انٹرنیٹ ’سوشل میڈیا‘ کتنا مفید اور کتنا مضر؟

انٹرنیٹ ’سوشل میڈیا‘ کتنا مفید اور کتنا مضر؟

آج دنیا میں ہر طرف سہولت پسندی کا دور دورہ ہے، گزرتے ایام کے ساتھ ساتھ جدید الکٹرانک آلات وجود پذیر ہورہے ہیں جس سے بڑے بڑے فاصلے سمٹ کر رہ جاتے ہیں، سکنڈوں میں ایک پیغام دنیا کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک پہنچایا جاسکتا ہے اور باہم بات چیت کے ایسے ذرائع بھی ایجاد ہوگئے کہ ایک ملک سے دوسرے ملک میں اس طرح بات کی جاسکتی ہے گویا کہ دونوں آمنے سامنے ہوں، نیز خیالات کا تبادلہ، خبروں سے آگاہی، باہم مربوط ہونا، انٹرنیٹ کے ذخائر سے فائدہ اٹھانا، نہایت ہی آسان ہوچکے ہیں۔
1983ء کو انٹرنیٹ ایجاد ہوا، 1990ء میں مزید ترقی ہوئی 2000ء کے بعد سوشل میڈیا کی بہت ساری سائٹس مثلا: فیسبک، واٹساپ، ٹیلیگرام، ٹویٹر، انسٹاگرام سامنے آئی اور معاملہ یہاں تک آپہنچا کہ سوشل میڈیا لوگوں کی دلچسپی کا محور و مرکز بن گیا۔ سوشل میڈیا کا مقصد رابطوں کو فروغ دینا تھا، لیکن اس کی آڑ میں دیگر مقاصد کے لیے بھی اس کا استعمال ہونے لگا اور جوں جوں وقت گزرتا گیا ضمنی مقاصد ہی اصل مقاصد بن گئے اور اس کی اوٹ میں باطل اسلام مخالف طاقتوں نے اس موقع سے فائدہ اٹھا کر اسے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف استعمال کرنا شروع کردیا اور نوجوانوں اس کو اجنبیوں سے تعلقات بڑھانے اور دنیا بھر کی خبروں پر مطلع ہونے اور اس کو دوسروں تک بھیجنے کے لیے بروئے کار لانے لگے اور مقتدر قوتیں اسے اپنے مفاد اور سیاست کے لیے استعمال کرنے لگیں۔ سوشل میڈیا ذہن سازی اور مخصوص مقاصد کے لیے استعمال کیا جانے والا ایک ایسا ہتھیار بن گیا کہ جس ہتھیار سے ہر ایک شخص اپنے اپنے مقاصد میں پوری کامیابی حاصل کرسکتا ہے، قطع نظر اس کے کہ وہ مقاصد اچھے ہوں یا برے یہ سلسلہ چلتا رہا اور اتنا آگے بڑھ گیا کہ سوشل میڈیا دو دھاری تلوار بن گیا اور صحیح استعمال کرنے والوں کے لیے بہت زیادہ مفید ثابت ہوا جبکہ غلط استعمال کرنے والوں کے لیے نہایت ہی مضر اور نقصان دہ ثابت ہوا اور ہر ایک کو اس کا خمیازہ بھگتنا پڑا جس کا ہم مشاہدہ کررہے ہیں۔
الغرض انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا ایک ایسا ہتھیار بن چکا ہے جو جنگی ہتھیار سے بھی زیادہ موثر ہے کیوں کہ اس کے ذریعے دل و دماغ اور نظریات پر حملہ کیا جاتا ہے جس کا زخم کبھی مندمل نہیں ہوتا بلکہ رہ رہ کر بڑھتا رہتا ہے اور اپنا ایسا گرویدہ بنا کر چھوڑتا ہے جس کی محبت کو دل سے نکالنا ایک مشکل ترین امر ہوجاتا ہے خاص طور سے اس پر فتن دور میں جبکہ چہار سمت فتنوں کی برسات ہو رہی ہے انسان کا اپنی ذات کو ان سب سے بے داغ رکھنا اور بھی دشوار کن ہے بہر حال ناممکن تو نہیں۔
کوشش کرے تو پھر کیا نہیں انسان کے بس میں
یہ ہے کم ہمتی جو بے بسی معلوم ہوتی ہے

فوائد پر ایک نظر
اس کی بدولت دور دراز کے لوگوں سے بھی تعلقات کو بہتر سے بہتر بنایا جاسکتا ہے، صحیح بات کو سامنے لانے اور صحیح مسائل کو پیش کرنے میں اس کا اہم کردار ہے۔ اس کے ذریعے اپنی بات دنیا بھر میں پہنچانے کے ساتھ ساتھ اپنے نظریات کو لوگوں کے قلوب پر بٹھایا جاسکتا ہے۔ انٹرنیٹ پر موجود ذخائر سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھا کر گہری معلومات حاصل کی جاسکتی ہے، مفید پروگرام اور اپنی بات دنیا بھر میں پہنچائی جاسکتی ہے، باطل اور اسلام مخالف طاقتوں کا منہ توڑ جواب دے کر ان کا بھانڈا پھوڑنے کے بعد امت کو صحیح بات سے آگاہ کیا جاسکتا ہے، لوگوں کو صحیح صورتحال سے واقف کیا جاسکتا ہے، امت کے پسماندہ طبقوں کی مالی امداد کی جاسکتی ہے، مدارس و مکاتب اور مساجد میں مالی تعاون بھی پہنچایا جاسکتا ہے، تصنیف و تالیف کے ساتھ ساتھ اپنی آواز لوگوں تک پہنچائی جاسکتی ہے، لوگوں کی زندگی بدل دینے والے مضامین و مقالات اور لیٹریچر شائع کیے جاسکتے ہیں۔ غرض بے شمار فوائد ہیں جسے اس کی بدولت حاصل کیا جاسکتا ہے۔

نقصانات پر ایک نظر
یاد رہے اس کے نقصانات فوائد سے کہیں زیادہ ہیں، اسی لیے تو اس کا استعمال و اثمھما اکبر من نفعھما کے مرادف ہے کیوں کہ 97 فی صد میڈیا یہودیوں کے قبضے میں ہے جن کے چار مقاصد ہیں:
(۱) دنیا کی ہر طرح کی چیزوں میں میوزک اتنا تیز کردے کہ لوگوں میں سوچنے، غور و فکر کرنے اور سمجھنے کی صلاحیت بالکیہ طور پر ختم ہوجائے اور اُدھر وہ لوگ سائنسی ایجادات، نئے نئے انکشافات کرکے اپنا لوہا منواتے رہیں۔
(۲) جو کوئی معاشرہ ایسا ہو جس کو لوگ پسند کرنے لگے ہوں اور جس سے لوگ متاثر ہونے لگے ہوں اس کے کردار پر انگلی اٹھائے، اس کے لیے انتھک کوشش کر کے مسلمانوں اور اسلام کے خلاف زہر اُگلنے پر ہی اکتفا نہیں کرتے بلکہ عملی اقدام کرنے سے ذرہ برابر بھی پیچھے نہیں ہٹتے گویا کہ وہی ان کا اوڑھنا بچھونا ہے۔
(۳) لوگ ہر کام میں ان کے ذہنی غلام بن جائیں اور ہر کام کو نعوذباللہ اللہ کی طرف منسوب کرنے کی بجائے یہ کہتے ہوئے نظر آئیں کہ امریکا کرتا ہے۔
(۴) جنسی آزادی کی وہ صورتحال پیدا کی گء کہ جس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا چنانچہ ۰۹ فی صد ڈراموں میں خاندانی یونٹ کو توڑا جاتا ہے، اظہار آزادی رائے اور پرسنل لائف نے خاندان، معاشرہ اور سماج کے نظام کو اس طرح تباہ و برباد کردیا کہ جس کا تصور بھی ممکن نہ تھا۔
یہودی افکار کو فروغ دینے کے لیے پرنٹ میڈیا، الکٹرانک میڈیا اور سوشل میڈیا کا استعمال کیا جا رہا ہے۔ لوگوں کو ان کے ذریعے ایسا میسیج دیا جارہا ہے کہ لادینیت عروج پر پہنچے، ایک دوسرے سے ملنے کے لیے وقت ختم ہوتا جارہا ہے۔ چونکہ اب تو لوگوں کو میڈیا نے قریب ہونے کے باوجود اتنا دور کردیا ہے کہ کوئی میٹھے بول کے لیے، بیماروں کی عیادت کے لیے تو وقت کیا نکالتا ماں باپ سے بات چیت کرنے اور ان کی دیکھ ریکھ کرنے کے لیے بھی ان کے پاس ٹائم نہیں ہوتا۔ بلا سوچے سمجھے سوشل میڈیا کے ذریعے کوئی بھی پیغام دیدیا جاتا ہے، اس بات کی کوئی فکر نہیں ہوتی کہ میری کہی ہوئی بات کے کیا اثرات مرتب ہوں گے؟ میڈیا نے سچ اور جھوٹ کی پہچان مشکل بنادی ہے۔
میڈیا کے ذریعے لڑکیوں میں بے باکی، بے پردگی، بے حیائی، فحاشی و عریانیت وجود میں آرہی ہے اور غیرت و حمیت شرم و حیا کا جنازہ نکلتا جارہا ہے، اس کے ذریعے ہماری نئی نسل اپنے والدین کی آنکھوں میں دھول جھونک رہی ہے نیز جدید ذرائع ابلاغ کے ذریعے عوام پر ایسے نظریات مسلط کیے جارہے ہیں کہ جس سے معاشرے میں منفی رجحان فروغ پارہا ہے۔ لوگوں کی سوچ و فکر کو تبدیل کیا جارہا ہے، اب تو انسان کے دل سے خوف بھی نکل چکا ہے۔ وہ یہ بھول گئے ہیں کہ ایک دن ان کو اللہ کے حضور پیش ہونا ہے اور ہر عمل کا جواب دینا ہے۔
اس کے ذریعے انسان کے نظریات پر حملہ کیا جارہا ہے، میڈیا کے استعمال کی وجہ سے جنسی جرائم بڑھ رہے ہیں، زنا، چوری، ڈاکہ زنی، سے لے کر تمام برائیوں میں آئے دن اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ سوشل میڈیا کے ذریعے عوام و خواص کے ذہنوں کو کنٹرول کیا جارہا ہے۔ بریں بنا حکومت اس کو اپنی واہ واہ کرانے کے لیے اور بہت سے بدمعاش عناصر گنڈا گردی کے ذریعے اپنا خوف و ہراس لوگوں کے دلوں میں ڈالنے کے لیے استعمال کرتے ہیں اور اس کے استعمال کرنے والے ایسے گرویدہ ہوجاتے ہیں کہ ایک منٹ بھی سوشل میڈیا یا الکٹرانک آلات کے استعمال کے بغیر نہیں رہ پاتے ہیں اور اسی میڈیا کی بدولت امت پر ایسے افراد کو مسلط کیا جاتا ہے جس کے منہج میں غلطی ہو اور انٹرنیٹ، میڈیا، جدید آلات انسان کی تمام پسندیدہ اور ناپسندیدہ چیزوں کو محفوظ کرلیتا ہے اور اس کی آڑ میں حکومت ممنوعہ چیزوں کے استعمال پر نظر رکھتی ہے اور کسی بھی وقت گرفت کرلیتی ہے۔
الکٹرانک آلات کے ایجاد ہونے سے قبل کسی کو گمراہ کرنے یا اپنے نظریات کو لوگوں کے دل و دماغ میں راسخ کرنے کے لیے افراد، فوج اور ایجنٹ بھیجنے کی ضرورت پڑتی تھی لیکن اب تو میڈیا ایک ایسا جال بن گیا ہے کہ جس میں من مانے طور پر لوگوں کو پھنسایا جارہا ہے اور یہ ایسا ہتھیار بن چکا ہے جو اثر کیے بغیر نہیں رہتا۔ لوگوں کے قیمتی اوقات کو ضائع کردیتا ہے اور اکیلے گھر میں بند رہنے کے باوجود اس کے فتنے سے محفوظ نہیں رہ سکتے ہیں۔
خلاصہ کلام یہ کہ میڈیا، سوشل میڈیا اور الکٹرانک آلات کا استعمال جتنا مفید اور وقت کو بچانے والا ہے اس سے کہیں زیادہ وقت کو ضائع کرنے والا اور نہایت ہی مضر ہے۔ اس ہتھیار سے ہر ایک اپنے اپنے مقاصد میں 100 فی صد کامیابی حاصل کرلیتا ہے اور اس جال سے ہر کوئی اپنے شکار کو پالیتا ہے۔ آج ہماری باطل کے ساتھ جو جنگ چل رہی ہے وہ ہے میڈیا کے ذریعے نظریاتی جنگ، اس کا مقابلہ بھی نظریاتی یلغار کو روک کر، صحیح بات سامنے لا کر اس میڈیا سے ہی کیا جاسکتا ہے۔ اس لیے میڈیا کے استعمال کی جہاں ضرورت ہے وہیں اس کے بُرے اثرات، غلط استعمال سے بچنا بھی از حد ضروری ہے ورنہ پورے اوقات کو ضائع کرنے، زندگی کو برباد کرنے کے لیے یہ کچھ کم نہیں ہے۔ غرض اپنے اوپر قابو رکھتے ہوئے اس کا صحیح استعمال کیا جائے اور باطل کی عیاریوں اور مکاریوں کا پردہ فاش کرکے صحیح حقائق کو منظر عام پر لانے، صحیح نظریات، صحیح باتوں کو لوگوں تک پہنچانے کے لیے اس کا استعمال کیا جائے تو ان شاء اللہ یہ بڑا ہی مفید اور زود اثر ثابت ہوگا اور اس کو صرف ضرورت کے لیے ہی استعمال کیا جائے۔
اس کے بُرے اثرات سے بچنے کے لیے ایک عملی تدبیر یہ اختیار کی جاسکتی ہے کہ جب بھی سوشل میڈیا یا الکٹرانک آلات استعمال کرے تو یہ سوچے کہ اللہ تعالی دیکھ رہا ہے اور جب ضیاع اوقات کا خدشہ ہو تو فورا اپنی سوچ اس بات کی طرف لے جائے کہ ہمارے دنیا میں آنے کا مقصد کیا ہے؟ اللہ نے ہمیں کیوں پیدا کیا؟ ظاہر سی بات ہے کہ ضیاع اوقات ہمارا مقصد نہیں ہے، امربالمعروف اور نہی عن المنکر کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے اندر احساس ذمہ داری پیدا کریں اور خود احتسابی کا جذبہ پیدا کریں کہ 24گھنٹے میں میرا کتنا وقت یوں ہی ضائع ہو رہا ہے اور زیادہ اوقات لوگوں کے سامنے گزاریں، تنہائی میں زیادہ نہ رہیں، دینی تعلیم حاصل کرنے اور اپنے بچوں کی اسلامی تربیت کرنے کے لیے کوشاں ہوں اور اسوہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو سامنے رکھیں۔
ان تمام اقدامات سے ان شاء اللہ معاشرہ تباہی سے بچ سکتا ہے اور سوشل میڈیا، انٹرنیٹ و غیرہ کے مضر اثرات کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے ہیں ورنہ دنیا و آخرت دونوں جہاں میں ناکامی اور رسوائی کا باعث بن سکتا ہے جس کا خمیازہ آخرت میں بھگتنا پڑے گا پھر سوائے حسرت و ندامت کے کچھ فائدہ حاصل نہیں ہوگا۔


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں