بڑھاپے کے غلط فیصلے

بڑھاپے کے غلط فیصلے

سمعیہ کی زندگی بہت پر سکون گزر رہی تھی کہ اچانک اُن کے شوہر وفات پاگئے۔ وہ چار کمروں کے فلیٹ میں رہتی تھیں۔ تین بہوویں گھر میں تھیں۔ جگہ کی تنگی تو تھی مگر اچھی گزر رہی تھی۔
ان کے شوہر کو اس جگہ سے بڑی انسیت تھی۔۔۔ بچے بہت کہتے کہ اللہ نے بہت کچھ دیا ہے۔ بڑا گھر بنوا کر سکون سے رہا جاسکتا ہے مگر وہ اپنی زندگی میں کسی تبدیلی پر آمادہ نہ ہوئے۔ ان کو سمجھانا، اپنے مؤقف پر لانا ممکن نہ رہا تو سب نے اس موضوع پر بات کرنا چھوڑ دیا۔ ان کے دنیا سے جاتے ہیں بیٹے ہم خیال ہو کر اس بات پر متفق ہوگئے کہ تمام جائیداد بیچ کر سب بچوں کو حصہ دیا جائے تا کہ سب اپنی رہائش کا بند و بست کرسکیں۔
گلشن میں ۴۰۰ گز کا پلاٹ، ۱۲۰ گز کا پلاٹ اور کئی قیمتی دکانیں اور جس فلیٹ میں رہائش تھی سب کو بیچا گیا تو سب بچوں کو اتنا ملا کہ اچھے علاقے میں تینوں بھائیوں نے اپنے گھر بنوالیے۔ بیٹی بھی جو ملک سے باہر تھی، ان کو بھی اپنا حصہ مل گیا۔
طے یہ پایا کہ والدہ ایک ایک ماہ سب بیٹوں کے گھر رہیں گی۔ آج ان کا بڑا بیٹا ان کو لینے آرہا تھا اور وہ سامان سمیٹتے ہوئے ایک گھر سے دوسرے گھر جاتے ہوئے بہت دکھی ہو رہی تھیں کہ میری بھی کیا زندگی ہوگئی ہے۔ بے ساختہ ان کے آنکھیں بھیک گئیں۔
ان کی بہن اتفاق سے وہیں موجود تھیں۔ ان سے بہت کا دکھ دیکھا نہ گیا، کہنے لگیں:
’’باجی! آپ نے خود اپنے ساتھ برا کیا ہے۔۔۔ کیا ضرورت تھی کہ اپنا بھی سب کچھ بیچ کر سب کو دے دیا اور اب خود بے گھر ہوکر اِس گھر سے اُس گھر خوار ہوتی پھر رہی ہیں۔ اپنی زندگی میں آپ کو ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا۔‘‘
باپ کی جائیداد تقسیم ہوجاتی تو ٹھیک تھا کہ ان کا حق تھا مگر وہ چار سو گز کا پلاٹ جو آپ کے نام تھا، اس پر ڈبل مکان بنواتیں اور دو بیٹوں کو دو سو گز پر دو پورشن بنوا کردے دیتیں اور نیچے کا پورشن اپنے پاس رکھتیں۔ چھوٹی دلہن کو بھی دو سو گز کا حصہ نیچے مکان میں دے کر دو سو گز کا اپنے پاس رکھتیں۔ آپ کی بیٹیاں، بہنیں، دوسرے مہمان آتے تو مسئلہ نہیں ہوتا۔ جگہ کی تنگی نہ ہوتی اب ہم سب آپ سے ملنے کے لیے سوچتے ہیں کہ باجی کہاں ہیں۔۔۔ کہاں جائیں۔
بے شک سب بہوؤں کے گھر باری باری ملنے کے لیے جاتیں مگر مرکز تو ایک ہوتا۔ بے شک آپ کے لیے شوہر کی پینشن اور جو رقم آپ کے حصے میں ملی، وہ آپ کی ضروریات کے لیے کافی ہے مگر اپنا ٹھکانہ تو نہ رہا، خود تو بے گھر ہوگئیں۔‘‘
بہن نے انتہائی دردمندی سے کہا تو وہ صرف اتنا ہی کہہ سکیں: ’’ٹھیک کہتی ہو۔‘‘

عقیل صاحب بیوی کی وفات کے بعد تنہائی کا دکھ جھیلنے کو اکیلے وہ گئے۔ بچے اپنے اپنے گھروں میں پر سکون زندگی گزار رہے تھے۔ عقیل صاحب اپنے بڑے گھر میں رہتے تھے۔ ماں کے انتقال کے بعد ایک بیٹی باپ کے گھر ہی رہنے لگی کہ باپ کی بھی دیکھ بھال میں سہولت ہوجائے۔
چند رشتے دار پیچھے پڑگئے کہ مکان بیچ کر سب کو حصہ دے دو، اپنی جان چھڑاؤ، انہوں نے جلد بازی میں مکان بیچا، سب کو حسہ دیا اور یہ طے پایا کہ سب بچوں کے گھر ایک ایک ماہ رہا کریں گے۔
کچھ بچے ملک سے باہر چلے گئے جو ملک میں رہ گئے۔ وہاں بھی ان کا رہنا دشوار ہوگیا۔ بہو کے گھر جاتے تو اس کا موڈ خراب ہوجاتا۔ کبھی کسی داماد کو ان کا رہنا ناگوار ہوتا۔
بہو اپنے شوہر سے لڑتی کی میری ذمے داری نہیں۔ بیٹیوں کی ذمے داری ہے۔ وہ رکھیں والد کو۔۔۔ داماد کہتے: ’’بیٹیوں کا فرض نہیں ہے۔ یہ بیٹے کا فرض ہے کہ باپ کو عزت، احترام سے رکھیں۔ بیٹیوں کے گھر کون رہتا ہے۔‘‘
اب وہ بے چارے سب کے رویوں کو دیکھتے اور آہیں بھرتے ہیں۔ سب کچھ ہوتے ہوئے بھی بے بسی، مجبوری کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔

سعید صاحب کو بھی اچانک شدت سے یہ احساس ہوا کہ گھر بیچ کر سب کو زندگی میں ہی دے دیا جائے۔ ان کے بچوں نے تو والد سے پیسے لے کر کسی نہ کسی طرح اپنی رہائش اختیار کرلی مگر وہ خود اپنے گھر سے کرائے کے مکان میں بیگم کے ساتھ شفٹ ہوگئے۔ اب جس بیٹے کے گھر جاتے بہو کے چہرے سے ناگواری و ناپسندیدگی کا اظہار ہوتا۔ اپنی سلطنت میں کسی کی مداخلت ملکہ عالیہ کو گراں گزرتی۔ بیٹیاں اپنی مجبوریاں بتاتیں کہ سسرال کا ساتھ ہے۔
ایسے بیٹے بھی ہیں اور بیٹیاں بھی جو سعادت سمجھ کر والدین کی خدمت کرتے ہیں مگر اکثریت کا حال بہت برا ہے۔ وراثت کا مال حاصل کرنے کے لیے تو سب حصہ دار بن جاتے ہیں مگر خدمت کا بوجھ اٹھانے سے گریز کرتے ہیں۔
یہ نفسا نفسی کا دور ہے۔ رشتوں میں خلوص، محبت وفاداری برائے نام رہ گئی ہے۔ شاید زندگی میں وراثت کی تقسیم اجر و ثواب کا باعث ہوگا۔۔۔ مگر آج کا دور تن آسانی، عیش پسندی کا دور ہے۔
عموماً اولاد کسی بھی ذمے داری کو اٹھانے سے گریز کرتی ہے۔ خصوصاً آج کی بہو آزادی سے رہنا پسند کرتی ہیں سوائے چند ایک کے۔
ایسے حالات میں خود کو سرمائے اور عارضی ٹھکانے سے محروم کرنا نادانی کے سوا کچھ نہیں۔ ہاں اگر تنی وسعت ہے کہ اپنے لیے ایک گھر موجود ہو اور باقی پراپرٹی تقسیم کرنا چاہیں تو یہ بہتر فیصلہ ہوسکتا ہے۔ بے شک اللہ ہی سب کا والی وارث ہے۔ اللہ ہی بہتر فیصلوں کی توفیق عطا فرمائے اور بڑھاپے کی تنگدستی و دکھوں سے بچائے۔ آمین
سب سے اچھی عمر ہو عمر اخیر
سب سے اچھا وقت ہو وقت اخیر


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں