حضرت علامہ ڈاکٹر خالد محمود صاحبؒ کی وفات کا صدمہ ابھی تازہ تھا کہ دارالعلوم دیوبند کے شیخ الحدیث حضرت مولانا سعید احمد پالنپوری بھی ہمیں داغ مفارقت دے گئے، انا للہ و انا الیہ راجعون۔ صبح ساڑھے آٹھ بجے کے لگ بھگ حسب معمول نیند سے بیدار ہو کر موبائل فون کھولا تو کراچی کے ڈاکٹر ثناء اللہ محمود کے اکاؤنٹ پر حضرت مفتی صاحبؒ کے فرزند مولانا قاسم احمد پالنپوری کا میسج رنج و غم کا ایک نیا طوفان لیے نگاہوں کے سامنے موجود تھا کہ “انتہائی رنج و غم کے ساتھ یہ خبر صاعقہ اثر لکھی جا رہی ہے کہ ہمارے والد محترم حضرت مولانا مفتی سعید احمد صاحب پالنپوری شیخ الحدیث دارالعلوم دیوبند آج بتاریخ ۱۹ مئی مطابق ۲۵ رمضان المبارک بروز منگل بوقت چاشت اللہ کو پیارے ہوگئے ہیں۔ انا للہ و انا الیہ راجعون‘‘۔ مفتی صاحبؒ کی علالت کی خبریں کئی روز سے آرہی تھی مگر گزشتہ روز ایک میسج نے تشویش میں اضافہ کر دیا تھا جو آج حقیقت میں بدل گئی اور عالم اسلام کی یہ عظیم علمی شخصیت، محدث، فقیہ، متکلم اور ہزاروں علماء کرام کے شفیق استاذ اپنا سفر زندگی مکمل کر کے دار باقی کی طرف روانہ ہوگئے۔
مولانا پالنپوریؒ کے تعارف کے لیے اس کے بعد مزید کسی بات کی ضرورت باقی نہیں رہ جاتی کہ وہ جنوبی ایشیا کی سب سے بڑی علمی درسگاہ دارالعلوم دیوبند کے شیخ الحدیث تھے اور انہوں نے سالہاسال تک اس مرکز علم میں ہزاروں تشنگان علوم کو مسلسل فیضیاب کیا ہے۔ دارالعلوم دیوبند کا یہ منصب ہمیشہ اپنے دور کی ممتاز ترین علمی شخصیات کے ساتھ مخصوص رہا ہے جن میں شیخ الہند حضرت مولانا محمود الحسنؒ، خاتم المحدثین حضرت علامہ سید محمد انور شاہ کشمیریؒ اور شیخ العرب و العجم حضرت مولانا سید حسین احمد مدنیؒ جیسے اساطین علم و فضل کے نام آتے ہیں، اور ان کے ساتھ کسی فہرست میں نام کا شمار ہونا بجائے خود کسی بڑے سے بڑے علمی اعزاز سے کم نہیں ہے۔ مگر حضرت مولانا سعید احمد پالنپوریؒ ہر صاحب علم و فضل کی طرح اپنے کچھ امتیازات اور خصوصیات بھی رکھتے تھے جن کے باعث وہ اپنے معاصرین میں ایک الگ شان کے ساتھ جلوہ گر دکھائی دیتے تھے اور ان کی آرا و افکار کو اہل علم کے حلقوں میں رہنمائی اور استفادہ کے لیے مرجع کی حیثیت حاصل تھی۔
مجھے متعدد بار ان کی زیارت و ملاقات کا شرف حاصل ہوا اور ان کے ارشادات سے مستفید ہونے کا موقع ملا۔ لندن میں ورلڈ اسلامک فورم کے قیام کے بعد اپنے عہد کی جن ممتاز علمی و فکری شخصیات نے اس کے علمی پروگراموں کو رونق بخشی، ان میں حضرت پالنپوریؒ بھی شامل ہیں۔ لندن کے مرکز ختم نبوت اسٹاک ویل گرین میں ورلڈ اسلامک فورم کی ایک فکری نشست میں وہ تشریف لائے اور عصر حاضر میں علماء کرام کی ذمہ داریوں کے عنوان سے انہوں نے بلیغ خطاب فرمایا۔ دور حاضر کے فکری و نظریاتی فتنوں پر ان کی نظر بہت گہری تھی اور وہ علمائے کرام اور دینی حلقوں کو اپنے مخصوص انداز میں ان سے باخبر کرتے رہتے تھے۔ یہ خطاب بھی ان کے اسی ذوق کا آئینہ دار تھا، پھر ایک بار نیویارک میں ’’شریعۃ بورڈ‘‘ کے مولانا مفتی نعمان احمد کے ہاں ان کی زیارت ہوئی اور کچھ دیر ان کی مجلس و گفتگو سے شادکام ہونے کا موقع ملا۔ ان دنوں والد گرامی حضرت مولانا سرفراز خان صفدرؒ کا کچھ عرصہ قبل انتقال ہوا تھا اس لیے زیادہ دیر انہیں کی باتیں ہوتی رہیں بلکہ گوجرانوالہ کے ایک لوکل اخبار نے حضرت والد محترم کے حوالے سے خصوصی اشاعت کا اہتمام کیا تھا جس کی ایک کاپی حضرت پالنپوریؒ کی خدمت میں پیش کی اور اس کے مختلف پہلوؤں پر انہوں نے تبصرہ فرمایا۔ اس کے علاوہ بعض ممتاز اہل علم کے کچھ علمی و فقہی تفردات بھی زیر بحث آئے جن کے بارے میں انہوں نے فرمایا کہ تفردات اور انفرادی آرا کو اگر باقاعدہ موقف بنا کر سامنے نہ لایا جائے تو بہت سی الجھنوں سے بچا جا سکتا ہے۔ خود میرا ذوق بھی ان معاملات میں یہی ہے اس لیے یہ گفتگو کافی دلچسپ رہی۔
میں نے ایک موقع پر کسی مجلس میں عرض کیا کہ ہم درس نظامی کے نصاب میں علم کلام کے موضوع پر بنیادی کتاب “شرح العقائد” پڑھاتے ہیں جو یونانی فلسفہ کے پیدا کردہ اعتقادی و کلامی مباحث کے حوالے سے ہے اور اہل سنت کے عقائد کے بنیادی ڈھانچے سے آگاہی کے لیے وہ ازحد ضروری ہے، مگر آج کے دور میں ہمیں جن عقائد و افکار کا سامنا ہے ان کا بیشتر حصہ مغربی فلسفہ و ثقافت کا پیدا کردہ ہے، اس لیے جدید مغربی فکر و فلسفہ نے جو مسائل کھڑے کیے ہیں ان کے بارے میں شرح العقائد کی دوسری جلد لکھنے کی ضرورت ہے جسے اس کے ساتھ ہی درسی طور پر پڑھایا جانا چاہیے۔ بعض دوستوں نے اسی مجلس میں سوال کیا کہ یہ لکھے گا کون؟ میں نے عرض کیا کہ میری نظر میں اس وقت تین بزرگ ہیں جو اس کام کو صحیح اور بہتر طور پر کر سکتے ہیں (۱) حضرت مولانا مفتی تقی عثمانی دامت برکاتہم (۲) حضرت مولانا سعید احمد پالنپوریؒ اور (۳) حضرت علامہ ڈاکٹر خالد محمودؒ۔ ان میں سے دو تو ہم سے رخصت ہوگئے ہیں جبکہ حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی کے لیے بلامبالغہ جسم کا رواں رواں دعاگو رہتا ہے کہ اللہ تعالی انہیں امت مسلمہ کی رہنمائی کے لیے صحت و عافیت کے ساتھ تا دیر سلامت رکھیں آمین یا رب العالمین۔
حضرت مولانا سعید احمد پالنپوریؒ کا امت کے اصحاب علم پر ایک عظیم احسان یہ بھی ہے کہ انہوں نے حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ کی کی معرکۃ الآرا تصنیف ’’حجۃ اللہ البالغۃ‘‘ کی اردو و عربی دونوں زبانوں میں شرح لکھ کر علماء اور طلباء کی رسائی اس عظیم علمی ذخیرہ تک آسان کر دی ہے جو یقیناً ان کے لیے صدقہ جاریہ ہے۔
اللہ تعالی ان کی حسنات قبول فرمائیں، سیئات سے درگزر کریں اور ان کے خاندان، تلامذہ اور مستفیدین کو ان کی حسنات سلسلہ تا دیر جاری رکھنے کی توفیق سے نوازیں آمین یا رب العالمین۔
آپ کی رائے