بانی دارالعلوم زاہدان مولانا عبدالعزیزؒ؛ کچھ یادیں (۳)

بانی دارالعلوم زاہدان مولانا عبدالعزیزؒ؛ کچھ یادیں (۳)

حضرت مولانا عبدالعزیزؒ اصلاح و تزکیہ کے حوالے سے بہت فکرمند رہتے تھے، اپنی اصلاح کی خاطر متعدد اسفار کی مشقت اٹھائی۔

اصلاحی اسفار
پاکستان اور ہندوستان کی شخصیات سے استفادہ کا تذکرہ سابقہ قسطوں میں گزرچکاہے۔ آپؒ نے پاکستان بننے سے پہلے علمائے دیوبند و دہلی سے استفادہ کیا۔ پھر مدرسہ صولتیہ میں تدریسی خدمات سرانجام دینے کے ساتھ ساتھ ارضِ حرم میں اپنی تزکیہ پر بھی توجہ مرکوز فرمائی۔
وطن واپس لوٹنے کے بعد آپؒ نے افغانستان کا بھی سفر کیا۔
مولانا عبدالعزیز رحمہ اللہ نے بلوچستان میں سرگرم شاہ غوث محمدؒ کے خلفا کی خدمات اور اپنے دورہ افغانستان کا تذکرہ کرتے ہوئے مجھ سے کہا: شاہ غوث محمد کے خلفا نے بلوچستان میں کام کیا اور بہت سارے لوگوں نے برے کاموں اور اخلاقی برائیوں سے توبہ کی۔ میں بھی ان کے ساتھ شامل ہوا۔ لیکن جب قریب سے انہیں دیکھا اور ان کے غیرشرعی کام نظر میں آئے، آہستہ آہستہ ان سے دور ہوا اور پھر ان کے خلاف قدم اٹھایا۔ بڑی مشقت سے افغانستان کے علاقے ’پرچمن‘ پہنچا اور شاہ غوث محمد رحمہ اللہ سے ملاقات کی۔ چند دن ان کے پاس رہا اور ان کے خلفا کے غیرشرعی کاموں کی شکایت کی۔ انہوں نے کہا میں اپنے مریدوں کو نصیحت کرتاہوں شرعی حدود سے تجاوزنہ کریں۔ میں جس چیز کی تلاش میں تھا، وہ مجھے ان کی خانقاہ میں نہ ملی۔
مولانا عبدالعزیزؒ نے حضرت مولانا احمدعلی لاہوری (یا مولانا عبدالقادر رائے پوری) سے ایک ملاقات کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ میں ان سے استفادہ کے لیے پہنچا۔ انہوں نے مجھ سے کہا کہ جو کچھ میرے پاس ہے، وہ سب مولانا ابوالحسن علی ندویؒ کے پاس ہے؛ ان سے استفادہ کریں۔ کسی سفر حج میں مجھے اطلاع ملی کہ مولانا علی میاںؒ مکہ مکرمہ تشریف رکھتے ہیں۔ وہاں ان سے ملاقات ہوئی، انہوں نے تواضع کرکے کہا میرے دامن میں کچھ نہیں جس سے تمہارا فائدہ ہو۔ میں اصرار کرتا رہا اور آپؒ انکار کرتے رہے۔

صحابہ کرامؓ سے عقیدت، ان کے دشمنوں سے نفرت
آپؒ کو صحابہ کرام سے انتہا درجے کی عقیدت تھی۔ اس کا اندازہ ان کی اس بات سے کیاجاسکتاہے۔ کسی پرائیویٹ مجلس میں مولانا عبدالعزیزؒ نے مجھ سے کہا: لوگ مجھ سے بے جا عقیدت رکھتے ہیں، لیکن میرے پاس ایسی کوئی چیز نہیں جس پر میرا بھروسہ ہو بغیر لوگوں کی نیک خیالی کی۔ لیکن مجھے امید ہے ایک وجہ سے قیامت کے دن اللہ مجھے بچائے، وہ بھی تمام صحابہ کرام، ازواج مطہرات اور اہل بیت رضی اللہ عنہم سے محبت و ارادت جو آئے دن بڑھتی جارہی ہے اور ان کو حقیر سمجھنے والوں کا بغض میرے دل میں آتاہے۔

تبلیغی جماعت سے تعلق
ایک دن میں ان کی مجلس میں حاضر تھا، بہت سارے لوگ جن کا تعلق مختلف طبقہ ہائے زندگی سے تھا بھی موجود تھے۔ حافظ علی اکبر حفظہ اللہ، آپ کے فرزندِ ارجمند اور بعض دیگر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد بھی موجود تھے۔ آپؒ نے تبلیغی جماعت کی خصوصیات، ان کی انتھک محنتوں اور پیہم کاوشوں کو سراہا اور تبلیغی جماعت کی افادیت پر مفصل گفتگو کی۔ حافظ علی اکبر نے صرف اتنا کہا کہ جماعت اسلامی کی بھی بہت ساری دینی خدمات ہیں۔ مولاناؒ نے اپنے وہی خاص جلالی شان اور انداز میں اس جماعت کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کیا اور آخر میں فرمایا: مرغیاں صبح شورمچاکر پورے محلے کو سر پر لیتی ہیں اور گلی کوچوں میں چیخیں نکالتی ہیں، آخر میں ان سے صرف ایک چھوٹا سا انڈہ نکلتاہے۔ لیکن اونٹ بہت بڑے بچے کو جنم دیتاہے وہ بھی کسی شورشرابے کے بغیر۔ پھر انہوں نے اس مثال کو جماعت اسلامی اور تبلیغی جماعت پر تطبیق دی اور فرمایا مرغی کی مثال جماعت اسلامی کے لیے ہے۔
(یاد رہے مولانا عبدالعزیزؒ نے ہندوستان ہی میں بانی جماعت دعوت و تبلیغ، حضرت مولانا محمدالیاس رحمہ اللہ سے ملاقات کی تھی اور اس وقت مولانا الیاس نے انہیں کہا تھا جب تبلیغی جماعت ایران پہنچے گی، ان کی مدد کریں۔تقریبا 1953ء کو جب تبلیغی جماعت کی پہلی جماعت ایرانی بلوچستان پہنچی، مولاناؒ نے ان کی ہرممکن نصرت کی اور آخری دم تک اس عظیم تحریک کے ساتھ تعاون کرتے رہے۔ منقول از: نگاہی بہ زندگانی حضرت مولانا عبدالعزیز ملازادہ رحمہ اللہ، ترتیب: مولوی عبدالباسط بزرگزادہ)

شوقِ دعا
حضرت مولانا عبدالعزیزؒ کی دعائیں سب کو یاد ہیں۔ شعبان 1403ہ کو بندہ نے عمرہ کا ارادہ کیا۔ حضرت مولاناؒ کو بھی اس کی خبر پہنچی تھی۔ جب میں وداع کے لیے ان کے گھر پہنچا، دیر تک گفتگو جاری رہی۔ میری درخواست سے پہلے انہوں نے حکم دیا ہاتھ اٹھاؤ تاکہ تمہارے لیے دعا کروں۔ جس اہتمام کے ساتھ آپؒ جامع مسجد میں مسلمانوں کے اجتماع میں دعا کرتے تھے، اسی اہتمام، جوش و ولولہ اور تضرع اور آہ و بکا کے ساتھ دعا کرتے رہے یہاں تک کہ مجھے بھی رلانے لگے۔ جب گھر سے نکلا، آپؒ میرے ساتھ آئے اور میں ’مدرس روڈ‘ تک جاتے ہوئے روتا رہا۔ اب بھی جب میں ان کی مناجات اور آہ و بکا کو یاد کرتاہوں، اس کی حلاوت مجھے محسوس ہوتی ہے۔
رمضان کے بعد میں عمرہ سے واپس آیا، لیکن ان کی ملاقات میسر نہ ہوئی۔ چند ماہ بعد جب میں زاہدان گیا، آپؒ جامع مسجد مکی کی توسیع کے کام دیکھ رہے تھے، میں بھی وہیں حاضرِ خدمت ہوا۔ جب ان کی نظر مجھ پر پڑی، فورا بولے آؤ دعا کرو کہ جس کام کو میں نے آغاز کیاہے، اللہ تعالیٰ اسے مکمل فرمائے۔ حافظ محمداسلام صاحب (مولانا عبدالعزیزؒ کے داماد اور جامعہ دارالعلوم زاہدان کے ناظم مالیات) بھی وہیں تھے، انہوں نے مولانا کو کہا کہ میں بہت پہلے حجاز سے واپس آیاہوں۔ لیکن مولاناؒ نے کوئی توجہ نہ دی اور حکم فرمایا کہ جوتے نکالو اور مجھے قبلہ رخ کرتے ہوئے فرمایا: اب دعا کرو! اللہ تعالیٰ اپنے اس بندے کو ان کے اخلاص، سچائی اور قوت و حرارتِ ایمانی کی بدولت عفو نصیب فرمائے۔
جاری ہے۔۔۔


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں