اسلام میں شرم و حیا

اسلام میں شرم و حیا

حیا دراصل انسانی فطرت و جبلت میں ودیعت کیا گیا ایک ایسا وصف ہے جو اسے ہر برائی سے روکتا اور اچھائی کی ترغیب و تحریض کرتا ہے، یہ ایک ایسی آڑ اور رکاوٹ ہے جس سے بہت سے مفاسد کا دفعیہ ہوتا ہے کہ اگر یہ آڑ ختم ہوجائے تو پھر ان مفاسد و ذنوب کے سیلاب کے آگے بند ٹھہر نہیں سکتا۔ اسی لئے ایمان دشمن اور انسانیت کو تباہ کرنے والی قوتیں سب سے پہلے اسی سد منیع کو اپنا ہدف بناتی ہیں کہ اگر شرم و حیا کا یہ عنصر انسان کے اندر سے ختم ہوجائے تو اسے ہلاکت و تباہی کے کسی بھی گڑھے میں گرایا جاسکتا ہے۔ جیسا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تجھے شرم و حیا نہ رہے تو جو چاہے کر، یعنی اگر شرم و حیا کی دولت رخصت ہوجائے تو جو مرضی میں آئے کر۔ کیونکہ پھر کوئی رکاوٹ باقی نہیں رہتی، اسی کو فارسی میں یوں بیان کیا جاتا ہے: ”بے حیا باش و ہرچہ خواہی کن“۔ لہذا انسانیت کے دشمنوں کی طرف سے سب سے پہلے شرم و حیا کے محاذ پر وار کیا جاتا ہے۔ ننگے فوٹو، فحش گانے اور عریاں تصاویر و غیرہ و غیرہ تمام اسی ترکش کے وہ تیر ہیں جن سے مؤمن کے دل و دماغ کی متاع عزیز کو شکار کیا جاتا ہے، ہدف بہر حال وہی ایک ہے کہ ایمان و حیاء کی دولت پر ڈاکہ ڈالا جائے کیونکہ یہی سب سے اہم اور اصل متاع ہے، جس کے بارے میں لسانِ نبوت کا ارشاد ہے: شرم و حیاء تو خیر ہی خیر ہے۔ نیز فرمایا: حیاء ایمان میں سے ہے۔ ”حیاء ایمان کا شعبہ و حصہ ہے۔ اور کہیں فرمایا: حیاء تو خیر اور بھلائی ہی لاتا ہے۔
واضح رہے کہ حیا کی بھی دو قسمیں ہیں: ایک وہ طبعی اور فطری وصف جو جبلی طور پر ہر انسان میں موجود ہوتا ہے اور اسے برائی کے ارتکاب سے روکتا اور اچھائی کی ترغیب و تحریض کرتا ہے، جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ: ”حیاء تو خیر اور بھلائی ہی کا سبب بنتا ہے“ اور اسی اعتبار سے وہ ایمان کے اہم اوصاف میں سے قرار پاتا ہے اور خیر و بھلائی ہی کی راہ دکھاتا ہے، جیسا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے: ”جس نے حیاء کی وہ چھپ گیا اور جو چھپ گیا وہ متقی بن گیا اور جو متقی بن گیا اس نے اپنے آپ کو بچالیا“۔ حضرت جراح بن عبداللہ الحکمی رحمہ اللہ جو مشہور بزرگ اور اہل شام کے شہ سواروں میں سے تھے فرماتے ہیں کہ: ”میں نے شرم و حیاء کے باعث چالیس سال تک گناہوں کو چھوڑے رکھا پھر مجھے ورع نے خود ہی اپنا لیا“۔ بہر حال یہ حیاء کی پہلی قسم ہے جو ہر کسی کی جبلت میں ودیعت ہوتی ہے۔
دوسری قسم حیاء کی وہ ہے جو اس سے بھی اعلیٰ و افضل ہے، جس کا تعلق انسان کے کسب و اختیار سے ہے۔ انسان اسے اللہ تعالی کی معرفت، اس کے قرب اور اس کے علم و حضور کے استحضار سے حاصل کرتا ہے، اور یہ بات پیش نظر رکھتا ہے کہ اللہ تعالی کی ذات دلوں کے بھیدوں کو بھی جاننے والی ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم خود بھی شرم و حیا کے پتلے تھے، اور اس صفت کو محبوب رکھتے تھے، چنانچہ حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پردہ نشین کنواری لڑکی سے بھی زیادہ شرمگیں تھے کوئی مکروہ چیز دیکھ لیتے تو زبان سے کچھ نہ فرماتے، ہاں آپ کے چہرہ انور پر کراہت کے آثار نمایاں ہوجاتے تھے، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ اگر کوئی حرکت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو پسند نہ آتی تو اس کا نام لے کر منع نہ فرماتے، بلکہ عام الفاظ میں اس حرکت و فعل کی نہی فرمادیتے۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا ہی قول ہے کہ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو برہنہ کبھی نہیں دیکھا، معمول تھا کہ رفع حاجت کے لیے اس قدر دور نکل جاتے کہ آنکھوں سے اوجھل ہوجاتے، مکہ میں جب تک قیام تھا حدود حرم سے باہر چلے جاتے جس کا فاصلہ مکہ سے کم از کم تین میل تھا۔ (سیرۃ النبی)
جب کوی عذر خواہ سامنے آکر معافی کا طالب ہوتا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم شرم کی وجہ سے گردن مبارک جھکا لیتے، عادات و معاملات میں اپنی جان پر تکلیف اٹھا لیتے مگر دوسرے شخص کو شرم کی وجہ سے کام کرنے کو نہ فرماتے۔ (درّ یتیم)


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں