وبائی امراض میں شرعی ہدایات

وبائی امراض میں شرعی ہدایات

دنیا اس وقت کئی مُہلک وائرس (بیماری پھیلانے والے جراثیم) کا سامنا کر رہی ہے، ان میں سے اکثر جان لیوا ثابت ہوتے ہیں، انھیں میں سے ایک اور خطرناک وائرس ”کرونا“ نے دنیا کو دہشت زدہ کردیا ہے، ماضی میں ایسی مُہلک وباؤں کا شکار اکثر پسماندہ اور غیرترقی پذیر ممالک ہوتے تھے، لیکن عجیب اتفاق ہے کہ اس بار اولین مرحلے پر ترقی یافتہ ممالک اس کا شکار ہوگئے ہیں اور ان میں سے چین سب سے زیادہ متاثر ہے۔ جاپان، تھائی لینڈ، سنگاپور، تائیوان، کینیڈا، جرمنی اور کسی حد تک امریکا بھی اس کی زد میں ہے، یعنی وہاں اس وائرس کی تصدیق ہوچکی ہے، کرونا وائرس کی نصف درجن سے زائد اقسام دریافت ہوچکی ہیں، جب اس کا خورد بین سے جائزہ لیا گیا تو یہ نصف دائرے کی شکل میں نظر آیا اور کنارے پر ایسا ابھار نظر آیا جو تاج کی شکل کے مشابہ ہے، رومن زبان میں تاج کو کراؤن کہتے ہیں، اسی بنا پر اس کا نام کرونا رکھ دیا گیا ہے، اب تک زیادہ تر جاندار مثلا: خنزیر اور مرغیاں اس سے متاثر ہوتے رہے ہیں، لیکن اب یہ وائرس اپنی شکل بدل کر انسانوں کو متاثر کر رہا ہے۔ 1960ء کے عشرے میں کرونا وائرس کا نام دنیا نے پہلی بار سنا اور اب تک اس کی 13 قسمیں سامنے آچکی ہیں، ان میں سے سات اقسام انسانوں میں منتقل ہو کر انہیں متاثر کرسکتی ہیں۔
صحت کے عالمی ادارے کے مطابق وائرس کا شکار ہونے سے دو ہفتے کے اندر اس کی علامات سامنے آتی ہیں، چینی محکمہ صحت نے ’ووہان‘ سے نمودار ہونے والے وائرس کا جینوم (جینیاتی ڈرافٹ) معلوم کرکے اسے دنیا کے سامنے پیش کیا ہے، اب تک اس کی کوئی اینٹی وائرل دوا یا ویکسین دریافت نہیں ہوسکی، ماہرین اس کی ظاہری علامات کے مطابق ہی اس کا علاج کر رہے ہیں۔
تحقیق کرنے والوں نے بتایا کہ یہ وائرس خنزیر، چمگاڈر اور اسی طرح کے دوسرے ناپاک جانوروں کو کھانے سے انسانوں میں منتقل ہوتا ہے، یہ وائرس اس لئے بھی بہت خطرناک ہے کہ یہ ایک دوسرے تک منتقل ہونے کی صلاحیت رکھتا ہے، اس وائرس سے انسانوں میں سانس لینے کی دقت کی بیماری پیدا ہوتی ہے اور پھیپھڑوں میں سوجن پیدا ہوتی ہے، نزلہ اور زکام پھر تیز بخار سے اس کے اثرات ظاہر ہوتے ہیں اور پھر انسان آناً فاناً لقمہ اجل بن جاتا ہے۔
صحت کے ماہرین کی بتائی ہوئی حفاظتی تدابیر پر عمل کرنا لازم ہے، چونکہ اس مرض کا تعلق سانس سے ہے، اس لیے ایسی امراض کے بچاؤ کے لیے منہ اور ناک پر ماسک پہننے کا مشورہ دیا جاتا ہے تا کہ کسی مریض سے سامنا ہو تو وائرس کی زد سے بچ سکیں، لازم نہیں ہے کہ ہر شخص مرض کے وبائی اثرات کا شکار ہوجائے، جیسے بعض متعدی امراض ایک گھر میں داخل ہوجاتے ہیں، اور تقدیر الہی سے بعض کو تو اپنی لپیٹ میں لے لیتے ہیں اور وہ فوت ہوجاتے ہیں اور بعض دیگر افراد ان سے محفوظ رہتے ہیں، عالمی ادارہ صحت نے اس ضمن میں باتصویر ہدایات جاری کی ہیں، جن کا خلاصہ یہ ہے:
بار بار اچھے صابن سے ہاتھ دھوئیں، نزلہ اور زکام کے مریضوں سے دور رہیں، کھانستے اور چھینکتے وقت منہ اور ناک کو ڈھانپیں، جانوروں سے دور رہیں، کھانا پکانے سے قبل اور بعد میں ہاتھوں کو اچھی طرح دھوئیں، کھانا اچھی طرح پکائیں اور اسے کچا نہ رہنے دیں، کسی کی بھی آنکھ، چہرے اور منہ کو چھونے سے گریز کریں،۔
جو شخص پانچ مرتبہ دن میں نماز کا اہتمام کرتا ہے اور کھانے سے پہلے اور بعد میں ہاتھ دھونے کی سنت پر عمل کرتا ہے، اس کے لیے ان تدابیر پر عمل کرنا آسان ہے۔
اسی کے ساتھ یہ حقیقت بھی سامنے رہے کہ ”ان اللہ لایظلم الناس شیئا و لکن الناس انفسھم یظلمون“ (یونس: ۴۴) یعنی اللہ تعالی لوگوں کو پریشانیوں میں مبتلا نہیں فرماتے، لوگ اپنے اعمال کی وجہ سے خود گرفتار بلا ہوتے ہیں۔
چنانچہ قرآن کریم اور احادیث مبارکہ میں بیماریوں اور پریشانوں کا ایک سبب انسانوں کی بداعمالیاں اور کھلے عام گناہوں میں ملوث ہونا بھی بتایا گیا ہے۔
ایک حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ”لم تظھر الفاحشۃ فی قوم قط، حتی یُعلنوا بھا، الا فشا فیھم الطاعون، و الاوجاع التی لم تکن مضت فی اسلافھم الذین مضوا۔“ (جب کبھی کسی قوم میں فحاشی کا رواج بڑھتا ہے یہاں تک کہ وہ کھلم کھلا بے حیائی کرنے لگتے ہیں تو ایسے لوگوں کے درمیان طاعون اور ایسی بیماریاں پھیل جاتی ہیں جو ان کے گذرے ہوئے اسلاف کے زمانے میں موجود نہیں تھیں۔) ]ابن ماجہ حدیث نمبر 4019[
آج دنیا میں نئی نئی بیماریاں سامنے آرہی ہیں بہت سی بیماریاں تو ایسی ہیں جن کا پہلے نہ کوئی تصور تھا، نہ ان کا نام کہیں سنا گیا تھا، آج بیماریاں بستی بستی پھیل گئی ہیں اور ان میں مبتلا ہونے والوں کی تعداد روز بڑھ رہی ہے۔ ان تمام ہی بیماریوں کو مذکورہ بالا حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کا مصداق قرار دیا جاسکتا ہے، کیونکہ دنیا میں جس رفتار سے فحاشی بڑھ رہی ہے اسی رفتار سے ان بیماریوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔
یہ تو اللہ کا بہت ہی کرم ہے اور اس کی شان رحمت ہے کہ آج انسان سر تا پا گناہوں میں ڈوبا ہونے کے باوجود اللہ کی گرفت سے محفوظ و مامون ہے۔ حدیث شریف میں موجود ہے: ”ما اختلج عرق و لا عین الا بذنب و ما یدفع اللہ عنہ اکثر“ ]المعجم الصغیر 216/2[ انسان کو کوئی جسمانی نقصان اور بیماری اس کے گناہوں کی وجہ سے ہی پہونچتی ہے، اور اللہ تعالی گناہوں کے باوجود جن بیماریوں کو اس سے روک لیتا ہے وہ پہونچنے والی بیماریوں سے کہیں زیادہ ہوتی ہیں۔
اس لئے ظاہری تدابیر اور علاج کے ساتھ ساتھ گناہوں او رمعاصی سے اجتناب کا عزم مصمم اور اللہ رب العزت کے حضور نیازمندی کے احساس کے ساتھ دعاؤں کا اہتمام یہ مستقل طور پر رحمت خداوندی کو متوجہ کرنے کا ذریعہ ہے، اللہ کی رحمتوں کے سایہ میں وہ کر انسان بیماریوں اور ہر طرح کی مصیبتوں سے محفوظ و مامون رہتا ہے۔
انسانیت کے سب سے بڑے محسن حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو اللہ تعالی سے عافیت کی دعا مانگنے کی تعلیم فرمائی ہے: ”اللھم انی اسالک العافیۃ فی الدنیا و الآخرۃ، اللھم انی اسالک العفو و العافیۃ فی دینی و دنیای و اھلی و مالی، اللھم استر عوراتی و آمن روعاتی، اللھم احفظنی من بین یدی، و من خلفی، و عن یمینی و عن شمالی، و من فوقی، و اعوذ بعظمتک ان اغتال من تحتی۔“ ]ابن ماجہ رقم: 5074[
’اے اللہ! میں تجھ سے دنیا و آخرت میں عافیت کا طلب گار ہوں، اے اللہ! میں تجھ سے عفو و درگزر، اپنے دین و دنیا، اہل و عیال اور مال میں عافیت کی التجا کرتا ہوں، اے اللہ! ہماری ستر پوشی فرما، ہماری شرمگاہوں کی حفاظت فرما اور ہمیں خوف و خطرات سے محفوظ اور مامون فرما، اے تو ہمارے آگے اور پیچھے سے، دائیں اور بائیں سے، اوپر سے حفاظت فرما اور میں اس بات سے تیری عظمت کی پناہ میں آتا ہوں کہ میں اچانک اپنے نیچے سے پکڑ لیا جاؤں۔‘
اسی کے ساتھ ساتھ جب بھی کسی کے بارے میں سنیں کہ اسے کوئی متعدی بیماری ہے، تو یہ دعا ضرور پڑھیں:
” اَللَّهُمَّ إِنّی أَعُوذُ بِکَ مِنَ البَرَصِ وَالجُنُونِ وَالجُذَامِ وَ مِن سَیِّئِ الأَسقَامِ “ (ابوداود، رقم: 1554)
” اَللّٰھُمَّ عَافِنِیْ فِیْ بَدَنِیْ، اَللّٰھُمَّ عَافِنِیْ فِیْ سَمْعِیْ، اَللّٰھُمَّ عَافِنِیْ فِیْ بَصَرِیْ لَا اِلٰهَ اِلَّا اَنْتَ۔۔“ (ابوداود، رقم: 5090)
اللہ تعالی ہم سب کو دنیا و آخرت کی صلاح و فلاح کے اعمال کی توفیق بخشے۔ آمین


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں