شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید:

سانحہ سراوان کی ’عادلانہ اور غیرجانبدارانہ‘ تحقیقات کی ضرورت ہے

سانحہ سراوان کی ’عادلانہ اور غیرجانبدارانہ‘ تحقیقات کی ضرورت ہے

خطیب اہل سنت زاہدان نے اپنے چھبیس فروری دوہزار اکیس کے خطبہ جمعہ میں سراوان بارڈر پر تیل کے کاروبار کرنے والوں پر فائرنگ کے واقعے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے عوام کو پرامن رہنے کی دعوت دیتے ہوئے اس حادثے کی درست، عادلانہ اور غیرجانبدارانہ تحقیقات اور فائرنگ کرنے والوں کے ٹرائل اور مجازات پر زور دیا۔
شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے زاہدان میں ہزاروں فرزندانِ توحید سے خطاب کرتے ہوئے کہا: سراوان میں واقع پاک ایران سرحدپر پیش آنے والے واقعے سے صوبہ سیستان بلوچستان میں بعض مسائل پیش آئے۔ اس حوالے سے عوام اور متعلقہ حکام سے کچھ عرض کرنا ہے۔
انہوں نے حکام کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: سانحہ سراوان کی درست، غیرجانبدارانہ اور عادلانہ تحقیقات کرنی چاہیے۔غفلت برتنے والے اہلکاروں کو قانون کے دائرے میں ٹرائل کریں۔ جس طرح عوام کو اسی قانون کے تحت جزا دیاجاتاہے اگر وہ کسی غلطی کا ارتکاب کریں، سکیورٹی اہلکاروں کو بھی اسی قانون کے تحت غلطی کی صورت میں عدالت میں پیش کیاجائے۔
صدر دارالعلوم زاہدان نے مزید کہا: سب قانون کے سامنے برابر اور جوابدہ ہیں؛ صدر مملکت سے لے کر کمشنرز و دیگر چھوٹے عہدیداروں تک سب کو قانون کے سامنے جوابدہ ہونا چاہیے۔ سرحدوں کی حفاظت کرنے والے اہلکار بھی اسی قانون پر عمل پیرا ہوجائیں اور عوام کی خدمت کریں۔ عوام بھی موجودہ قانون کے بنا پر اپنے حقوق کی پیروی کریں۔
انہوں نے عوام کو نصیحت کرتے ہوئے کہا: معزز شہریوں سے میری درخواست ہے کہ پرامن رہیں اور اپنے جذبات کو قابو کریں؛ کچھ افراد اپنے مقاصد کی خاطر احتجاج کرنے والوں کی صفوں میں گھس جاتے ہیں، ان کی اشتعال انگیزی سے متاثر نہ ہوجائیں تاکہ امن خطرے میں نہ پڑجائے۔
ممتاز دینی و سماجی شخصیت نے کہا: جب ہم نے کہا سانحہ سراوان کے کیس کو لوگ قانونی راستوں سے آگے لے جائیں، ہمارے جواب میں بعض لوگوں نے پوچھا: کون سا قانون؟ اس صوبے میں قانون نافذ نہیں ہوتا! لیکن ہماری توقع یہی ہے کہ عدلیہ حکام سمیت دیگر ذمہ داران اس کیس کی پیروی سے عملی طورپر ثابت کریں کہ قانون نافذ ہوتاہے۔ اس سے عوام کی تسلی ہوجاتی ہے۔ نفاذِ عدل اور قانون کے غیرجانبدارانہ نفاذ سے امن اور بھائی چارہ کو تقویت ملتی ہے۔

غلطی کو ماننا بہادری اور فراخدلی کی نشانی ہے
خطیب اہل سنت زاہدان نے بات آگے بڑھاتے ہوئے غلطی کی صورت میں معافی مانگنے کو بہادری کی نشانی یاد کرتے ہوئے کہا: اگر کسی سے کوئی غلطی سرزد ہوجائے، یہ اس کی بہادری و فراخدلی ہوگی کہ وہ اپنی غلطی پر اعتراف کرے، حقیقت کو نہ چھپائے اور کسی کے حق ضائع ہونے کی حالت میں معافی مانگے۔ یہ دنیا میں ایک رائج رویہ ہے۔
شیخ الاسلام مولانا عبدالحمید نے مزید کہا: جو ذمہ دار، اہلکار اور کوئی بھی شخص جو اپنی غلطی پر معافی مانگتاہے، عوام میں مقبول بن جاتاہے۔ اس سے مسائل بھی ختم ہوجاتے ہیں اور غمزدہ لوگوں کو بھی تسلی حاصل ہوجاتی ہے۔ لہذا جو شخص غلطی کا ارتکاب کرتاہے، وہ اپنی غلطی کو مان کر معافی مانگے۔

سرحدوں کے موقع سے غریب عوام کو روزگار فراہم کیاجائے
خطیب اہل سنت نے بارڈروں کے مواقع سے فائدہ اٹھانے پر زور دیتے ہوئے کہا: بارڈرز اہم مواقع شمار ہوتے ہیں۔ ہمارے ملک جنوب مشرق سے سمندر کے راستے سے بعض عرب ممالک کا ہمسایہ ہے اور پاکستان و افغانستان سے بھی اس کی سرحدیں ملتی ہیں۔ ایران کی بعض ضرورتیں ہیں اور پاکستان و افغانستان کی بھی کچھ ضروریات ہیں۔
انہوں نے مزید کہا: بارڈر پر دوطرفہ تجارت اور کاروبار سے عوام کو مناسب ذریعہ معاش مل جائے گا۔ لہذا ہماری درخواست ہے کہ اس کاروبار کو صرف سرحد کے قریب رہنے والوں تک محدود نہ کیاجائے۔ سب غریبوں کو فائدہ اٹھانے کا موقع دیا جائے۔
مولانا عبدالحمید نے کہا: ہمارے ملک معاشی پابندیوں سے دوچار ہے اور ان ہی سرحدوں سے ان پابندیوں کے منفی اثرات کو ختم کیاجاسکتاہے۔ لہذا تیل کا کاروبار کرنے والے اس حوالے سے کسی طرح حکومت کی خدمت کرتے ہیں تاکہ ملک پر عائد معاشی پابندیوں کو توڑا جائے۔
خطیب اہل سنت زاہدان نے اپنے خطاب کے آخر میں صوبہ کہگیلویہ وبویراحمد کے شہر ’سی سخت‘ میں زلزلے کے متاثرین کی امداد پر حاضرین کو ترغیب دیتے ہوئے کہا دارالعلوم زاہدان سے منسلک محسنین ٹرسٹ عوامی امداد جمع کرنے اور انہیں سی سخت پہنچانے کی مہم پر ہے، اس بارے میں ان کے ساتھ تعاون کیا جائے۔


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں