ماہ محرم میں شادی سے متعلق نحوست کا بے بنیاد نظریہ

ماہ محرم میں شادی سے متعلق نحوست کا بے بنیاد نظریہ

ہمارے معاشرے میں ماہ محرم، صفر، شوال اور ذوالقعدہ میں نکاح کرنے کو معیوب اور غلط سمجھا جاتا ہے بلکہ ان مہینوں میں نکاح کرنے کو نحوست کا باعث قرار دیا جاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ نکاح کی تاریخ طے کرنے سے پہلے باقاعدہ ان مہینوں پر نظر رکھی جاتی ہے کہ اگر کہیں ان مہینوں میں نکاح کی تاریخ آرہی ہو تو بدفالی اور بدشگونی لیتے ہوئے اسے تبدیل کیا جاتا ہے تا کہ ”نحوست“ سے حفاظت ہوسکے اور شادی کامیاب رہے۔
مہینوں کو ”منحوس“ قرار دینے کے معاملے میں علاقوں اور قوموں کے نظریات بھی مختلف ہیں کہ مختلف قومیں مختلف مہینوں کو منحوس قرار دیتی ہیں۔ خصوصا بہت سے علاقوں میں یہ افسوس ناک صورتحال ماہ محرم سے متعلق بکثرت دیکھنے کو ملتی ہے کہ ماہ محرم کی ”نحوست“ سے بچنے کے لیے ماہ ذوالحجہ ہی میں شادی بیاہ منعقد کرانے پر بہت زور دیا جاتا ہے حتی کہ ذوالحجہ کے آخر میں شادیوں کی بہتات کا یہ عالم ہوتا ہے کہ علاقے بھر میں جگہ جگہ شادی بیاہ کی تقریبات دکھائی دیتی ہیں، اور عموما اس کی وجہ بھی صرف یہی ہوتی ہے کہ کہیں ماہ محرم نہ آجائے اور اس کی ”نحوست“ ہماری شادی خانہ آبادی کو متاثر نہ کردے۔
ایسے بے بنیاد نظریات و توہمات میں عموما خواتین زیادہ مبتلا ہوتی ہیں، اس لیے اس معاملے میں بھی مردوں کے مقابلے میں خواتین زیادہ دخل اندازی اور اصرار کرتی ہیں اور بھرپور کوشش کرتی ہیں کہ نکاح کی تاریخ ان ”نحوست“ والے مہینوں میں نہ آنے پائے۔ واضح رہے کہ ایسے معاملات میں خواتین کو مکمل اختیاردے دیناً عموما دنیوی اور اخروی خسارے کا باعث بن جاتا ہے۔ اس لیے ایسے امور میں خواتین کو حکمت و بصیرت سے سمجھانا چاہیے، لیکن اگر وہ سمجھانے کے باوجود بھی وہ غیرشرعی باتوں پر اصرار کریں تو ان کی بات ہرگز تسلیم نہ کی جائے بلکہ شادی دینی تعلیمات کے مطابق ہی سرانجام دی جائے۔ افسوس کہ آج کا مسلمان دین اسلام کی تعلیمات سے کس قدر بے خبر ہے اور کس قدر بے بنیاد نظریات و توہمات کا شکار ہے!!

ماہ محرم میں شادی نہ کرنے سے متعلق عوام میں رائج متعدد نظریات
ماہ محرم میں شادی بیاہ اور خوشی کی تقریبات منعقد نہ کرنے سے متعلق عوام میں متعدد بے بنیاد اور غیرشرعی نظریات پائے جاتے ہیں:
ایک نظریہ یہ ہے کہ چوں کہ اس ماہ میں حضرت حسین اور ان کے جانثار احباب رضی اللہ عنہم کی شہادت ہوئی ہے اس لیے یہ غم کا مہینہ ہے، اور غم کا تقاضا یہ ہے کہ خوشی نہ منائی جائے، اس لیے اس ماہ محرم میں شادی بیاہ کی تقریبات منعقد نہیں کرنی چاہیے۔
دوسرا نظریہ یہ ہے کہ چوں کہ اس ماہ میں حضرت حسین اور ان کے جانثار رفقائے کرام رضی اللہ عنہم کی شہادت ہوئی ہے اس لیے اس میں نحوست آگئی ہے، اور نحوست سے بچنے کا تقاضا یہ ہے کہ اس ماہ میں شادی بیاہ جیسی خوشی کی تقریبات منعقد ہی نہ کی جائے۔
تیسرا نظریہ یہ ہے کہ بعض لوگ کسی پس منظر کی رعایت کیے بغیر ویسے ہی لاعلمی میں اوروں کی دیکھا دیکھی اس ماہ میں شادی جیسی خوشیاں منعقد کرنے سے اجتناب کرتے ہیں۔
چوتھا نظریہ یہ ہے کہ ویسے بھی اس ماہ محرم میں شادی بیاہ کوئی فرض و واجب اور ضروری تو نہیں اس لیے اس ماہ محرم میں شادی سے اجتناب کرلیا جائے تو کوئی حرج تو نہیں تا کہ اس طرح عوام میں ماہ محرم سے متعلق رائج خیالات کی رعایت بھی ہوسکے اور ممکنہ ”نحوست“ سے بھی حفاظت ہوسکے۔
ان چار نظریات سمیت اس طرح کے تمام نظریات شریعت کی نظر میں واضح طور پر بے بنیاد اور غلط بلکہ دین کے خلاف ہیں، اس لیے ہر مسلمان کو چاہیے کہ اس معاملے سے متعلق شریعت کی تعلیمات کو سمجھے تا کہ معاشرے میں رائج یہ غلط فہمیاں دور ہوسکیں۔
ذیل میں ان تمام غیرشرعی نظریات کا تفصیلی جواب ذکر کیا جاتا ہے تا کہ مسلمان ماہ محرم سے متعلق ان بے بنیاد نظریات و توہمات سے محفوظ ہو کر دین کی صحیح تعلیمات سے آگاہ ہوسکے۔ اللہ تعالی حق سمجھانے، سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

ماہ محرم میں شادی کرنے کا حکم
از مبین الرحمن، فاضل جامعہ دارالعلوم کراچی


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں