مجاہدہ

مجاہدہ

جو لوگ تبلیغی جماعت میں وقت لگاتے تھے، ان سے اکثر یہ سنتے تھے کہ اللہ کے راستے میں جاکر ایسا سکون ملتا ہے، جو کبھی گھر پر نصیب نہیں ہوتا۔ دعائیں قبول ہوتی ہیں۔ عبادت اور صدقات کا ثواب بڑھ جاتا ہے۔
جب جنید جمشید رحمہ اللہ شہید ہوئے تھے تو میرا تجسس بہت بڑھ گیا کہ آخر اس جماعت میں ایسی کیا خصوصیت ہے جو جنید بھائی اور ان جیسے شوبز کے لوگوں کو اللہ نے فرش سے اٹھا کر عرش پر بٹھادیا اور اس قدر اعلی مرتبہ دیا کہ شاید ہی پاکستان کا کوئی گھرانا ایسا ہو، جس میں ان کی وفات پر آنسو نہ بہائے گئے ہوں۔
مجھے سہ روزہ لگانے کا بہت شوق تھا، مگر ابھی تک یہ خواہش پوری نہیں ہوسکی تھی، کیوں کہ میاں صاحب کی طرف سے اجازت نہیں تھی، مگر میں ایک دفعہ اس جماعت کو قریب سے دیکھنا چاہتی تھی کہ آخر ایسی کیا وجہ ہے کہ محض تین دن لگا کر خواتین میں اتنی تبدیلی آجاتی ہے جو میں نے نوٹ کی تھی۔
اسی کشمکش میں زندگی گزر جاتی تھی کہ ایک دن بیٹے نے مسجد سے آکر بتایا کہ آج نماز میں مجھے تبلیغی جماعت میں آئے ہوئے ایک کرنل صاحب ملے تھے۔ اُن کی بیگم کو کہیں سے معلوم ہوا کہ اس کالونی میں خواتین کا اسلام کی کوئی رائٹر رہتی ہیں تو انھوں نے ہمارا ایڈریس لے لیا ہے۔ آج شام کو وہ آپ سے ملنے آئیں گی۔ میں کہا سو بسم اللہ! مجھے تو تبلیغی جماعت والوں کی صحبت میں بیٹھنے کا ویسے ہی بہت شوق تھا۔ شام کو مقررہ وقت پر کرنل صاحب اپنی بیگم کو ہمارے گھر چھوڑ گئے۔
ماشاء اللہ بڑی نورانی چہرے والی خاتون تھیں۔ سعدیہ بھابھی کے حالات سن کر تو میں اَش اَش کر اٹھی۔
ان دونوں میاں بیوی نے اپنی ساری زندگی دین کی تبلیغ کے لیے وقف کر رکھی ہے۔ کرنل صاحب نے اپنی ساری جائیداد چاروں حافظ عالم بیٹوں میں تقسیم کرکے اپنے لیے کوئی گھر نہیں رکھا، بلکہ خود ایک مہینہ رائے ونڈ میں رہتے ہیں۔ ایک مہینے کے لیے پنڈی آتے ہیں تو دونوں میاں بیوی زیادہ تر وقت تشکیل میں گزارتے ہیں۔ باقی تھوڑے سے دن اپنے بیٹوں کے گھر میں رہتے ہیں۔
اکثر یہ لوگ جماعت کے ساتھ، بیرون کے دوروں پر اور عمرے پر بھی جاتے رہتے ہیں۔
مجھ سے مل کر انھوں نے بہت خوشی کا اظہار کیا اور سہ روزے پر چلنے کی دعوت دی۔ میں بتایا کہ میرے بیٹے تو کئی سہ روزہ لگا چکے ہیں، بش میرا ہی کوئی سبب نہیں بن پارہا تو انھوں نے وعدہ کیا کہ میں آپ کو اپنے ساتھ لے کر چلوں گی، پھر اگلے ہفتے ایک مستورات کی جماعت ان کے بیٹے کے گھر آکر تین دن کے لیے قیام پذیر ہوئی۔ میرے لیے تو نادر موقع تھا یہ سب کچھ قریب سے دیکھنے کا، روز صبح اُن کے گھر چلی جاتی، سب کے ساتھ دن گزار کر رات کو واپس اپنے گھر آجاتی۔ واقعتا وہاں پر اللہ رسول کی باتوں، مغیبات کے تذکروں اور قبر آخرت کے مذاکروں سے اس قدر سکون ملتا کہ دن گزرنے کا پتا بھی نہ چلتا۔
ہر وقت دین کی باتیں، پر اثر بیان، جماعت کی منجھی ہوئی خواتین کے حیرت انگیز مشاہدات سننے کو ملتے۔
اب یہ جماعت ہماری کالونی سے نقد جماعت نکالنے کے لیے سب کو تیار کر رہی تھی، مگر یہاں پر ہر ایک کی کوئی نہ کوئی مجبوری آڑے آرہی تھی۔ ایسے میں میرا دل تڑپ رہا تھا کہ میں ضرور بیٹے کے ساتھ جاؤں، مگر میاں جی بالکل اجازت نہیں دے رہے تھے۔
سعدیہ بھابھی نے کہا کہ نفل پڑھ کر اپنے میاں کو ہدیہ کریں اور دعا کرتی رہیں اور کرنل صاحب کو ہمارے گھر بھیجاتا کہ میرے میاں کو بھی دعوت دیں۔
غرض بڑی ہی مشکل سے میاں جی نے تیسرے دن اجازت دے ہی ڈالی۔ میں تو فٹافٹ سامان اٹھا کر بیٹے کے ساتھ سعدیہ بھابھی کے پاس جا پہنچی۔ وہاں کچھ لوگ اور بھی آئے بیٹھے تھے۔ وہاں پر موجود تمام لوگوں اتنی خوشی سے رخصت کیا جیسے ہم عمرے پر جارہے ہوں۔ ہر کوئی ہم سے گلے مل کر مبارک باد دے رہا تھا اور دعاؤں کی درخواست کر رہا تھا۔
امیر جماعت نے چلنے سے پہلے ہمیں کچھ ہدایات دیں کہ سب لوگ موبائل پر گھر والوں سے رابطہ کم سے کم کریں تا کہ پوری یکسوئی سے اللہ کے کام میں لگا جاسکے۔
میں نے سوچا یہ تو میرے لیے بڑا مشکل ہوگا۔ میں تو اپنی بیٹیوں کی خیر خبر لیے بغیر ایک دن بھی نہیں رہ سکتی۔ جبکہ ایک بیٹی کی طبیعت بھی کچھ خراب تھی ان دنوں۔ (مگر بعد میں تو وہاں جا کر میں ایسی مگن ہوئی کہ ایک لمحے کے لیے بھی گھر والوں کی یاد نہ آئی۔)
ہمارا روح پرور سفر شروع ہو چلا تھا۔ ہم چھے لوگ اپنے گھر کے قریبی علاقے میں واقع ایک وسیع و عریض گھر میں جا پہنچے۔ اُس وقت باران رحمت برس رہی تھی اور سردی عروج پر تھی۔ خاتون خانہ نے ہمارا پر جوش استقبال کیا اور ایک آرام دہ گرم کمرے میں لے گئیں، جہاں سندھ کے علاقے ٹنڈو الہیار سے کچھ خواتین آئی ہوئی تھیں۔ یہ ایک ماہ کی جماعت میں چل رہے تھے۔ اب تین دن کے لیے اس گھر میں قیام تھا۔
سب خواتین ہم سے ایسی محبت سے ملیں جیسے برسوں کی شناسائی ہو۔ ہم لوگوں نے کمرے کے ایک کونے میں اپنا سامان ترتیب سے لگا کر نماز عشاء ادا کی تو گھر والوں نے ہمارے لیے کھانا لگادیا۔ کھانے کے بعد ایک نشست ہوئی اور فضائل اعمال کی تعلیم کرائی گئی۔ اس کے بعد ہم سونے کے لیے لیٹ گئے۔
میں چوں کہ پہلی مرتبہ ایسے سفر پر نکلی تھی، اس لیے سعدیہ بھابھی میرا حد درجہ اکرام کر رہی تھیں اور حتی الامکان مجھے آرام پہنچانے کی کوشش میں لگی ہوئی تھیں۔ مجھے سب سے اچھی جگہ بٹھاتیں، بیڈ پر سلاتیں اور ہر وقت پوچھتی رہتیں کہ آپ کو کوئی تکلیف تو نہیں ہے۔ (اللہ انھیں جزائے خیر دے)۔
وقت تہجد میری آنکھ کھلی تو کوئی خاتون میرے پیر دبا رہی تھیں۔ پہلے تو میں بڑی حیران ہوئی کہ آخر یہ التفات کس لیے؟ پھر بیٹے کے کہے ہوئے الفاظ یاد آگئے کہ جماعت والے نماز کے لیے جگانے کو جھنجھوڑتے نہیں بلکہ پیر دباتے ہیں۔
میں سخت نیند کے باوجود جھٹ سے اٹھ بیٹھی۔ ارد گرد دیکھا تو ساری خواتین رات کے آخری پہر میں خالقِ کائنات سے راز و نیاز میں مصروف تھیں۔
میں نے بھی نوافل پڑھ کر اللہ کے حضور اپنی عرضیاں پیش کردیں اور پر سکون ہوگئی۔
فجر کے بعد سب سے اذکار کروائے گئے جو امیر جماعت نے بتائے تھے۔ ایک ایک تسبیح سبحان اللہ، الحمدللہ، اللہ اکبر اور درود شریف کی۔
پھر سب خواتین حلقہ بنا کر بیٹھ گئیں اور سب سے قرآن پاک کچھ سورتیں سنی گئیں۔ اشراق کے بعد ہم کچھ دیر کے لیے سوگئے۔ قریب نو بجے ناشتے کا دسترخوان سجادیا گیا۔
کسی ڈاکٹر صاحب کے گھر سے مزیدار پراٹھے، آملیٹ، حلوہ، شہد، ملائی و غیرہ آئے ہوئے تھے۔ اتنے میں مردانے سے پرچہ آگیا جس میں ساری خواتین کی ڈیوٹیاں درج تھیں۔ میرے ذمہ تعلیم کروانے کا کام تھا۔
10 بجے محلے کی خواتین آنا شروع ہوگئیں، پھر کرنل صاحب کا بیان ہوا جسے سن کر واقعی ایمان تازہ ہوگیا۔ دوپہر کو پھر کسی کی طرف سے جماعت کا اکرام تھا۔ بریانی، قورمہ، سلاد، رائتہ و غیرہ سب بہت مزیدار تھا۔ دل سے دعا نکلی۔
کھانے کے بعد سعدیہ بھابھی نے میرے لیے لیٹنے کی جگہ بنوادی، کیوں کہ قیلولہ کیے بغیر مجھ سے بیٹھا ہی نہیں جاتا۔
تین بجے خواتین دوبارہ آگئیں۔ تعلیم، بیان و غیرہ کے بعد سارے مہمانوں کو چائے بسکٹ پیش کیے گئے اور سب سے نقد جماعت نکالنے کی درخواست کی گئی۔
یہاں ایسا نظام الاوقات بنا ہوا تھا کہ دن کا ہر لمحہ دین سیکھنے، سکھانے میں صرف ہوتا تھا، نماز سیکھنا کبھی کوئی اور دین کی بات سیکھنا، کوئی فالتو کام نہیں ہوتا تھا۔ عصر بعد ایک ایک حدیث زبانی یاد کروائی گئی۔ عشاء کے بعد وضو، غسل کے فرائض، سونے کی سنتیں دہرائی گئیں۔
ہمیں نہ پکانے کی فکر تھی نہ گھر کے بکھیڑوں کی۔ تینوں وقت گویا من و سلویٰ اتر رہا تھا اور دن رات بیٹھے رہیں تصورِ جاناں کیے ہوئے، کا عالم تھا۔ اس لیے دل میں سکینت ہی سکینت اتر رہی تھی۔ مستقل اللہ کی رحمت کی بارش برس رہی تھی۔ نہ گھر یاد آیا نہ گھروالے، بچوں کو فون کرنا تو درکنار، اُن کا فون سننے تک کا وقت نہیں مل رہا تھا۔ واقعی ایسا محسوس ہورہا تھا جیسے ہم عمرے پر آئے ہوئے ہیں۔ بیمار بیٹی کا شکوہ بھرا مسیج آیا کہ آپ تو ہمیں بالکل ہی بھول گئیں۔ میں نے کہا تمھارے لیے دعاؤں میں لگی ہوئی ہوں۔
جنید جمشید مرحوم کی بہن منزہ جماعت کی نصرت کے لیے تشریف لائیں۔ یوں اُن سے ملاقات کا شرف حاصل ہوگیا۔ انھوں نے بیان کیا تو جنید بھائی جیسا اندازِ بیان لگا۔ میں نے انھیں بتایا کہ جنید بھائی کا بیان اور نعتیں ہر وقت ہمارے گھر اور گاڑی میں لگے رہتے ہیں، وہ تو ہمارے دلوں میں زندہ ہیں۔ منزہ کے علاوہ کچھ اور لوگ بھی جماعت کی نصرت کے لیے آتے رہے۔ سب ہمارے لیے پھل، کیک، سموسے و غیرہ لے کر آتے اور بہت اصرار سے ہم سب کو کھلاتے۔ یوں لگ رہا تھا جیسے ہم بہت خاص ہیں۔
جماعت میں آئی ہوئی بہنوں کے حالات سن کر معلوم ہوا کہ کیسے لوگ اس مبارک محنت میں اپنا تن من دھن سب کچھ لگا رہے ہیں۔ ایک نیا شادی شدہ جوڑا جس میں شوہر ونگ کمانڈر تھا، یہ دونوں اپنا ہنی مون پیریڈ جماعتوں میں گزار رہے تھے۔ نئی دلھن عفرا نے جماعت کی خدمت کی ذمہ داری اپنے اوپر لے رکھی تھی اور تعلیم کرانے میں بھی پیش پیش تھی۔
ہر ایک کا جذبہ بے حد قابل قدر تھا، جس کا طوالت کے خوف سے ذکر نہیں کرسکتی۔ تین دن گزرنے کا پتا بھی نہیں چلا۔ آج ہماری واپسی ہونی تھی۔ ساری خواتین کی آپ میں اتنی محبت ہوگئی تھی کہ سب ایک دوسرے سے مل کر رو رہی تھیں۔ واقعی اللہ کی خاطر محبت کا مزہ ہی اور ہوتا ہے۔
میں نے تین دن میں یہاں اتنا کچھ سیکھا تھا اور اتنی تربیت لی تھی جو ساری زندگی نہ سیکھ سکی تھی۔ جماعت والوں کے اصول و ضوابط سے بہت متاثر ہوئی۔ یہاں اپنا، گھر، گھر کا سکون، اپنا بستر، اپنا ہاتھ روم، گھر والے، سب کچھ چھوڑ کر نکلنا ہے۔ زیادہ تر پسماندہ علاقوں میں، جماعتیں بھیجی جاتی ہیں، جہاں پینے کو صاف پانی بھی مہیا نہیں ہوتا۔ کچے گھروں میں رہ کر گرمی سردی برداشت کرنی پڑتی اور خدمتیں کرنی پڑتی ہیں۔ یعنی کے سارے کا سارا مجاہدہ ہی ہے۔ تبھی تو محنت کا پھل برسوں سے روح پر چڑھے زنگ کے اترنے کی صورت ملتا ہے۔


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں