شہید ِ صحافت

شہید ِ صحافت

یہ ایک ایسے صحافی کی کہانی ہے جسے گولی مار کر ختم کر دیا گیا لیکن اُس کی کہانی آج تک تمام نہیں ہو سکی۔ اس صحافی کو ماڈرن میڈیا اور ماس کمیونی کیشن کے کئی ماہرین اور اُستاد محض ایک قصہِ ماضی سمجھتے ہیں اور اُس کے اندازِ صحافت کو آئوٹ آف فیشن سمجھتے ہیں۔ کوئی مانے یا نہ مانے لیکن ماڈرن میڈیا کے بہت بڑے بڑے نام چند سال کے بعد کسی کو یاد بھی نہ رہیں گے لیکن اس آئوٹ آف فیشن صحافی کا نام آنے والے دور میں بھی زندہ رہے گا کیونکہ یہ صحافی بار بار جنم لیتا رہے گا اور نئے نئے ناموں سے اپنا پرانا کردار دہراتا رہے گا۔ اسے ہر دور میں باغی، سرکش اور وطن دشمن قرار دے کر سچ بولنے سے باز رکھنے کی کوشش کی جائے گی لیکن یہ باز نہیں آئے گا۔ اسے پہلے بھی اپنے انجام کا پتا تھا اُسے آئندہ بھی اپنے انجام کا پتا ہے۔ اُسے ہمیشہ سے پتا ہے کہ اُسے گولی مار دی جائے گی لیکن وہ اپنی موت میں قوم کی حیات دیکھتا ہے اور بار بار گولی کھانے کے لئے تیار رہے گا۔
غور طلب بات یہ ہے کہ اگر ارباب طاقت اس سرکش صحافی کو غدار اور وطن دشمن سمجھتے تھے تو اس پر کسی عدالت میں مقدمہ کیوں نہ چلایا گیا؟ گولی کیوں مار دی گئی؟ مقدمہ چلانا ایک مشکل کام ہے۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ ارباب طاقت اپنی مرضی کی عدالتیں بنا کر وہاں اپنی مرضی کے جج بٹھا دیتے ہیں لیکن ان مرضی کے ججوں کو بھی کچھ نہ کچھ ثبوت اور شہادتوں کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ وہ ارباب طاقت کی مرضی کا فیصلہ صادر کر سکیں کیونکہ یہ فیصلے تاریخ کا حصہ بن کر عدلیہ کے کردار پر ایک داغ کی طرح ثبت ہو جاتے ہیں لہٰذا مقدمہ چلانے کے بجائے سرکشوں کو گولی مارنا یا اُن کی گردن اُڑا دینا ایک آسان راستہ ہے تاکہ کسی جج کے لئے مشکل پیدا نہ ہو کیونکہ ہم نے دیکھا ہے کہ ناانصافی کرنے والے کئی ججوں کو بعد میں ڈرائونے خواب آتے ہیں اور یہ جج پوری قوم کے لئے ڈرائونا خواب بن جاتے ہیں۔ ہم جس سرکش صحافی کا ذکر کر رہے ہیں اسے کسی عدالت میں پیش نہ کیا گیا بلکہ اُن کے دفتر سے اُٹھا کر انہیں گولی مار دی گئی۔ تاریخ کا کمال دیکھئے۔ اس صحافی کو آج غدار کی حیثیت سے نہیں بلکہ برصغیر پاک و ہند کا پہلا شہید صحافت قرار دیا جاتا ہے۔ اس شہید صحافت کا نام مولوی محمد باقر جو 1857کے زمانہ غدر میں ’’دہلی اُردو اخبار‘‘ کے ایڈیٹر تھے۔ مولوی محمد باقر نے دہلی کے اس پہلے اُردو اخبار کا اجراء 1837میں کیا تھا۔ ہندوستان میں اُردو کا پہلا اخبار ’’جام جہاں نما‘‘ کے نام سے کلکتہ میں شروع ہوا۔ یہ اخبار ایسٹ انڈیا کمپنی کی گود میں پروان چڑھا لیکن مولوی محمد باقر ایسٹ انڈیا کمپنی کے ناقدین میں شمار ہوتے تھے۔ وہ یہ اخبار اپنے بیٹے مولانا محمد حسین آزاد کی مدد سے شائع کرتے جو سیاسی حالات پر شاعرانہ تبصرے کیا کرتے۔ 10مئی 1857ء کو میرٹھ کی فوجی چھائونی میں ہندو اور مسلمان سپاہیوں نے انگریزوں کے خلاف بغاوت کی تو دہلی کے تخت پر آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر براجمان تھے۔ بہادر شاہ ظفر کا اقتدار صرف اُن کے شاہی محل تک محدود تھا۔ کسی زمانے میں مولوی محمد باقر کو اپنے دوست شاعر شیخ محمد ابراہیم ذوق کی وساطت سے بہادر شاہ ظفر کے دربار تک رسائی حاصل تھی کیونکہ ذوق کا شمار بادشاہ کے اُستادوں میں ہوتا تھا۔ ذوق کی وفات کے بعد مرزا غالب شاہی دربار سے وابستہ ہو گئے۔ ذوق اور غالب کی معاصرانہ چشمک کسی سے ڈھکی چھپی نہ تھی۔ ایک دفعہ ذوق کی سواری غالب کے محلے سے گزری تو غالب نے پھبتی کسی
بنا ہے شاہ کا مصاحب پھرے ہے اِتراتا
کچھ دن بعد ذوق نے غالب کو شاہی مشاعرے میں مدعو کر لیا۔ غالب مشاعرے میں آئے تو ذوق نے بادشاہ کی موجودگی میں فرمائش کی کہ وہ آپ نے مجھ پر ایک فقرہ کسا تھا ذرا اُس کا دوسرا مصرعہ تو پڑھ دیں۔ غالب نے یہ شعر کچھ یوں سنایا؎
بنا ہے شاہ کا مصاحب پھرے ہے اِتراتا
وگرنہ شہر میں غالب کی آبرو کیا ہے
غالب نے اس شعر کی مدد سے مشاعرہ لوٹ لیا اور بادشاہ کے منظور نظر بن گئے لیکن مولوی محمد باقر اپنے اخبار میں غالب کی اکثر خبر لیتے رہتے تھے جس کی وجہ سے اُن کا اخبار اینٹی اسٹیبلشمنٹ سمجھا جاتا تھا۔ جب 1857ء کی بغاوت ہوئی تو ہر طرف افراتفری پھیل گئی۔ باغی سپاہیوں کو قیادت کی ضرورت تھی۔ انہیں کسی مرکز کی تلاش تھی تاکہ وہ اپنی بغاوت کو منظم کر کے ہندوستان سے ایسٹ انڈیا کمپنی کی حکومت کو ختم کر سکیں۔ باغی سپاہیوں نے دہلی میں جمع ہونا شروع کر دیا اور بہادر شاہ ظفر پر زور دیا کہ ظِل سُبحانی صرف مشاعروں کی صدارت نہ کیا کریں بلکہ باغیوں کی قیادت بھی قبول فرمائیں۔ بہادر شاہ ظفر پس و پیش سے کام لیتا رہا۔ اس دوران مولوی محمد باقر کو بھی یہ احساس ہو گیا کہ بہادر شاہ ظفر کو ہندوستان کے اصلی حکمران کے طور پر اُجاگر کرنا بہت ضروری ہے۔ یہ وہ موقع تھا جب انہوں نے فیصلہ کیا کہ ایک صحافی کی حیثیت سے حق اور باطل کی لڑائی میں نیوٹرل رہنا بزدلی اور بددیانتی ہے۔ لاہور سے شائع ہونے والے اُردو کے ایک اخبار ’’کوہِ نور‘‘ نے باغیوں کو مفسدین اور انگریزی فوج کو ’’دلیران انگریزی‘‘ لکھنا شروع کر دیا۔ ’’کوہ نور‘‘ کے ایڈیٹر منشی ہر سُکھ رائے کو ایسٹ انڈیا کمپنی سے مالی معاونت ملتی تھی اور ان صاحب کا قلم غیر ملکی سامراج کا گماشتہ بن چکا تھا۔ مولوی محمد باقر نے باغیوں کو مفسدین کے بجائے مجاہدین لکھنا شروع کر دیا اور اپنے اخبار کا نام بدل کر ’’اخبار الظفر‘‘ رکھ دیا۔ دہلی کالج کے پرنسپل فرانسس ٹیلر نے انہیں بہت سمجھایا کہ مصلحت سے کام لو کیونکہ بہادر شاہ ظفر کی کمزور حکومت چند دنوں کی مہمان ہے لیکن مولوی محمد باقر نے جان کی بازی لگانے کا فیصلہ کر لیا۔ دہلی کے نیشنل آرکائیوز میں مولوی محمد باقر کے مئی تا ستمبر 1857ء تک کے اداریے محفوظ ہیں جن کے مطالعے سے پتا چلتا ہے کہ مولوی محمد باقر اپنا اخبار تحریک آزادی کے لیے وقف کر چکے تھے لیکن اُنہوں نے افواہوں اور سنی سنائی باتوں کو اپنے اخبار میں جگہ نہیں دی بلکہ وہ اس خطے کے پہلے صحافی تھے جس نے ’’فیک نیوز‘‘ کو بے نقاب کیا۔ جب بغاوت عروج پر پہنچی تو انگریزوں نے ہندو مسلم اتحاد توڑنے کے لیے دہلی کے در و دیوار پر یہ پوسٹر چپکانا شروع کر دیئے کہ مسلمانوں کا اصل دشمن انگریز نہیں بلکہ ہندو ہے کیونکہ انگریز اہلِ کتاب ہے۔ مولوی محمد باقر نے ان پوسٹروں کے پیچھے چھپی سازش کو بے نقاب کیا۔ دہلی میں ایسے لوگوں کی کمی نہ تھی جو منشی ہر سُکھ رائے کی طرح انگریزوں سے ملے ہوئے تھے لہٰذا ان غداروں نے مجاہدین میں اختلافات پیدا کر دیئے اور انگریز شہر میں گھس آئے۔ 14ستمبر 1857ء کو مولوی محمد باقر کو اُن کے اخبار کے دفتر سے گرفتار کر لیا گیا جبکہ محمد حسین آزاد فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے۔
16ستمبر 1857ء کو انہیں فرانسس ٹیلر کے قتل کے الزام میں میجر ولیم ہڈسن کے حکم پر گولی مار دی گئی حالانکہ مولوی محمد باقر نے ٹیلر کے قتل کا واقعہ اپنے اخبار میں خود ایک عینی شاہد کے طور پر شائع کیا تھا۔ میجر ولیم ہڈسن نے مولوی محمد باقر کا جسمانی وجود ختم کر دیا لیکن اُن کی کہانی ختم نہ کر سکا۔ مولوی محمد باقر کو مختلف ادوار میں کئی میجر ولیم ہڈسن بار بار گولی مار چکے ہیں لیکن وہ بار بار زندہ ہو جاتا ہے۔ بار بار کوئی نہ کوئی منشی ہر سُکھ رائے ’’دلیران انگریزی‘‘ کا گماشتہ بن کر مولوی محمد باقر کو غدار قرار دیتا ہے لیکن تاریخ میں مولوی محمد باقر کا نام برصغیر پاک و ہند کے پہلے شہید ِصحافت کے طور پر ہمیشہ زندہ رہے گا۔


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں