احکام قربانی

احکام قربانی

قربانی ایک اہم عبادت اور شعائر میں سے ہے، زمانہ جاہلیت میں بھی اس کو عبادت سمجھا جاتا تھا مگر لوگ بتوں کے نام پر قربانی کرتے تھے، اسی طرح آج تک بھی دوسرے مذاہب میں قربانی مذہبی رسم کے طور پر ادا کی جاتی ہے، بتوں کے نام پر یا مسیح کے نام پر قربانی کرتے ہیں، سورہ انا اعطینک میں اللہ تعالی نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا ہے کہ جس طرح نماز اللہ تعالی کے سوا کسی کی نہیں ہوسکتی قربانی بھی اس کے نام پر ہونی چاہئے، فصل لربک و انحر کا یہی مفہوم ہے، دوسری ایک آیت میں اسی مفہوم کو دوسرے عنوان سے اس طرح بیان فرمایا ہے۔ ان صلاتی و نسکی و محیای و مماتی للہ رب العالمین۔ (تفسیر ابن کثیر)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بعد ہجرت دس سال مدینہ طیبہ میں قیام فرمایا ہر سال برابر قربانی کرتے تھے اور مسلمانوں کو اس کی تاکید فرماتے تھے۔ (ترمذی)
جس سے معلوم ہوا کہ قربانی صرف مکہ معظمہ کے لیے مخصوص نہیں ہر شخص پر ہر شہر میں بعد تحقیق شرائط واجب ہے اسی لیے جمہور اسلام کے نزدیک قربانی واجب ہے۔ (شامی)

قربانی کس پر واجب ہوتی ہے؟
قربانی ہر مسلمان عاقل، بالغ، مقیم پر واجب ہوتی ہے جس کی ملکیت میں ساڑھے باون تولہ چاندی یا اس کی قیمت کا مال اس کی حاجات اصلیہ سے زائد موجود ہو یہ مال خواہ سونا چاندی یا اس کے زیورات ہوں یا مال تجارت یا ضرورت سے زائد گھریلو سامان یا مسکونہ مکان سے زائد کوئی مکان و غیرہ ہو۔ (شامی)
قربانی کے معاملے میں اس مال پر سال بھر گزرنا بھی شرط نہیں، بچہ اور مجنون کی ملک میں اگر اتنا مال ہو تو بھی اس پریا اس کی طرف سے اس کے ولی پر قربانی واجب نہیں، اسی طرح جو شخص شرعی قاعدے کے موافق مسافر ہو اس پر بھی قربانی لازم نہیں۔ (شامی)
مسئلہ: جس شخص پر قربانی واجب نہ تھی اگر اس نے قربانی کی نیت سے کوئی جانور خرید لیا تو اس کی قربانی واجب ہوگئی۔ (شامی)

قربانی کے دن
قربانی کی عبادت صرف تین دن کے ساتھ مخصوص ہے دوسرے دنوں میں قربانی کی کوئی عبادت نہیں، قربانی کے دن ذی الحجہ کی دسویں، گیارہویں اور بارہویں تاریخیں ہیں اس میں جب چاہے قربانی کرسکتا ہے البتہ پہلے دن کرنا افضل ہے۔

قربانی کے بدلے صدقہ خیرات
اگر قربانی کے دن گزر گئے، ناواقفیت یا غفلت یا کسی عذر سے قربانی نہیں کرسکا تو قربانی کی قیمت فقراء و مساکین پر صدقہ کرنا واجب ہے لیکن قربانی کے تین دنوں میں جانوروں کی قیمت صدقہ کرنے سے یہ واجب ادا نہ ہوگا ہمیشہ گنہگار رہے گا، کیونکہ قربانی ایک مستقل عبادت ہے جیسے نماز پڑھنے سے روزہ اور روزہ رکھنے سے نماز ادا نہیں ہوتی، زکوۃ ادا کرنے سے حج ادا نہیں ہوتا ایسے ہی صدقہ خیرات کرنے سے قربانی ادا نہیں ہوتی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات اور تعامل اور پھر تعامل صحابہ رضی اللہ عنہم اس پر شاہد ہیں۔

قربانی کا وقت
جن بستیوں یا شہروں میں نماز جمعہ اور عیدین جائز ہے وہاں نماز عید سے پہلے قربانی جائز نہیں، اگر کسی نے قربانی کردی تو اس پر دوبارہ قربانی لازم ہے البتہ چھوٹے گاؤں جہاں جہاں جمعہ و عیدین کی نماز نہیں ہوتیں یہ لوگ دسویں تاریخ کی صبح صادق کے بعد قربانی کرسکتے ہیں ایسے ہی اگر کسی عذر کی وجہ سے نماز عید پہلے دن نہ ہوسکے تو نماز عید کا وقت گزر جانے کے بعد قربانی درست ہے۔ (درمختار)
مسئلہ: قربانی رات کو بھی جائز ہے مگر بہتر نہیں۔ (شامی)

قربانی کے جانور
بکرا، دنبہ، بھیڑ ایک ہی شخص کی طرف سے قربان کیا جاسکتا ہے، گائے، بیل، بھینس، اونٹ سات آدمیوں کی طرف سے ایک کافی ہے بشرطیکہ سب کی نیت ثواب کی ہو کسی کی نیت محض گوشت کھانے کی نہ ہو۔
مسئلہ: بکرا بکری، ایک سال کا پورا ہونا ضروری ہے، بھیڑ اور دنبہ اگر اتنا فربہ اور تیار ہو کہ دیکھنے میں سال بھر کا معلوم ہو تو وہ بھی جائز ہے، گائے بیل بھینس دوسال کی، اونٹ پانچ سال کا ہونا ضروری ہے ان عمروں سے کم کے جانور قربانی کے لیے کافی نہیں۔
مسئلہ: اگر جانور کا سینگ پیدائشی طور پر نہ ہو یا بیچ سے ٹوٹ گیا ہو تو اس کی قربانی درست ہے، ہاں سینگ جڑ سے اکھڑ گیا ہو جس کا اثر دماغ پر ہونا لازم ہے تو اس کی قربانی درست نہیں۔ (شامی)
مسئلہ: خصی (بدھیا) بکرے کی قربانی جائز بلکہ افضل ہے۔ (شامی)
مسئلہ: اندھے کانے، لنگڑے جانور کی قربانی درست نہیں، اسی طرح ایسا مریض اور لاغر جانور جو قربانی کی جگہ تک اپنے پیروں پر نہ جاسکے اس کی قربانی بھی جائز نہیں۔ (شامی)
مسئلہ: جس جانور کے دانت بالکل نہ ہوں یا اکثر نہ ہوں اس کی قربانی جائز نہیں (شامی و درمختار) اسی طرح جس جانورکے کان پیدائشی طور پر بالکل نہ ہوں اس کی قربانی درست نہیں۔
مسئلہ: اگر جانور صحیح سالم خریدا تھا پھر اس میں کوئی عیب مانع قربانی پیدا ہوگیا تو اگر خریدنے والا غنی صاحب نصاب نہیں ہے تو اس کے لیے اسی عیب دار جانور کی قربانی جائز ہے اور اگر یہ شخص غنی صاحب نصاب ہے تو اس پر لازم ہے کہ اس جانور کے بدلے دوسرے جانور کی قربانی کرے۔ (درمختار و غیرہ)

قربانی کا مسنون طریقہ
اپنی قربانی کو خود اپنے ہاتھ سے ذبح کرنا افضل ہے اگر خود ذبح کرنا نہیں جانتا تو دوسرے سے ذبح کراسکتا ہے مگر ذبح کے وقت وہاں خود بھی حاضر رہنا افضل ہے۔
مسئلہ: قربانی کی نیت صرف دل سے کرنا کافی ہے زبان سے کہنا ضروری نہیں البتہ ذبح کرنے کے وقت بسم اللہ اللہ اکبر کہنا ضروری ہے سنت ہے کہ جب جانور ذبح کرنے کے لیے رو بقبلہ لٹائے تو یہ دعا پڑے۔
”انی وجھت وجھی للذی فطر السموات و الارض حنیفا و ما انا من المشرکین ان صلاتی و نسکی و محیای و مماتی للہ رب العالمین۔“
اور ذبح کرنے کے بعد یہ دعا پڑھے:
”اللھم تقبلہ منی کما تقبلت من حبیبک محمد و خلیلک ابراھیم علیھما السلام“
(۱) اگر کسی اور کی جانب سے قربانی کررہا ہو تو ”مِنِّی“ کے بجائے ”مِن“ کہے اور اس کے بعد اس کا نام لے یا سب کی طرف سے نیت کرکے ”منا“ کہہ لے۔

آداب قربانی
قربانی کے جانور کو چند روز پہلے سے پالنا افضل ہے۔
مسئلہ: قربانی کے جانور کا دودھ نکالنا یا اس کے بال کاٹنا جائز نہیں، اگر کسی نے ایسا کرلیا تو دودھ اور بال یا ان کی قیمت کا صدقہ کرنا واجب ہے۔ (بدائع)
مسئلہ: قربانی سے پہلے چھری کو خوب تیز کرلے اور ایک جانور کو دوسرے جانور کے سامنے ذبح نہ کرے اور ذبح کے بعد کھال اتارنے اور گوشت کے ٹکڑے کرنے میں جلدی نہ کرے جب تک پوری طرح جانور ٹھنڈا نہ ہوجائے۔ (بدائع)

متفرق مسائل
عید کی نماز سے پہلے قربانی کرنا جائز نہیں لیکن جس شہر میں کئی جگہ نماز عید ہوتی ہو تو شہر میں کسی ایک جگہ بھی عید ہوگئی تو پورے شہر میں قربانی جائز ہوجاتی ہے۔ (ذرائع)
مسئلہ: قربانی کے جانور کے اگر ذبح سے پہلے بچہ پیدا ہوگیا یا ذبح کے وقت اس کے پیٹ سے زندہ بچہ نکل آیا تو اس کو بھی ذبح کردینا چاہیے۔ (بدائع)
مسئلہ: جس شخص پر قربانی واجب تھی اگر اس نے قربانی کا جانور خرید لیا پھر وہ گم ہوگیا یا چوری ہوگیا یا مرگیا تو واجب ہے کہ اس کی جگہ دوسری قربانی کرے اگر دوسرے قربانی کرنے کے بعد پہلا جانور مل جائے تو بہتر ہے کہ اس کی بھی قربانی کردے لیکن اس کی قربانی اس پر واجب نہیں اگر یہ غریب ہے جس پر پہلے سے قربانی واجب نہ تھی نفلی طور پر اس نے قربانی کے لیے جانور خرید لیا پھر وہ مرگیا یا گم ہوگیا تو اس کے ذمہ دوسری قربانی واجب نہیں، ہاں اگر گمشدہ جانور قربانی کے دنوں میں مل جائے تو اس کی قربانی کرنا واجب ہے اور اگر ایام قربانی کے بعد ملے تو اس جانور یا اس کی قیمت کا صدقہ کرنا واجب ہے۔ (بدائع)

قربانی کا گوشت
(۱) جس جانور میں کئی حصہ دار ہوں تو گوشت وزن کرکے تقسیم کیا جائے اندازہ سے تقسیم نہ کریں۔
(۲) افضل ہے کہ قربانی کا گوشت تین حصے کرکے ایک حصہ اپنے اہل و عیال کے لیے رکھے، ایک حصہ احباب و اعزہ میں تقسیم کرے، ایک حصہ فقراء و مساکین میں تقسیم کرے اور جس شخص کا عیال زیادہ ہو وہ تمام گوشت خود بھی رکھ سکتا ہے۔
(۳) قربانی کا گوشت فروخت کرنا حرام ہے۔
(۴) ذبح کرنے والے کی اجرت میں گوشت یا کھال دینا جائز نہیں۔ اجرت علیحدہ دینی چاہئے۔

قربانی کی کھال
(۱) قربانی کی کھال کو اپنے استعمال میں لانا مثلاً مصلی بنالیا جائے یا چمڑے کی کوئی چیز ڈول و غیرہ بنالیا جائے یہ جائز ہے لیکن اگر اس کو فروخت کیا تو اس کی قیمت اپنے خرچ میں لانا جائز نہیں بلکہ صدقہ کرنا اس کا واجب ہے اور قربانی کی کھال کو فروخت کرنا بدون صدقہ کے بھی جائز نہیں۔ (عالمگیری)
(۲) قربانی کی کھال کسی خدمت کے معاوضے میں دینا جائز نہیں اسی لیے مسجد کے مؤذن یا امام و غیرہ کے حق الخدمت کے طور پر ان کو کھال دینا درست نہیں۔
(۳) مدارس اسلامیہ کے غریب اور نادار طلباء ان کھالوں کا بہترین مصرف ہیں کہ اس میں صدقہ کا ثواب بھی ہے اور احیائے علم دین کی خدمت بھی مگر مدرسین و ملازمین کی تنخواہ اس سے دینا جائز نہیں۔ وللہ الموفق و المعین


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں