فرانس کی قومی اسمبلی نے مسلمانوں کے خلاف نئی پابندیوں پر مشتمل ایک قانون کی منظوری دی ہے جس کے نتیجے میں فرانس کے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو مسلمانوں کی کڑی نگرانی، ان پر گہری نظر رکھنے، ان کے تجارتی اور تعلیمی اداروں کو بند کرنے اور فرانس میں مقیم مسلمانوں کے خلاف قانونی کارروائی کرنے کے زیادہ وسیع اختیارات حاصل ہوجائیں گے۔
فرانسیسی حکومت کے مطابق اس قانون کے نفاذ کا مقصد فرانس کی سیکولر حیثیت، فرانس کی بنیادی اقدار رائے کی آزادی اور مساوات کے اصولوں کو برقرار رکھنا اور جبری شادیوں پر قدغن عائد کرنا ہے۔ قومی اسمبلی سے منظوری کے بعد حتمی قانون سازی کے لیے مذکورہ بل ایوانِ بالا میں بحث کے لیے پیش کیا جائے گا جہاں حزب اقتدار کو اکثریت حاصل نہیں ہے، اس لیے اس امر کا امکان موجود ہے کہ یہ بل موجودہ شکل میں قانونی حیثیت حاصل نہ کرسکے تا ہم میکرون حکومت کی جانب سے متنازع قانون کی منظوری کی کوششیں فرانس کی موجودہ قیادت کے عزائم کو آشکار کرانے کے لیے کافی ہیں اور یہی وجہ ہے کہ میکرون کی قیادت میں فرانس کا تصور عالم اسلام میں محض سیکولر کی بجائے ایک اسلام معاند ریاست کی صورت میں بدل چکا ہے جو اپنے مسلمان شہریوں کے دین و اقدار کا احترام کرنے کی بجائے جبر اور خوف کے ہتھیار کے ذریعے مسلم برادری کے تشخص اور ان کے نظریات کو بدلنا چاہتی ہے۔
درحقیقت اس نوعیت کے اقدامات خود سیکولرازم کی بنیادی اقدار پر مغرب کی لادین قیادت کے عدم اطمینان اور مغرب میں اسلام کی ترویج و اشاعت کے تیزی سے پھیلتے ہوئے سلسلے کو روکنے کا ناکام کوششوں کا عملی اعتراف ہے۔
دوسری جانب اس نوعیت کی پابندیاں دراصل ان متعصب اور معاند قوتوں کے خوف اور تشویش کو ظاہر کرتی ہیں جو مغربی معاشرے میں اسلام کے پھیلتے ہوئے پیغام اور مغربی معاشرے میں مسلمانوں سے بڑھتی ہوئی قربت کو دیکھ کر، بہر صورت یورپ میں اسلام کی مقبولیت کو کم کرنا چاہتی ہیں تا کہ ترکی کی ممکنہ کایا پلٹ اور یورپ کے قلب میں اسلام کی نشو و نما سے خود مسلم امہ کے کروڑوں نوجوانوں میں بیداری کی وہ لہر نمودار نہ ہوجائے جس کے نتائج جغرافیائی اور لسانی تقسیم سے قطع نظر محض کلمے کی بنیاد پر مسلم اتحاد کی صورت میں ظاہر ہوسکتے ہیں اور جس کے اولین نتائج بدیہی طور پر ترک، عرب دوستی کی صورت میں نمودار ہوں گے، جو ظاہر ہے کہ اسرائیل سمیت عالم اسلام کے خلاف جارحانہ عزائم رکھنے والی کسی بھی قوت کے لیے حوصلہ شکن اور انتہائی ناخوش گوار ہوں گے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک طرف تو فرانس کی موجودہ حکومت سرکاری سطح پر سیکولر اقدار کے تحفظ کی بات کرتی ہے تو دوسری جانب اس کا میڈیا دن، رات ترکی کے خلاف بے بنیاد پروپیگنڈے کے ساتھ ساتھ، مسلمانوں کے حوالے سے ایسی منفی رپوٹوں کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتا رہتا ہے جو بادی النظر میں تو سیاسی مخالفت کا پہلو رکھتی ہیں لیکن اس قسم کے منفی اور زہریلے پروپیگنڈے کے داخلی نتائج فرانس میں بالخصوص اور یورپ میں بالعموم اسلام سے متعلق خوف، تشویش اور تعصب کے جذبات و احساسات کا باعث بن رہے ہیں۔ کیا کسی کو اندازہ ہے کہ اس کے عالمی و استحکام پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟
بہت سے مبصرین یہ سوال اٹھا رہے ہیں کہ آخر میکرون حکومت اسلام مخالف خیالات کی ترویج و اشاعت سے کیا نتائج حاصل کرنا چاہتی ہے؟ کہیں یہ اگلے صدارتی انتخابات سے پہلے سستی عوامی مقبولیت حاصل کرنے کی کوشش تو نہیں؟ جبری شادی کے جس موہوم مسئلے کو بنیاد بنا کر مسلم شہریوں پر پابندیاں عائد کی جارہی ہیں کیا اس سے بڑھ کر فرانس میں عورتوں پر ہونے والے مجرمانہ حملوں کو بڑھتی ہوئی شرح تشویش ناک نہیں؟ اگر میکرون حکومت یہ سمجھتی ہے کہ وہ عوام کی اکثریت کے حق کی خاطر مسلمانوں پر پابندیاں عائد کرنے جارہی ہے تو اسے واضح کرنا ہوگا کہ مسلمانوں کی وجہ سے فرانس کے عوام کو تکلیف ہی کیا پہنچی ہے؟ جب خود فرانس ہی متعددتنظیمیں میکرون حکومت کے اسلام مخالف رویے کو نہ صرف مسترد کرچکی ہیں بلکہ وہ مسلمانوں کے حق میں متنازع قانون کے خلاف عالمی عدالت میں باقاعدہ مقدمہ لڑنے کا فیصلہ بھی کرچکی ہیں، نیز جہاں تک رائے کی آزادی کے تحفظ کا تعلق ہے تو یہ بھی محض مغالطہ ہے کیوں کہ رائے کی آزادی کے حوالے سے بھی مسلم برادری کبھی رکاوٹ ثابت نہیں ہوئی، تاہم جہاں تک پیغمبرِ اسلام علیہ الصلوۃ و التسلیم کی ذاتِ والا صفات کا تعلق ہے تو ظاہر ہے کہ ان کی حرمت، ناموس اور شان کے خلاف (خدانخواستہ) کوئی امر آزادی اظہار رائے کے زمرے میں نہیں بلکہ مسلمانوں کے جذبات و احساسات کی شدید توہین اور حد درجے اشتعال انگیز امر ہونے کی وجہ سے انسانی حقوق کی خلاف ورزی نیز امنِ عالم کو تباہ کرنے کے زمرے میں آتا ہے، جیسا کہ یورپی ملک ہالینڈ میں بھی اسی نوعیت کے اسباب و علل کے پیش نظر پیغمبر اسلام، محسن انسانیت جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کو ملکی قانون کی خلاف ورزی کے تحت داخل کیا جارہا ہے، جو مسلمانوں کے اس موقف کی تائید ہے کہ حرمت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مسئلے کا آزادی اظہار رائے کے انسانی حق سے کوئی لینا دینا ہی نہیں ہے کیوں کہ رائے کی مطلق آزادی فی الواقع ممکن ہی نہیں، نہ ہی دنیا کے کسی بھی قانون میں مطلق رائے کی آزادی کو انسانی حق تسلیم کیا گیا ہے۔
چنانچہ ضرورت اس امر کی ہے کہ اول تو عالم اسلام فرانس میں بسنے والے مسلمانوں کے خلاف کیے جانے والے اقدامات سے میکرون حکومت کو باز رکھنے کے لیے اپنا اثر رسوخ استعمال کرے ثانیا فرانس کے لبرل طبقے کو انہی کے مسلمات کی روشنی میں یہ پیغام دیا جائے کہ وہ مسلمانوں کے خلاف امتیازی سلوک پر مشتمل قانون سازی کو روکنے میں اپنا کردار ادا کریں اور میکرون حکومت کو سستی مقبولیت حاصل کرنے کی کھلی چھٹی نہ دیں، تا ہم اس سب کے باوجود اگر میکرون حکومت بالجبر اس قانون کے نفاذ پر تل ہی جائے تو عالم اسلام کے مقتدر حلقوں کا فرض ہوگا کہ وہ فرانس کے مسلمانوں کو اس طرح بے یار و مددگار نہ چھوڑیں جیسا کہ کبھی اسپین کے مسلمانوں کو چھوڑ دیا گیا تھا۔ بالفرض ایسا ہی ہوا تو خود فرانس کو بھی اس کے نہایت منفی نتائج کا سامنا کرنے کے لیے تیار رہنا چاہیے، کیوں کہ فرانس کے تجارتی مقاطعے کا راستہ بہر حال مسلم امہ کے سامنے کھلا ہے۔ اگر فرانسیسی حکومت اپنے اسلام دشمن عزائم سے باز نہیں آتی تو دنیا بھر کے مسلمانوں کو فرانسیسی مصنوعات کا بائیکاٹ کرنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔
آپ کی رائے