مولانا وحیدالدین خان صاحب ہندوستان کی ریاست اترپردیش میں 1925ء میں پیدا ہوئے۔
آپ نے ایک معروف دینی ادارہ میں تعلیم پائی۔ انگریزوں کے دورِ حکومت میں آپ نے پچیس سال گذارے اور آپ اس دور کے عینی شاہد ہیں۔ انگریزوں سے پہلے مسلمان ہی اس ملک کے حکمران تھے۔ مسلمانوں کے غلام بن جانے کی زیادہ تر ذمہ داری خوداُن ہی پر عائد ہوتی ہے کیوں کہ یہاں سے بہت دور ہونے کے باوجود انگریز اس ملک پر کیسے قابض ہوگئے یہ ایک لمبی داستان ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ یورپی اقوام نے سائنسی علوم میں جو ظاہری ترقی کی ان کی کامیابی کا راز اُسی میں چھپا ہوا ہے۔ علوم خواہ ظاہری ہوں یا مذہبی اس سے وہی لوگ مستفید ہوتے ہیں جو اِن میں کد وکاوش سے کام لیتے ہیں۔ انگریزوں کی جیت اور مسلمانوں پر ان کا غلبہ کوئی اتفاقی واقعہ نہیں تھا۔ مسلمانوں کے پاس ایک پُر فخر تاریخ تھی لیکن باہمی کشمکش کی وجہ سے سائنسی علوم میں وہ پیچھے رہے اور دعوتی ذمہ داریوں کو نبھانے میں بھی اُن سے چوک ہوگئی۔ علم کا رشتہ کسی مخصوص قوم کے ساتھ نہیں ہوتا ہے جو اُسے گلے لگائے وہی اس کے فیوض پاتا ہے۔دینی علوم میں ناپختگی اور سائنسی علوم میں پسماندگی کی وجہ مسلمانوں کے مقابلے میں انگریزوں نے صرف ظاہری اور سائنسی علوم میں مسلمانوں پر سبقت حاصل کر لی اور محض سائنسی علوم کی وجہ سے پورے عالم میں اُن کا دبدبہ قائم ہوگیا جو ایک قدرتی بات تھی۔
ایسے حالات میں مولانا وحیدالدین خان نے آنکھ کھولی۔ اس دور میں مولانا مودودی صاحب ؒ ایک جوان سال صاحب قلم کی حیثیت سے نمودار ہوگئے تھے اور وہ یقینا مسلمانوں کے متعلق ایک درد مند دل رکھتے تھے۔ انہوں نے جماعت اسلامی قائم کی اور مولانا وحیدالدین خان صاحب اور اُن کی بیوی جماعت اسلامی کے رکن بن گئے۔ کافی عرصہ تک وہ جماعت اسلامی کے ساتھ وابستہ رہے۔ جماعت اسلامی مسلمانوں کے سیاسی غلبہ کی خواہش رکھتی تھی جو کوئی بُری بات تو نہیں تھی لیکن بعض تشریحات میں مولانا خان صاحب ؒ کو مولانامودودی ؒ کے ساتھ اختلاف ہوگیا۔ جو بعد میں اُن کے درمیان جُدائی کا سبب بن گیا اور وہ جماعت اسلامی کے ساتھ نہ رہ سکے۔ لیکن انہوں نے اپنی زوجہ کو جماعت اسلامی سے مستعفی نہ ہونے کا مشورہ دیا۔ اس کے بعد مولانا تبلیغی جماعت کے ساتھ چلنے لگے، لیکن ادھرانہیں یہ تجربہ ہوا کہ یہ مبارک محنت عام مسلمانوں کے لیے توآبِ حیات ہے لیکن صاحب علم اور صاحبِ قلم قسم کے لوگ اِن کی مصروفیات میں منہمک رہ کر یکسوئی کے ساتھ کوئی بڑا کارنامہ انجام نہیں دے سکتے ہیں کیوں کہ ہر کام کی نوعیت الگ ہوتی ہے۔ اور علم وادب کے لیے ایک الگ ماحول کی ضرورت ہوتی ہے۔ انہوں نے محسوس کیا کہ موجودہ دور میں امت ِ مسلمہ کے لیے ایک بڑا کام یہ ہے کہ آسان اردو میں دنیا کی ہر زبان میں کتابیں شائع کی جائیں، تاکہ مسلمانوں کے اذہان اسلام کے متعلق ایک صاف و شفاف راستہ پائیں۔
انہوں نے بڑی شد ومد کے ساتھ اسلامی رسائل اور کتابیں چھاپنے کا منصوبہ بنایا۔ ایک دینی رسالہ جاری کیا جو اب تک ایک خاصی تعداد میں چھپتا ہے۔ بہت ساری کتابیں لکھیں جو زبان وادب کے لحاظ سے دنیائے اردو میں اُن کا ایک خاص کارنامہ ہے۔ اور ان کتابوں کا دنیا کی دوسری زبانوں میں بھی ترجمہ کرایا۔
اُن کے لٹریچر کی ایک خاص بات یہ ہے کہ وہ عوامی سطح کے ذہنی معیار کے مطابق عوام سے مخاطب ہوتے ہیں، جس سے اُن کی باتیں فوراً سمجھ میں آتی ہیں۔ اور اس طرح لاکھوں لوگ اُن کے علوم سے مستفید ہوئے۔ اِن تمام اوصاف کے باجود چند مسائل میں علمائے کرام نے اُن کے ساتھ اِس بنیاد پر اختلاف کیا کہ وہ جمہور اہل سنت کے ساتھ جو ڑ نہیں کھاتی ہیں اور کہہ دیا کہ اِن مسائل کو چھوڑ کر اُن کا دینی لٹریچر مسلمان اُمت کے لیے نفع بخش ہے۔
اب نوجوانوں کے لیے ضروری ہے کہ اگر مولانا کا کوئی بیان کردہ مسئلہ جمہور اہل سنت کے ساتھ جوڑ نہیں کھاتا ہے وہاں وہ ضرور بالضرور جمہور کا ہی اتباع کریں ایسا کر کے وہ خان صاحب کے باغی نہیں کہلائیں گے اور بقیہ ساڑھے ننانوے فی صد لٹریچر کو ضرور پڑیں کیوں کہ عصرِ حاضر میں جس طرح مولانا وحیدالدین خان صاحب نے آسان اردو میں دین کی تشریح کی وہ اپنی مثال آپ ہے۔ البتہ اجماع ِ امت اور قیاس مجتہدین کے معاملے میں جمہور اہل سنت کا پابند رہنا چاہئے کیوں کہ شرح کی بنیاد جن چار باتوں پر ہے وہ اس طرح ہیں: (۱) قرآن (۲) حدیث (۳) اجماع ِ امت (۴) قیاس مجتہدین۔اس بات کا یقین رکھ کر اگر مولانا وحید الدین خان صاحب کی کتابوں کا مطالعہ کیا جائے تو اُمت کے لیے بہت نفع بخش بات ہوگی۔ جہاں تک امام مہدی کے متعلق اُن کی آرا ء کا تعلق ہے میرے خیال میں مولانا وحید الدین خان صاحب نے بعد میں وہی راستہ اپنایا جو جمہور مسلمانوں کا راستہ ہے۔ انہوں نے زندگی کے آخری دور میں ایک کتاب تصنیف کی جس کا نام ”اظہارِ دین“ ہے۔وہاں معلوم ہوتا ہے کہ وہ امام مہدی کے شخصی وجود کے قائل تھے چنانچہ وہ اس کتاب کے صفحہ 245پر لکھتے ہیں کہ ”اصحاب رسول نے جس دور تاریخ کا آغاز کیا تھا تقریباً ڈیڑھ ہزار سال میں وہ اپنے نقطہ کمال پر پہنچ چکا ہے۔ اب دوبارہ اس نئی نسل سے ایک فرد اٹھے گا جس کو حدیث میں ”المہدی“ کا نام دیا گیا ہے۔ اس فرد کا ساتھ دینے کے لیے بہت سے اللہ کے بندے اُٹھیں گے، غالباً اِنھیں افراد کو حدیث میں ”اخوان رسول“ کہا گیا ہے۔ یہ گروہ نئے حالات میں اپنی غیر معمولی جد وجہد کے ذریعے نبوت محمدی کا دوبارہ اظہار کرے گا“۔
آپ کی رائے