مسلمانوں کی کمزوری اور اس کا علاج

مسلمانوں کی کمزوری اور اس کا علاج

ایک زمانہ تھا کہ امت مسلمہ دنیا میں سب سے زیادہ ترقی یافتہ تھی، اس کی تہذیب ساری تہذیبوں پر غالب تھی، ان کے علم و فن کی طوطی بولتی تھی، ساری دنیا کی قومیں امت مسلمہ سے تہذیب و ثقافت سیکھتی اور ان سے ترقی و خوشحالی کا درس حاصل کرتی تھیں، امت مسلمہ ہر میدان میں آگے تھی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے ساتھ ہی اس دنیا میں نور خداوندی کی کرنیں پھوٹیں اور ہر چہار جانب پھیلتی چلی گئیں، اللہ تعالی نے اپنے اس نور کا انتظام اس لئے کیا کہ وہ انسانوں کو ظلمت و تاریکی کے دور سے نکال کر انہیں رشد و ہدایت، علم و حکمت، الفت و محبت، امن و سلامتی اور میل ملاپ کی روشنی میں داخل کردے، اس نور ہدایت اور ضیائے علم و حکمت کی آمد کے بعد امت مسلمہ ترقی کرتی رہی، ہمیشہ قدم آگے بڑھاتی رہی، یہاں تک کہ دنیا کی ساری قومیں علم و حکمت، تحقیق و جستجو، ترقی و خوشحالی، تہذیب و تمدن اور متوازن نظام حکمرانی میں اس کی دست نگر ہوگئیں، مسلمان ہر میدان میں ان سے آگے رہے اور قیادت عالم کا فریضہ انجام دیتے رہے، اس نے اسلام کے ذریعہ انسانیت کی پاسبانی کی اور انسانیت کے قافلے کی حق و صداقت اور امانت و دیانت کے ساتھ رہبری کی، انہوں نے اسلامی تعلیمات، خدائی احکام اور فطری نظام کو بڑی خوش اسلوبی سے روئے زمین پر فانذ کیا اور انسانوں کو چین و سکون، امن و امان، خوشحالی و آزادی کے ساتھ زندگی گذارنے کا موقع فراہم کیا۔
اسلام اور امت مسلمہ کا یہ کارواں اسی نہج پر رواں دواں رہا، مگر چند صدی بعد ہی مسلمانوں میں کمزوریاں گھر کر گئیں، ان کا رشتہ اسلام اور اس کی تعلیمات سے کمزور پڑتا اور ٹوٹتا رہا، وہ اپنے راستے سے ہٹ گئے، ہمارا قافلہ جس شاہراہ پر روان دواں اور سفر کررہا تھا، وہ اس سے منحرف ہوگئے، یہاں تک کہ وہ بہتر کے بجائے معمولی اور گھٹیے کو پسند کرنا شروع کردیا، ان کے لئے ترقی و عروج کا جو ذریعہ تھا، اس سے منہ موڑ کر انہوں نے حقیر و چھیچھڑوں کو پسند کرنا شروع کردیا، ان کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان کی ترقی نہ صرف رک گئی بلکہ عروج زوال میں تبدیل ہوگیا۔ 16 ہجری میں مسلمان فوجیں حضرت ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ کی قیادت میں شام کو فتح کرتے ہوئے فلسطین تک پہنچ گئیں، عیسائی بیت المقدس میں قلعہ بند ہوگئے اور مسلم فوجوں نے ان کو اپنے محاصرہ میں لے لیا، اس وقت عیسائیوں کی جانب سے صلح کی پیش کش ہوئی، جس میں ایک خاص شرط یہ تھی کہ خلیفہ وقت حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ خود آکر عہدنامہ کی تکمیل کریں، حضرت ابوعبیدہ نے عیسائیوں کی اس پیش کش سے امیرالمومنین کو مطلع کیا، حضرت عمر مشورہ کے بعد فلسطین کی طرف روانہ ہوگئے، آپ جب اسلامی لشکر سے ملے تو اس وقت آپ کی یہ حالت تھی کہ جسم پر ایک تہبند اور کرتے پر متعدد پیوند لگے ہوئے تھے، حضرت ابوعبیدہ نے عرض کیا امیرالمومنین آپ کو عیسائیوں کے فوجی افسروں اور بڑے مذہبی پیشواؤں سے ملاقات کرنی ہے، یہ لوگ بڑے متمدن ہیں، آپ اس لباس میں ان کے سامنے جائیں گے، تو ہماری اور آپ کی کیا عزت رہ جائے گی، اس پر حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا، اے ابوعبیدہ کاش یہ بات تمہارے سوا کوئی او رکہتا، تمہیں معلوم نہیں:
انا کنا أذل قوم فاعزنا اللہ بالاسلام، فمھما نطلب العز بغیر ما أعزنا اللہ بہ أذلنا اللہ
ہم دنیا میں سب سے پست قوم تھے، تو اللہ نے ہمیں اسلام کے ذریعہ عزت دی، تو جب بھی ہم اس کے سوا کسی اور چیز کے ذریعہ عزت چاہیں گے تو اللہ ہمیں ذلیلی کردے گا۔
پھٹے پرانے لباس میں بھی ان کا بلکہ ہمارے اسلاف کا رعب و دبدبہ تھا، مگر ہمارا شاندار ملبوسات میں بھی نہیں، وہ کھجور کی چپلیں پہنتے تھے، مگر رعب تھا، ہم قیمتی جوتوں میں بھی خار ہیں، وہ خچروں پر سفر کرتے تھے مگر زمانہ ان کے نام سے کانپتا تھا، ہم بڑی بڑی گاڑیوں اور حشم و خدم میں بھی رسوائے زمانہ ہیں، آج مسلمانوں کی ہوا اکھڑ چکی ہے۔ دنیا میں نہ کہیں ان کی عزت و عظمت ہے نہ رعب و دبدبہ، دنیا کا کوئی ملک اور قوم اس سے نہیں ڈرتا، اور وہ ہر کسی سے ڈرتا ہے، ساری دنیا میں اس کا مذاق اڑایا جاتا ہے، ایک زمانہ تھا کہ قیصر و کسریٰ جیسی دنیا کی سپر طاقتیں ان کے نام سے لرزہ براندام تھیں، اور آج اس سے اسرائیل جیسا ذلیل و خوار مٹھی بھر تعداد بھی نہیں ڈرتا بلکہ انہیں ڈرا کر رکھتا اور ان پر مظالم ڈھاتا ہے۔
افرادی اعتبار سے آج مسلمانوں کی تعداد تقریبا ڈیڑھ ارب ہے، وسائل کے اعتبار سے ان کے پاس دولت و ثروت اور پٹرول کی قوت ہے، معدنیات کے ذخائر اور کانیں بھی مسلم ملکوں میں زیادہ ہیں، لیکن ان تمام چیزوں کے باوجود مسلمان آج ساری قوموں سے زیادہ کمزور و لاغر اور مغلوب ہیں، اس کی واحد بڑی وجہ ایمان کی کمزوری، تعلیم سے دوری اور تحقیق و جستجو سے بے اعتنائی اور اللہ کے بجائے خلق اللہ پر اعتماد اور باہمی تفرقہ بازی اور پھوٹ ہے۔
ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ ہماری عزت و سربلندی امریکہ و روس اور یورپ کی جوتیاں سیدھی کرنے، ان کے تلوے چاٹنے، ان کا حکم بجا لانے، ان کی ہدایتوں پر اپنے مسلمانوں بھائیوں کا خون بہانے اور عیاشی و بدکاری اور رقص و سرور کی محفلیں سجانے میں نہیں بلکہ ہماری عزت و سربلندی ہمارا عروج و ترقی اور ہماری قوت اپنے دین پر عمل پیرا رہنے اپنی کتاب ہدایت (قرآن) اور سنت نبوی کو اپنے لئے مشعل راہ بنانے میں ہے، ہم جس قدر اپنے دین کو تھامنے میں مضبوط ہوں گے اسی قدر ہماری قوم اور ہماری سیاست مضبوط ہوگی۔
یعنی امت مسلمہ کی طاقت و کمزوری کا مدار دین کی مضبوطی و کمزوری پر ہے، اور ہم جس قدر دوسروں کے عقیدے پر یقین رکھیں گے جس قدر ان پر ہمارا بھروسہ ہوگا، اور جس قدر ان کی مدد کے طلبگار ہوں گے، اسی قدر ہم ان کے سامنے ذلیل و خوار اور بے وقعت ہوں گے، سچا مسلمان وہ ہے جو مسلمانوں کے امور و معاملات پر توجہ دیتا ہے، اس کے بول و بالا کے لئے فکرمند رہتا اور اس کے لئے تگ ودو کرتا ہے، خواہ و ہ حاکم ہو یا رعایا، امت مسلمہ جو جسد واحد کی طرح ہے، اس امت کے درد و الم سے وہ گھٹتا اور ٹیس محسوس کرتا ہے، اور اس کے مداوا کی تدبیریں کرتا ہے، وہ دوسروں کے مصائب و آلام اور دوسرے بھائیوں پر ڈھائے جانے والے مظالم پر شاداں و فرحاں نہیں ہوتا اور نہ انہیں اور بھی عذاب میں مبتلا کرتا ہے، اور نہ ہی محض تماشائی کی طرح بے فکری کے ساتھ اس کا تماشا دیکھتا ہے، بلکہ وہ حکمت و دانائی کے ساتھ ان مظالم و سفا کی اور یہود و نصاری و دیگر ادیان و مذاہب کی دہشت گردیوں کو روکنے کی کوشش کرتا ہے، اس کا دین و ایمان اور اس کی ضمیر اسے جھنجھوڑتی ہے کہ وہ اپنے مشرق و مغرب کے مسلمانوں کو بچائے، ان کی خلاصی و نجات کی صورت نکالے، وہ اس بدترین حالت سے امت کو باہر نکالنے کی ہر ممکن کوشش کرتا، وہ مسلمانوں کی شیرازہ بندی کی کوشش کرتا، انہیں توڑنے اور خانوں میں بانٹنے کی تدبیریں نہیں کرتا ہے وہ امت مسلمہ کو ایک صف میں کھڑا کرنے کی سعی کرتا، فتنوں کو دور کرنے کے وسائل اختیار کرتا اور امت کے غم میں شب و روز کروٹیں بدلتا ہے، اپنے محلوں میں بیٹھ کر رقص و سرور کی محفلیں جماکر عیاشی و بدکاری میں مبتلا رہ کر اور ہر روز حسیناؤں کو بغلوں میں لٹا کر داد عیش لے کر امت کے مصائب دور نہیں ہوتے بلکہ اس میں اضافہ ہوتا اور ان کی وجہ سے پوری قوم قہر و عذاب الہی میں گرفتار ہوجاتی ہے، آج بھی امت اگر اپنے تفرقے پر پشت ڈال دے، اپنی عیاشیوں اور بدکاریوں کو روک دے اور دین کو مضبوط سے تھام کر اس کے مطابق عمل کرنے لگے اور کتاب و سنت کی روشنی میں فیصلے کرنے لگے کہ کسی سے دوستی کرنی ہے اور کس سے نہیں، کس کی ماننی ہے اور کس کی نہیں، تو بہت جلد اس کا ثمرہ ظاہر ہوگا، اور وہ خیر امت ثابت ہوگی، جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا:
كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللَّـهِ (النساء: 110)
”تم لوگ (اے مسلمانو!) سب سے بہتر امت ہو، جسے میدان میں لایا گیا ہے، لوگوں کے بھلے کے لئے، تمہارا کام ہے نیکی کی تعلیم دینا، اور برائی سے روکنا، اور تم (بمقابلہ دوسروں کے ٹھیک طور پر صحیح معنوں میں) ایمان رکھتے ہو اللہ (وحدہ لاشریک) پر“
اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بالکل واضح اور دو ٹوک الفاظ میں ہمیں بتادیا ہے کہ امت کی کمزوری و مضبوطی کا مدار کیا ہے۔ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
یوشک أن تداعی علیکم الامم کما تداعی الاکلۃ علی قصعتھا فقال قائل و من قلۃ نحن یومئذ یا رسول اللہ، فقال بل انتم کثیر و لکنکم غثاء کغثاء السیل و لینزعن اللہ من صدور اعداء کم المھابۃ منکم و لیقذفن فی قلوبکم الوھن، قال قائل: یا رسول اللہ! و ما الوھن؟ قال: حب الدنیا و کراھیۃ الموت (مسنداحمد)
دنیا کی قومیں تمہاری تباہی بربادی کیلئے ایک دوسرے کو بلائیں گی اور اسی طرح دعوت دیں گی جس طرح دعوتوں میں دسترخوان پر کھانے والوں کو بلایا جاتا ہے، اور وہ پیالوں پر ٹوٹ پڑتے ہیں، صحابہ میں کسی نے عرض کیا کہ اس کی وجہ کیا یہ ہوگی کہ ہم تعداد میں اس وقت کم ہوں گے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں بلکہ تم تعداد میں بہت ہوگے، مگر تم سیلاب کے جھاگ کی طرح ہوگے، اللہ تعالی تمہارے دشمنوں کے دلوں سے تمہارا دبدبہ نکال دے گا، اور تمہارے دلوں میں کمزوری ڈال دے گا، صحابہ نے کہا یہ کمزوری کیا ہے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دنیا کی محبت اور موت سے نفرت۔
مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ اپنی حالت کا موازنہ اس سے حدیث سے کریں، کیا آج امت مسلمہ کی حالت اس پیش گوئی کی عکاسی نہیں کررہی ہے، غور کریں کہ مسلمانوں کو سیلاب کے جھاگ سے تشبیہ دی گئی ہے، جس جھاگ سے کمزور و ناتواں کچھ نہیں ہوتا، نہ اس میں ثبات ہے، نہ کوئی قوت جسے تھپیڑے بہاتے چلے جاتے ہیں، کیا آج ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دوسری پیشین گوئی کے مصداق نہیں بن گئے ہیں کہ سابقہ اقوام نے جو بھی برائیاں کی ہیں، سب ہم سے رونما ہورہے ہیں، کیا ہم مغربی اقوام کے پیچھے گوہ کی ضب میں داخل نہیں ہوچکے ہیں، جبکہ یہ بل نہایت تنگ و تاریک اور سخت بدبودار ہے، آج بلاشبہ ہماری کمزوری دنیا کی محبت اور موت سے نفرت ہے، آج ہماری بزدلی کی یہ حالت ہے کہ گور کشک ہمیں مار رہے ہیں، ذلیلی کررہے ہیں، قتل کررہے ہیں مگر یہ اپنا دفاع کرنے کی سکت نہیں رکھتے، ہماری حالت تاتاریوں کے وقت کی طرح ہوگئی کہ ایک تاتاری عورت کسی مسلمان کو کہتی تھی کہ تم یہیں ٹھیرو میں تلوار لے کر آتی ہوں، تمہیں قتل کروں گی تو وہ وہیں رکا رہتا اور وہ گھر سے جا کر تلوار لاتی اور اسے قتل کردیتی تھی، آج یہ مختلف رکشک کے نام پر دہشت گردی و غنڈہ گردی کرنے والے ہمیں روکتے پھر ہتھیار لاتے اور ہمیں قتل کرتے ہیں، اور ہم قتل ہونے کا انتظار کرتے ہیں، اس کی وجہ یہی دنیا کی محبت ہے جس نے ہمیں کھوکھلا کردیا ہے، ہم دین سے دور ہو کر دنیا ہی کو اپنا سب کچھ سمجھ لیا ہے، ہم جسم واحد تھے مگر آج ہمارے جسم کا ہر عضو الگ اور منتشر ہوچکا ہے، دوسرے عضو کی تکلیف کا احساس ہمارے دلوں سے نکل چکا ہے، ان کے درد و الم پر ہمارے کان پر جویں نہیں رینگتی ہیں، جیسے وہ ان کا معاملہ ہو جبکہ ااج اس کی توکل ہماری باری ہے، آج ہمارا شیرازہ منتشر ہے، کسی ایک بات پر ہمارے درمیان اتفاق نہیں، ہم نماز میں ہاتھ باندھنے کے مقام اور رفع یدین کرنے یا نہ کرنے پر جھگڑ رہے ہیں، اور دنیا ہماری تباہی کے منصوبوں پر عمل پیرا ہے، آج ہمارا دل ایمان و یقین اور اللہ کی قدرت پر اعتماد سے خالی ہوچکا ہے، اے کاش کہ اب بھی ہم ہوش کے ناخن لیتے، اپنے اندر ایمانی قوت پیدا کرتے، اللہ پر بھروسہ کرتے اور کتاب و سنت کو مضبوطی سے تھام لیتے اور اس پر عمل پیرا ہوتے، جس دل کی گہرائیوں میں ایمان و یقین ہوگا وہ مضبوط اور تناور درخت کی مانند تیز و تند آندھی و طوفان میں بھی اپنی جگہ کھڑا رہے گا، اور مصائب و آلام کے جھونکے اور تیز ہوائیں انہیں متزلزل نہیں کریں گی، اے کاش کہ ہم اس راز کو سمجھتے اور اپنا رشتہ دین وایمان سے مضبوط کرنے کی فکر کرتے۔


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں