ارشاداتِ حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی نوراللہ مرقدہ

ارشاداتِ حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی نوراللہ مرقدہ

عارفین کا اعلیٰ مذاق: ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ عارفین کا مذاق ہی جدا ہوتا ہے۔
دوسروں کی نظر وہاں تک کام نہیں کرتی، حضرت علی رضی اللہ عنہ سے کسی نے پوچھا کہ آپ کو نابالغی کی حالت میں مرجانا پسند ہے جس میں کوئی حساب کتاب نہیں، گناہوں سے پاک صاف جنت نصیب ہو یا حالتِ بلوغ کو پہنچنا کہ اس کے بعد بڑے خطرات اور مواخذات میں پڑ جاویں۔ فرمایا ’’یہ ہی حالت پسند ہے کہ بلوغ کے بعد خطروں میں پڑیں۔ اس لئے کہ عدم بلوغ میں حق تعالیٰ کی معرفت نہ تھی جو عین مطلوب ہے۔‘‘ کیا ٹھکانا ہے ان عارفین کی وسعتِ نظر کا؟ اور تعلق مع اللہ کا؟۔ بات یہ ہے کہ ایسے ہی لوگوں سے وعدہ ہے حق تعالیٰ کا کیونکہ استقامت اور پوری اطاعت ’’معرفت‘‘ ہی سے ہوسکتی ہے، پس فرماتے ہیں ’’ان الذین قالوا ربنا اللہ۔۔۔ما تدعون‘‘ (حم السجدۃ: ۳۱) ترجمہ: جن لوگوں نے دل سے اقرار کرلیا کہ ہمارا رب اللہ تعالی ہے پھر اس پر مستقیم رہے۔ ان پر فرشتے اتریں گے کہ تم نہ اندیشہ کرو اور نہ رنج کرو اور تم جنت کے ملنے پر خوش رہو جس کا تم سے پیغمبروں کی معرفت وعدہ کیا جایا کرتا تھا اور ہم تمہارے رفیق تھے دنیاوی زندگی میں بھی اور آخرت میں بھی رہیں گے اور تمہارے لئے اس جنت میں جس چیز کو تمہارا جی چاہے گا موجود ہے اور نیز تمہارے لئے اس میں جو مانگو گے موجود ہے۔
اور فرماتے ہیں: و من یطع اللہ و الرسول۔۔۔ و حسن اولئک رفیقا (النساء: ۶۹) ترجمہ اور جو شخص اللہ تعالی اور رسول اللہ کا کہنا مان لے گا تو ایسے اشخاص بھی ان حضرات کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ تعالی نے انعام فرمایا ہے یعنی انبیاء اور صدیقین اور شہداء اور صلحاء اور یہ حضرات بہت اچھے رفیق ہیں۔ اور اس دوسری آیت کا شانِ نزول ذکر فرمایا کہ حضرت ابورافع رضی اللہ عنہ ایک صحابی ہیں۔ ان کو ایک بار یہ غم ہوا کہ یہاں تو جب چاہتے ہیں حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے دیدار سے مشرف ہوجاتے ہیں مگر جنت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم بڑے درجے میں ہوں گے اور ہم چھوٹے درجہ میں جہاں ہماری رسائی بھی نہ ہوگی تو وہاں کس طرح دیدار میسر ہوگا؟ اور اس خیال سے ان کو بے حد قلق ہوا۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ جب انہوں نے یہ سنا تو بے حد خوش ہوئے کہ الحمدللہ جنت میں بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کیا کریں گے۔ اسی طرح دوسرے دوستوں سے جن کا ذکر صدیقین و شہداء و صالحین میں ہے ملا کریں گے۔
ایک مولوی صاحب نے عرض کیا کہ حضرت اس صورت میں تو کم درجے والے بڑے درجوں میں پہنچ جائیں گے۔ فرمایا کہ (ہاں) پہنچ جائیں گے تو حرج اور حرج اور نقص اور نقص کیا واقع ہوا۔ یہاں پر بھی تو ایسا ہوتا ہے کہ کم درجہ والے بڑے درجوں والوں کے پاس ملنے کے لئے پہنچ جاتے ہیں۔ یہاں پر معیت کے وہ معنی نہیں جو آپ سمجھے کہ اس درجہ پر مستقلا پہنچ جائیں گے۔ اب فرمایئے کیا شبہ ہے؟ عرج کیا گیا کہ کوئی شبہ نہیں رہا۔ عرض کیا کہ کیا جنت میں پہنچ کر حسرت ہوگی اور جی چاہے گا کہ ہم بھی بڑے درجوں میں ہوتے؟ فرمایا: کہ جی نہ چاہے گا جو جس کے لئے تجویز ہوگی اس پر (جتنی) دل سے راضی رہے گا۔

دعا کے ساتھ تفویض
ایک مولوی صاحب کے سوال کے جواب میں فرمایا کہ ’’تفویض‘‘ کے یہ معنی نہیں کہ مانگے نہیں، تفویض کے معنی تو یہ ہیں کہ یہ عزم رکھے کہ اگر مانگنے پر بھی نہ ملا اس پر بھی راضی رہوں گا۔ تفویض کی حقیقت اگر نہ مانگنا ہوتا تو مانگنے کا امر نہ فرمایا جاتا۔ یہ کوئی باریک مسئلہ نہیں ہے۔ مانگنے کے لیے نص موجود ہے۔ البتہ عین دعاء کے وقت بھی اس کا استحضار رہے کہ اگر مانگنے پر بھی نہ ملا تو بس اس پر دل سے راضی رہوں گا۔ یہ وہ مسئلہ ہے کہ بڑے بڑے فضلاء کو شبہ ہوا کہ دعا اور تفویض کیسے جمع ہوں گے مگر میں یہ کہتا ہوں کہ خوب مانگے اور خوب الحاح وزاری کرے۔ مانگنا ہرگز تفویض کے منافی نہیں۔ مانگنے کو کون منع کرتا ہے۔ اپنے بزرگوں کا بھی یہی معمول رہا ہے کہ جو میں اس وقت بیان کررہا ہوں اور ایک کام کی بات بیان کرتا ہوں جو یاد رکھنے کے قابل ہے وہ یہ کہ اس میں عبدیت زیادہ ہے کہ سمجھ کر مانگے یہ چیز ضرور ہم کو (ان شاء اللہ) ملے گی اور وہ ضرور ہی دیں گے۔ یہ بھی شان عبدیت کے لئے ایک لازمی چیز ہے۔ اور مانگنے کے آداب میں سے ہے۔ آگے ان کو اختیار ہے کہ اگر بندہ کے لئے وہ مصلحت اور حکمت دیکھیں گے عطاء فرمائیں گے۔ ایک اور بات بیان کرتا ہوں مانگنے کے متعلق جب حق تعالی نے حکم فرمایا ہے تو خود اس کو بھی مقصود سمجھو۔ تو مقصود دو ہوئے۔ ایک: وہ چیز مانگ رہے ہو؛ دوسرے: خود مانگنا بھی بلکہ نہ مانگنے پر اندیشہ ہے۔ اس لئے کہ حکم مانگنے کا تھا اس میں استغنی سے کام لیا۔ بعض لوگ خود دعاء کو مقصود سمجھتے ہیں اور حاجت کو مقصود نہیں سمجھتے۔ یہ غلطی ہے۔ خود حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم بعد طعام کے دعا میں یہ اضافہ فرمایا کرتے تھے ’’غیر مودع و لا مستغنی عنہ ربنا‘‘ یعنی ہم اس کھانے (پینے) کو رخصت نہیں کرتے۔ اس سے مستغنی نہیں، اور صدہا احادیث ہیں جن میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے حاجتیں مانگنا ثابت ہے تو ایسی چیز تفویض کے خلاف کیسے ہوسکتی ہے؟
مانگنے کو تفویض کے خلاف سمجھنا سخت غلطی ہے گو اجتہادی ہے جس کا سبب غلبہ حال ہے۔


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں