذوات القعدات‘ آتی ہے۔ (لسان العرب)
ذوا لقعدہ اسلامی سال کا گیارھواں قمری مہینہ ہے، اس کا تلفظ اس طرح ہے:’ذ‘ مضموم، ’ل‘ ساکن، ’ق‘ مفتوح،’ع‘ ساکن اور ’د‘ مفتوح یعنی ذُل قَع دَہ۔ اس کے قاف پر زبر اور زیر دونوں طرح بولا جا سکتا ہے، البتہ زبر زیادہ معروف ہے، بعض اوقات اس کے آخر کی تائے فوقانی کو حذف کرکے ’ذوالقعدہ‘ بھی کہہ دیتے ہیں۔ یہ ہمیشہ مذکر استعمال ہوتا ہے۔ ’ذو‘ کے معنی ہیں؛ ’اہل‘، ’والا‘، ’صاحب‘ اور’مالک‘۔ اس کی جمع ذوون آتی ہے۔ ذو کا اعراب اسمائے خمسہ والا ہے، یعنی حالتِ رفعی میں ذو (ذو القعدہ)، حالتِ نصبی میں ذا (ذا القعدہ) اورحالتِ جری میں ذی (ذی القعدۃ) ہوتاہے۔ (المعجم الوجیز)
ایک محترم مہینہ
اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا ارشاد ہے: (مفہوم) اللہ تعالیٰ کے نزدیک مہینے اس روز سے؛ جب کہ اس نے آسمانوں او رزمین کو پیدا کیا، گنتی میں بارہ ہیں۔ اللہ کی کتاب میں سال کے بارہ مہینے لکھے ہوئے ہیں، ان میں سے چار مہینے (خصوصی) ادب واحترام کے ہیں۔ (التوبہ) اس کی تفصیل حضرت ابو بکرہؓ کی روایت میں اس طرح آئی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: بلاشبہ زمانہ اپنی اسی اصل حالت پرلوٹ آیا ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے اسے آسمان و زمین کی تخلیق سے پہلے مقدر فرمایا تھا۔ سال؛ بارہ مہینوں کا ہوتا ہے، ان میں سے چار مہینے ادب و احترام والے ہیں۔ جن میں سے تین مہینے مسلسل ہیں؛ ذوالقعدۃ، ذوالحجہ اور محرم الحرام۔ ایک مہینہ مضر کا رجب ہے، جو جمادی الاخری اور شعبان کے درمیان ہے۔ (بخاری، مسلم)
ان مہینوں کو حرمت والا دو معنی کے اعتبار سے کہا گیا، ایک تو اس لیے کہ ان میں قتل و قتال حرام ہے، دوسرے اس لیے کہ یہ مہینے متبرک اور واجب الاحترام ہیں۔ ان میں عبادات کا ثواب (دیگر ایام کے بالمقابل) زیادہ ملتا ہے، ان میں سے پہلا حکم تو شریعتِ اسلام میں منسوخ ہوگیا، مگر دوسرا حکم احترام و ادب اور ان میں عبادت گزاری کا (خصوصی) اہتمام، اسلام میں بھی باقی ہے۔ (معارف القرآن)
حج کی تیاری کا مہینہ
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: (مفہوم) حج کے مہینے طے شدہ اور معلوم ہیں۔ (البقرۃ) مطلب یہ ہے کہ حج کے مہینے؛ جن کے متعلق اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں ارشاد فرمایا ہے، اس سے مراد شوال، ذوالقعدۃ اور ذوالحجہ کا پہلا عشرہ ہے۔ حضرت عمرؓ، ان کے صاحب زادے حضرت عبداللہؓ، حضرت علیؓ، حضرت ابن مسعودؓ، حضرت عبداللہ ابن عباسؓ اور حضرت عبداللہ ابن زبیرؓ رضی اللہ عنہم وغیرہ سے یہی روایت کیا گیا ہے اور یہی اکثر تابعینؒ کا قول ہے۔ (لطائف المعارف) علما کا اس پر اجماع ہے کہ اشہرِ حج تین ہیں، جن میں سے پہلا شوال، دوسرا ذوالقعدۃ اور تیسرا ذوالحجہ ہے۔ (فتح الباری)
فضیلت کی ایک اور وجہ
یہ بات ماہِ ذوالقعدہ کی عظمت و فضیلت کو مزید بڑھا دینے والی ہے کہ یہ حج کا درمیانی مہینہ ہے، اور آج بھی اکثر لوگ اسی مہینے سے حج کی تیاریاں کرتے اور رختِ سفر باندھتے ہیں۔ ذوالقعدہ کی فضیلت کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے جن تیس دن اور دس دنوں کا وعدہ فرمایا تھا، وہ تیس دن یہی ماہِ ذی القعدہ اور دس دن ماہِ ذی الحجہ کے ہیں۔ (لطائف المعارف)
عمرے کا مہینہ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کُل چار عمرے کیے۔ (مسلم) اور ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اور حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ذوالقعدہ کے علاوہ (کسی مہینے میں) عمرہ نہیں فرمایا۔ (ابن ماجہ) حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کُل چار عمرے کیے، ایک عمرۂ حدیبیہ، دوسرا عمرۂ قضا، تیسراعمرۂ جعرانہ اور چوتھا عمرہ حجۃ الوداع کے ساتھ۔ (ابوداود) اس سے پہلی روایت میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے یہ جو فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ذوالقعدہ کے علاوہ (کسی مہینے میں) عمرہ نہیں فرمایا‘ اس کی وجہ یہ ہے کہ راجح قول کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چار عمرے ادا فرمائے، ان میں سے تین تو ذوالقعدہ میں، جب کہ ایک عمرہ بروز اتوار ۴؍ذوالحجہ ۱۰ھ کو حجۃ الوداع کے ساتھ ادا فرمایا۔ متذکرہ روایت میں اسے ماہِ ذوالقعدہ میں اس لیے شمار فرمایا کہ مدینہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی روانگی ماہِ ذی القعدہ میں ہی عمل میں آئی تھی اور احرام بھی آپ نے اسی مہینے میں باندھا تھا، جیسا کہ امام نوویؒ نے تحریر فرمایا ہے۔ (المنہاج)
عمرہ کے لیے اسی ماہ کو کیوں چنا
علما فرماتے ہیں کہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ماہِ ذوالقعدہ میں یہ عمرے اس لیے ادا فرمائے تاکہ لوگ اس مہینے کی عظمت و فضیلت سے واقف ہو جائیں اور اہلِ جاہلیت کی مخالفت بھی ہو کہ وہ اس مہینے میں عمرہ کرنا بڑا گناہ سمجھتے تھے۔ لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پے در پے اس مہینے میں عمرے ادا فرمائے، تا کہ لوگ اس کے جواز کو اچھی طرح سمجھ لیں اور ان کے ذہنوں سے زمانۂ جاہلیت کے اثرات پوری طرح ختم ہو جائیں۔ (المنہاج)
ذوالقعدہ میں شادی
ما قبل میں قرآن و سنت کی روشنی میں جو باتیں پیش کی گئیں، ان سے اس مبارک مہینے کی فضیلت و برکت کا بخوبی اندازہ کیا جا سکتا ہے، اس کے باوجود بعض لوگ ذی القعدہ کے مہینے میں شادی وغیرہ کرنے کو منحوس سمجھتے ہیں اور اس کو ’خالی مہینہ‘ کہتے ہیں، سو یہ غلط ہے۔ کسی مہینے یا دن کو منحوس نہیں سمجھنا چاہیے۔ (زوال السنۃ) بہ الفاظِ دیگر جو ماہ بہ نظرِ قرآن عدل و عزت کا مہینہ ہو اور اشہرِ حج کا ایک ماہِ مبارک ہو اور جس میں آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تین عمرے ادا فرمائیں ہوں، ایسا مہینہ منحوس کیسے ہو سکتا ہے؟ اس کو منحوس سمجھنا اور اس میں خِطبہء رشتہ اور نکاح وغیرہ خوشی کے کاموں کو نامبارک ماننا جہالت اور مشرکانہ ذہنیت ہے اور اپنی طرف سے ایک جدید شریعت کی ایجاد ہے، ایسے ناپاک خیالات اور غیر اسلامی عقائد سے توبہ کرنا ضروری ہے۔ اس ماہِ مبارک کونا مبارک اور برکت سے خالی سمجھ کر ’خالی‘ کہا جاتا ہے، یہ بھی نا جائزہے۔ ذی القعدہ کہنا چاہیے، خالی نہیں کہنا چاہیے۔ جیسا کہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے نمازِعشا کو’عتمہ‘ کہنے کی ممانعت آئی ہے، ایسے ہی اس غلط نام کو استعمال کرنے میں بھی احتیاط کرنی چاہیے۔
آپ کی رائے