اسلام قیامت تک زندہ و تابندہ رہے گا

اسلام قیامت تک زندہ و تابندہ رہے گا

نوٹ: جامعہ صدیقیہ فیض العلم سالم پورہ، کریم نگر میں مفتی عبیداللہ صاحب اسعدی مدظلہ العالی شیخ الحدیث جامعہ عربیہ ہتوراباندہ نے علماء و حفاظ سے ”ملک کے موجودہ حالات اور علماء کرام کی ذمہ داریاں“ کے عنوان پر خطاب فرمایا جسے افادہ عام کی غرض سے پیش کیا جارہا ہے۔ از مرتب غفرلہ

اللہ تعالی نے اپنے فضل و کرم سے جس دین و مذہب سے ہم کو وابستہ کیا ہے، وہ دین اسلام ہے، دین اللہ تعالی کے نزدیک صرف اسلام ہے اسلام کے اصل معنی سونپ دینے کے ہیں، مذہب اسلام کو بھی اسی لحاظ سے ”اسلام“ کہا جاتا ہے کہ ایک مسلم اپنے کو ہمہ تن خدائے واحد کے سپرد اور اس کے احکام کے سامنے بے چوں چرا سر تسلیم خم کردیتا ہے؛ دین اسلام کی تین خوبیاں ہیں۔

یہ دین، دین فطرت ہے
دین اسلام کی پہلی خوبی یہ ہے کہ ”یہ دین، دین فطرت ہے“ کوئی بھی حکم فطرت کے خلاف نہیں ہے اللہ تعالی نے بے شمار مخلوقات پیدا فرمائی اور انسان کو عبادت کے لئے پیدا فرمایا اور ساتھ ہی ساتھ انسان کے اندر کھانے پینے کپڑا پہننے و غیرہ کی ضروریات رکھیں تو بھوک پیاس کے تقاضے بھی رکھے جو انسان کی فطرت میں شامل ہے اور اس خوشی اور غم کے حدود قائم فرمائے چنانچہ مسلمان خوشی منائے مگر شریعت کے دائرے میں رہ کر کہ فضول خرچی نہ ہو کسی کو تکلیف نہ ہو کسی گناہ میں مبتلا نہ ہو ایسے ہی رنج و غم کے وقت آنسو بہ جائے کوئی مضائقہ نہیں مگر کپڑے پھاڑنا چیخنا چلانا بالکل باگل بن جانا یہ حدود سے تجاوز ہے اسی طرح کپڑا پہن کر اپنے جسم کی ستر پوشی کرنا ہے مگر جن چیزوں کے پہننے سے شریعت نے منع کیا ہے اب ان کا استعمال درست نہیں ہوگا شریعت نے نکاح کو آسان کیا اگر کوئی رسم و رواج اور ناجائز اور حرام چیزوں جہیز اور جوڑے گھوڑے کی رقم کا اضافہ کردے یا نکاح کے علاوہ ناجائز راستوں کو تلاش کرکے اپنی جنسی خواہش کی تکمیل کرے تو یہ شریعت کے حدود کو توڑنا اور پامال کرنا ہے، ایسے ہی کھانے اور پینے کی چیزوں میں اللہ تعالی نے حدود قائم فرمائے اگر کوئی حرام جانوروں اور پرندوں کا گوشت، شراب اور جس جس چیز کو شریعت نے حرام قرار دیا ہے اس کو کھائے پیے تو یہی چیز اللہ تعالی کے متعین کئے ہوئے حدود کی خلاف ورزی اور حدود کو توڑنا ہے اور اللہ تعالی بنائے ہوئے حدود کو توڑنا اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے بغاوت اور نافرمانی کرنا ہے اور ایک سچے مسلمان کی شان یہی ہے کہ وہ اللہ تعالی کے ہر حکم کو چوں چرا کرے بغیر دل سے تسلیم کرے چاہے وہ حکم عقل کے مطابق ہو یا عقل کے مطابق نہ ہو۔
الغرض! شریعت کے سارے احکام میں حدود قائم ہے اور کوئی بھی حکم حکمت سے خالی نہیں ہے خواہ اس حکم کو انسان کی عقل تسلیم کرے یا نہ کرے، انسانی ضروریات اور تقاضوں کے مطابق ہی اللہ تعالی نے احکام بندوں پر نافذ فرمائے کوئی بھی حکم اللہ تعالی نے اس کے فطرت کے خلاف نہیں رکھا ہے نیز اس کو ایسی چیز کا مکلف بھی نہیں بنایا جس کو وہ برداشت اور تحمل نے کرسکے مگر فرشتوں میں یہ انسانی ضروریات اور تقاضے نہیں ہے بلکہ اللہ تعالی نے ان کو رات دن اپنے ذکر کیلئے پابند رکھا کہ وہ اس حکم میں کمی زیادتی نہیں کرسکتے اور جس چیز کا ان کو حکم دیا جاتا ہے تو اس حکم کے بجا لانے میں نافرمانی نہیں کرتے۔ بہر حال فطرت سے بغاوت گمراہی کے راستے کی طرف جانا ہے بعض دفعہ کسی کام کا جذبہ صحیح ہوتا ہے لیکن فیصلہ غلط ہوتا ہے عیسائیوں میں رہبانیت کا جذبہ اللہ تعالی کی رضا حاصل کرنے کے لئے تھا صحیح جذبہ تھا مگر فطرت کے خلاف تھا ممکن ہے اپنے پیغمبر و پیشوا حضرت عیسی علیہ السلام کے نکاح نہ کرنے کی وجہ سے پیدا ہولیکن فیصلہ غلط تھا اللہ تعالی نے ان کو رہبانیت کا حکم بھی نہیں دیا تھا اور وہ اس کو نبھا بھی نہیں سکے شریعت نے تجرد کی زندگی کی ہمت افزائی نہیں کی بلکہ نکاح کو ضرورت اور کمال بتلایا نیز نکاح انبیاء کرام کی سنت ہے اور خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے قول ”النکاح من سنتی“ (نکاح میری سنت ہے) کے علاوہ گیارہ نکاح فرما کر عملی نمونہ بھی پیش فرمایا۔

یہ دین جامع اور مکمل ہے
دین اسلام کی دوسری خوبی یہ ہے کہ ”یہ دین جامع اور مکمل ہے“ دنیوی زندگی میں عادتاً جو حالات بھی پیش آسکتے ہیں ہر حال کا حکم اس شریعت میں موجود ہے پیدائش سے وفات تک عقائد، عبادات، آپس میں معاملات اور لین دین کا طریقہ اور حسن معاشرت یعنی آپس میں زندگی گزارنے کے طور طریقے، اخلاقیات الغرض ہر ہر چیز کی قدم قدم پر رہنمائی کی گئی ہے کوئی بھی شعبہ اسلامی تعلیمات سے خالی نہیں ہے نیز ”اطیعوا اللہ و اطیعوا الرسول و اولی الامر منکم“ میں ”و اولی الامر“ کے تحت حکام کے ساتھ علماء بھی داخل ہیں قرآن و حدیث میں جو مسئلہ نہ ملے تو علماء امت کے اقوال و افعال میں ضرور رہنمائی مل جائیگی مگر بعض لوگ افراط میں مبتلا ہوگئے اور دین میں اضافہ کردئے اور بعض لوگ تفریط میں مبتلا ہوگئے اور دین میں کمی کردئے اور لوگوں نے بھی اسی کو دین سمجھ لیا خواہ وہ قرآن و حدیث کی روشنی میں ہو یا نہ ہو حتی کہ برادران وطن بھی مسلمانوں کے بعض اعمال جو شریعت کے خلاف ہیں مثلاً مسلمانوں کا مخصوص شکل میں مزارات پر جانے و غیرہ اعمال کو خالص اسلامی تعلیمات اور مسلمانوں کا دین سمجھ لیا، کسی بھی نیک عمل کو جو شریعت کی حد سے باہر ہو ہرگز دین قرار نہیں دیا جاسکتا صحابہ رضی اللہ عنہم نے بھی رات بھر جاگ کر نمازیں پڑھنے اور دن میں روزہ رکھنے کا ارادہ کیا تھا صحابہ رضی اللہ عنہم کا ارادہ نیک نیتی پر تھا صحابہ رضی اللہ عنہم کے بارے میں غلط سوچا بھی نہیں جاسکتا کیونکہ صحابہ رضی اللہ عنہم کی جماعت مقدس منتخب اور گناہوں سے محفوظ جماعت ہے صحابہ کی نیت صحیح تھی مگر فیصلہ غلط تھا اس لئے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا کرنے سے منع فرمادیا۔

یہ دین، دین ابدی ہے
اسلام کی تیسری خوبی یہ ہے کہ ”یہ دین، دین ابدی ہے“ جو احکام خاتم الانبیاء اور سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم لے کر آئے وہی خدا کا دین ”دین اسلام“ ہے اور دین اسلام کو چھوڑ کر کہیں بھی ابدی نجات اور حقیقی کامیابی نہیں مل سکتی اور ان شاء اللہ یہ دین قیامت تک کے لئے زندہ و تابندہ رہے گا۔

موجودہ حالات میں مسلمانوں کو پیغام اور علماء کی ذمہ داریاں
رہی بات حالات کی تو ہم سب کا عقیدہ ہے کہ جو ہوا ہے جو ہورہا ہے اور جو ہونے والا ہے سب اللہ تعالی ہی کی طرف سے ہے درخت کا ایک پتا بھی اللہ تعالی کی اجازت کے بغیر ہل نہیں سکتا، موجود حالات بھی اللہ تعالی ہی کی طرف سے ہیں جہاں ہمارا اقتدار ہے وہاں بھی تو حالات ہیں تو جہاں اقتدار ہی نہیں ہے وہاں اگر حالات پیش آجائے تو مایوس اور ناامید ہونا نہیں ہے، اللہ تعالی امتحان درجہ بہ درجہ لیتے ہیں انبیاء کا امتحان ان کے شایاں شان ہوتا ہے اولیاء کرام کا امتحان ان کے شایان شان ہوتا ہے ہم جیسوں کا امتحان ہمارے حال کے مطابق ہوتا ہے؛ لہذا ایسے وقت میں علماء کی ذمہ داری ہے کہ شریعت کے دامن کو مضبوطی سے تھا میں، اخلاص و للہیت کے ساتھ اپنی خدمات انجام دیں، اپنی خدمات کو کمتر نہ سمجھیں، اس لئے کہ کبھی گاؤں، دیہات میں پڑھانے والا وہ مقام حاصل کرلیتا ہے جو مقام شہر کے مفتی اعظم کا ہوتا ہے، بغیر تحقیق کے مسئلہ بیان نہ کریں، چھوٹوں سے مسئلہ پوچھنے میں شرم نہ کریں، مساجد و مدارس کو آباد کریں، امامت و خطابت کو ملازمت کے طور پر نہیں بلکہ دینی خدمت سمجھیں اور دل میں امت کی فکر اور تڑپ پیدا کریں، ضروری اور بنیادی دینی تعلیم دے کر امت کے ایمان کو بچانے کی فکر کریں اور گاؤں گاؤں، محلہ محلہ، گلی گلی، مکاتب قائم کریں، جس کا فائدہ یہ ہوگا کہ قادیانیت یا کوئی بھی فتنہ اس علاقے میں پیدا نہیں ہوگا۔ دعا ہے کہ اللہ تعالی ہمارے اعمال کو قبول فرما کر تا دم حیات استقامت کے ساتھ دینی خدمات انجام دینے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں