علامتِ ایمان

علامتِ ایمان

اللہ نے نبیوں، رسولوں اور پیغمبروں کو دنیا میں اس لیے بھیجا کہ وہ انسانوں کو ہدایت کا راستہ دکھائیں اور ان سے کہیں کہ تمہاری پیدائش کا مقصد رب کائنات کی اطاعت و فرماں برداری ہے، تم پیدا ہی اس لیے کئے گئے ہو کہ اپنے خالق کو پہچانو اور اس کی بارگاہ عظیم میں اپنی بندگی کا اظہار کرو یہ بندگی عبادت کے ذریعہ بھی ہے اور زندگی کے مختلف شعبوں میں احکام الہی پر عمل کرنے میں بھی، عبادات کا گوشہ اگر مضبوط ہے اچھی بات ہی ہونا چاہیے اور آدمی کو اپنی غلامی کا ہر وقت احساس رہنا چاہیے لیکن اگر دوسرے شعبوں میں سستی اور ڈھیل ہے تو یہ کوئی اچھی بات نہیں ہے اس کی جوابدہی کے لیے آپ کو تیار رہنا ہے ایسا نہیں ہوسکتا کہ آپ دوسروں کا حق تلف کریں اور آپ سے پوچھا نہ جائے، یہ بھی نہیں ہوگا کہ آپ دوسروں کی عزت پامال کریں اور کوئی پرسش نہ ہو، ظلم کریں اور آپ کا مواخذہ نہ ہو، بددیانتی کریں اور آپ کا احتساب نہ ہو یہ تو وہ بنیادیں ہیں جن کو نظر انداز کرکے زندگی کی تعمیر کا تصور ہی نہیں کیا جاسکتا زندگی تو حقیقی معنی میں وہی ہے جس میں اللہ کی خوشنودی کا جذبہ ہو اور بندگی کے مختلف رنگ بکھرے ہوئے ہوں، عطائے ایمان اللہ تعالی کا اپنے بندوں پر عظیم احسان ہے ایمان کی دولت جسے ملی اس کی دنیا بھی سنور گئی اس کی آخرت بھی بن گئی، ایمان نہیں ہے تو نہ دنیا ہے اور نہ آخرت ہے، جو لوگ سمجھتے ہیں کہ ایمان سے محروم ہزاروں لاکھوں افراد اس دنیا میں عیش اور تعیش کی زندگی گزار رہے ہیں انھیں تمام سہولتیں اور آسائشیں حاصل ہیں کامیابیاں ان کے جلو میں ہیں وہ اس دنیا میں جو چاہتے ہیں انھیں ملتا ہے مگر وہ لوگ یہ سمجھتے وقت اس پر غور نہیں کرتے یہ زندگی کتنے دن کی ہے اور ان فانی آسائشوں کی حقیقت کیا ہے یہ عیش و آرام کتنے دن کا ہے چند روز کی زندگی ہے چند روز کے لیے ہی یہ سامان ہیں۔ زندگی ختم ہوئی یہ ٹھاٹھ باٹھ بھی ختم ہوئے۔ اصل زندگی وہ ہے جسے آخرت کی زندگی کہا جاتا ہے جس کا اختتام نہیں ہے شروع ہوگی تو ختم کا سلسلہ نہیں، ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ہے اسی لیے جنت والے ہمیشہ کے لیے جنت میں جائیں گے اور جہنم والے ہمیشہ جہنم میں رہیں گے۔ ایک بندہ مومن جسے ایمان کی دولت حاصل ہے اگر اس دنیا میں تنگ بھی ہے اور اسے کچھ دقتوں کا سامنا بھی ہے چھوڑ دیجئے دقتوں کی بات تو معمولی سی ہے اگر اس کی پوری زندگی نکبت و افلاس کا عنوان بن جائے تنگیوں اور سختیوں میں وقت گزرے تو کتنے دن۔ گزر ہی جائے گی اور پھر وہی زندگی شروع ہوگی جو بندہ مومن کے لیے آرام و راحت کی زندگی ہوگی۔
دنیا میں لاتعداد اور بے شمار اشیاء ہیں جو انسان کے استعمال میں ہیں۔ بہت سی کھانے پینے کی چیزیں ہیں کچھ اوڑھنے اور پہننے کی ہیں، کچھ دیگر مواقع پر کام میں لانے کی ہیں، ان میں سے ہر چیز کو ہم رنگ سے، دیگر علامتوں سے، خوشبو سے پہچان لیتے ہیں کہ کون سی چیز کیسی ہے اور اس کا رنگ کیا ہے، کس کی خوشبو کیسی ہے یہ علامتیں ہیں جن سے اچھے برے ہونے کی تمیز بھی کی جاتی ہے آدمی جان جاتا ہے کہ پھل خراب ہے یا اچھا ہے، چیز مضبوط ہے یا کمزور ہے، خوشبو ہے بھی یا نہیں، یہ تمام علامتیں اشیاء کی قدر و قیمت بتاتیں اور استعمال کے لیے آدمی کو آمادہ کرتی ہیں۔ ایمان کی سلامتی کی بھی علامت ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایمان کی سلامتی کی علامت بیان فرمائی ہے ایک موقع پر ارشاد ہے:
”عَن اَبی اَمَامَةَ اَنَّ رَجُلاً سَألَ رسُولَ اللہِ صلی اللہ علیه وسلم مَالاِیمانُ قَالَ اِذا سَرَّتکَ حَسَنتُکَ وَسَاءَ تَکَ سَیئِتُکَ فَاَنتَ مُؤمِن الخ۔“ (رواہ احمد فی مسندہ)
ترجمہ: حضرت ابو امامہ راوی ہیں کہ ایک آدمی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا (یا رسول اللہﷺ) ایمان کی سلامتی کی علامت کیا ہے؟ آپﷺ نے فرمایا: جب تمہاری نیکی تمھیں بھلی لگے اور تمہاری برائی تمھیں بری لگے تو (سمجھو کہ) تم (پکے) مومن ہو، پھر اس آدمی نے پوچھا، یا رسول اللہ! گناہ (کی علامت) کیا ہے؟ آں حضورﷺ نے فرمایا: جب کوئی بات تمہارے دل میں کھٹک اور تردد پیدا کرے (تو سمجھو کہ وہ گناہ ہے) لہذا اس کو چھوڑ دو“۔
زبانِ رسال مآب صلی اللہ علیہ وسلم سے ایمان کی سلامتی کی علامت کتنے سہل اور واضح انداز میں سامنے آتی ہے بلاشبہ آدمی کا دل نیکی کر کے خوشی محسوس کرتا ہے برائی کرتا ہے تو طبیعت میں تکدر پیدا ہوتا ہے، اچھائی سے روح کو فرحت حاصل ہوتی ہے اور گناہ سے تنگی کا احساس ہوتا ہے ایک نظیف اور پاکیزہ ذہن و فکر کا مالک نیکی کی وجہ سے مطمئن رہتا ہے اور اگر برائی سرزد ہوجائے بے اطمینانی کی کیفیت سے دوچار ہوتا ہے، دوسرے اس آدمی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے گناہ کی علامت معلوم کی تو آپ نے فرمایا کہ جب دل میں تردد اور کھٹک ہو تو سمجھو وہ گناہ ہے تو اس کو چھوڑ دو ایمان کی سلامتی کی علامت بھی بیان فرمائی اور گناہ کی علامت بھی رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے سامنے آئی۔
ایسا بہت بار ہوتا ہے جو بندے اللہ کی ذات پر بھروسہ رکھتے ہیں اور ان کا کامل یقین ہے کہ اللہ سب کچھ دیکھ رہا ہے ان کے دل میں خوف خدا بھی ہے اور آخرت کے محاسبہ کا خوف بھی۔ خدائی رحمتوں پر جنھیں اعتماد ہے اور افضالِ الہی پر جن کا یقین ہے۔ وہ اچھا کام کرتے ہیں، تو مسرور ہوتے ہیں، برے کام کرتے ہیں تو طبیعت میں ایک طرح سے انقباض محسوس ہوتا ہے وہ دل دل نہیں ہے جو برائی پر برائی کرتا رہے اور احساس کا کوئی حصہ اسے نہ ملے۔ برائی کا ایک معاملہ یہ بھی ہے کہ جب آدمی برائی پر برائی کرتا ہے تو اس کا دل سخت ہوجاتا ہے برائی کا احساس مٹ جاتا ہے، احساس گناہ جاتا رہتا ہے، اس کے ذہن میں یہ بات نہیں آتی کہ اللہ کے یہاں کیا جواب دے گا شقاوت قلبی اسے اچھے کاموں کی جانب آنے ہی نہیں دیتی، دوسرے الفاظ میں کہئے کہ احساس مردہ ہوجاتا ہے اس کے برخلاف بھلے کام کرنے والا اللہ کی رحمتوں کا امیدوار ہوتا ہے اور اسے جو کچھ بھی ملتا ہے اسے اللہ کی عطا سمجھتا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ ایمان والے اس دنیا میں تھوڑی دشواریوں اور تنگیوں میں وقت گزاریں لیکن ان کا انجام بہت اچھا اور قابل رشک ہے۔ وہ اپنے معبود کے حضور حاضر ہوں گے تو لطف و عنایات سے ان کا دامن بھر دیا جائے گا خدائی رحمتوں اور عنایات سے انھیں سرفراز کیا جائے گا اور دنیا میں انھوں نے جتنی کلفتیں برداشت کیں اور ایمان پر قائم رہنے کے لیے جتنی تکلیفوں، سختیوں اور پریشانیوں کا سامنا کیا ان سب کا بدلہ اسے آخرت میں ملے گا۔ ایمان کی یہ علامت جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیث بالا میں بیان فرمائی ہے وہ اگر دلوں کے اندر پیدا ہوجائے تو انسان بہت سے مہلکات سے بچ سکتا ہے اور بہت سی نعمتیں ہیں جن کا وہ اپنے آپ کو مستحق بنا سکتا ہے۔


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں