استقبال رمضان۔ مبارک ہو مومنو! پھر سے رمضان آرہا ہے

استقبال رمضان۔ مبارک ہو مومنو! پھر سے رمضان آرہا ہے

رمضان کی آمد آمد ہے اس کی برکات و انوار کا سلسلہ شروع ہونے والا ہے۔
یہ اہل ایمان کے لیے مسرت و شادمانی کا پیغام ہے۔ سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کی آمد کا انتظار فرمایا کرتے تھے اور ماہ رجب کی آمد پر یہ دعا آپ کی زبان مبارک پر ہوتی ہے، اے اللہ! ہمارے رجب اور شعبان میں برکتیں عطا فرما اور ہمیں رمضان تک پہنچا۔ رمضان کی آمد پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے فرمایا کرتے تھے دیکھو وہ کون آرہا ہے؟
رمضان کا مل جانا اللہ کی بڑی نعمت ہے۔ آج دین اور شعائر دین سے غفلت بڑھتی جارہی ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ اہل اسلام کو غفلت سے نکالا جائے اور انہیں ان کے فرائض اور عبادات کی یاددہانی کرائی جائے۔ اسی سلسلے میں استقبال رمضان کے عنوان سے جامعہ امدادیہ اڈیالہ روڈ میں قاری عطاء اللہ نے ایک اجتماع کا انعقاد کیا جس میں مقامی علمائے کرام، مولانا مفتی محمد عبداللہ صدر تحریک اشاعت اسلام، مولانا قاری احمد سعید قریشی، قاری محمد اسماعیل رحمانی نے شرکت کی جبکہ تحریک خدام اہل سنت کے امیر مولانا ظہورالحسن اور مولانا حافظ ابوبکر مدیر مدرسہ تعلیم الاسلام جہلم، مولانا فاروق معاویہ، مطیع الرحمن ہاشمی، مولانا محمد نعیم اور بزم حق چار پار کے شعراء او نعت خوان بھی شریک ہو۔ راقم الحروف کو استقبال رمضان کے موضوع پر گفتگو کے لیے کہا گیا تو میں نے اس حوالے سے مندرجہ ذیل معروضات پیش کیں۔
”یوں تو ہر دن، مہینہ اور سال ایک جیسے ہیں مگر یہ ظاہری اعتبار سے ہے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق ”شعبان شھری و رمضان شھر اللہ“ شعبان میرا مہینہ اور رمضان اللہ کا مہینہ ہے۔ اسی لیے اس ماہ میں نزول قرآن کے ذریعے اپنے مہینے کو یہ اعزاز بخش دیا کہ اس میں میرا کلام نازل ہوا، اس نسبت سے اس کی عظمت بڑھ گئی جو اس ماہ کا اکرام کرے گا میں اس پر اپنی رحمت کی برسات کردوں گا۔ اگر ہم غور کریں تو معلوم ہوگا کہ اللہ نے انسان کو احسن تقویم میں پیدا کیا اور پھر اسے اشرف المخلوقات بنایا اور ملائکہ کا مسجود بنایا حالانکہ انہوں نے اپنے ”تحفظات“ کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا ”کیا آپ زمین میں اسے خلافت سونپ رہے ہیں جو زمین میں فساد کرے گا اور خون بہائے گا جبکہ ہم آپ کی تسبیح و تحمید کرتے ہیں“ تو اس کے جواب میں اللہ نے فرمایا ”انی اعلم مالا تعلمون“ جو میں جانتا ہوں وہ تم نہیں جانتے۔ اب ایسی اشرفیت کے باوجود کیا انسان کو بے مقصد بنایا گیا تو اس کا جواب یہ ہے کہ جب ہر چیز کی تخلیق کا کوئی مقصد ہے، تو یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ انسان کی پیدائش کا کوئی مقصد نہ ہو چنانچہ فرمایا گیا، و ما خلقت الجن۔۔۔۔ میں نے جنوں اور انسانوں کو اس لیے پیدا کیا تا کہ تم میری عبادت کرو، اب یہ عبادت جب انسانی زندگی کا مقصد ہے تو پھر چوبیس گھنٹے اسے عبادت میں مشغول رہنا چاہیے تھا مگر اس کے ساتھ انسانی تقاضے بھی تھے، بھوک، پیاس، رشتے، ناتے، والدین، اولاد، ازواج اور ہمسائیوں کے حقوق و ذمہ داریاں بھی ساتھ لگادیں، اب ہر وقت عبادت میں مصروفیت مشکل ہوگئی تو اللہ تعالی نے کچھ خصوصی ماہ و ایام دیے جن میں عبادت اور نیکیوں کا اجربڑھا دیا۔ عام دنوں میں پڑھے جانے والے نوافل رمضان میں فرائض کے برابر قرار پائے، ایک رکعت اور نیکی کا ثواب ۰۷ گنا سے ۰۰۷ گنا تک بڑھا دیا۔ رمضان کے عبادات روزے اور قیام کا ثواب اس سے بھی زیادہ عطا فرمانے کا اعلان کیا، نماز، زکوۃ، حج کا بدلہ جنت ہے مگر رمضان کے روزے کے متعلق اللہ نے ارشاد فرمایا ”الصوم لی و انا اجزی بہ و فی روایۃ انا اجزی بہ“ روزہ میرے لیے ہے میں خود اس کا بدلہ دوں گا جب خود بدلہ دینے کا اعلان فرمایا تو معلوم ہوا کہ عام عبادات سے اس کا بدلہ زیادہ ہے، بعض روایات میں ”اجزی“ ہے کہ میں خود اس کا بدلہ ہوں جس کا بدلہ اللہ خود کو قرار دیں اس کے ثواب کا اندازہ لگانا ہمارے لیے ناممکن ہے۔
یہ اجر کیوں ہے کہ رمضان میں انسان اللہ کے لیے جب ۵۱، ۶۱ گھنٹے بھوکا، پیاسا رہتا ہے تو اسے کتنی مشقت برداشت کرنا پڑتی ہے تو اس کے نتیجے میں منہ کی بو اللہ کو مشک و عنبر سے زیادہ محبوب ہوجاتی ہے۔ سمندر کی مچھلیاں اس کے لیے دعا گو ہوتی ہیں، سحر و افطار کے وقت بخشش کے دروازے کھلے ہوتے ہیں۔ صیام و قیام پر پہلے تمام گناہوں کی معافی کو نوید الگ ہے اور بشری تقاضوں کے حوالے سے بھی کہلایا گیا کہ اگر وہ تقاضے اللہ کے احکامات اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کے مطابق پورے کیے جائیں تو وہ بھی عبادت میں شمار ہوں گے۔ اسی لیے انسان جب اپنی اور اپنے گھروالوں کی ضروریات کے لیے کماتا ہے اگر وہ حلال کے لیے کوشاں ہوتا ہے تو وہ رزق کمانا بھی عبادت ہے۔ وہ فرمان نبوی کے مطابق ”الکاسب حبیب اللہ“ (حلال کمانے والا اللہ کا دوست ہے) خدا کا محبوب بن جاتا ہے۔ اہل خانہ کی ضروریات حلال کمائی سے پورا کرتا ہے تو وہ بھی صدقے میں شمار ہوتا ہے۔ رشتے ناتے نبھانے پر بھی اسے جنت کا مستحق ٹھہرایا مگر انسان کے مزاج میں عجلت ہے اور تلون ہے، اس لیے وہ صرف جسمانی تقاضوں تک خود کو محدود کرلیتا ہے، حالانکہ روح کے بغیر اس کی کوئی حیثیت نہیں۔ عام دنوں میں پانچ نمازیں باجماعت ادا کرنی اس پر آشوب دور میں مشکل ہوگئی ہیں، تلاوت قرآن سے تو غفلت ہے ہی۔
اللہ نے روح کی بالیدگی اور اس کی غذا کے لیے رمضان المبارک عطا فرمایا تا کہ بھوکا پیاسا رہ کر خواہشات نفسانی پر قابو پائے اور قرآن کی تلاوت اور ذکر و اذکار کی غذا روح کو مہیا کرکے اپنے مقصد تخلیق سے کمزور رابطے کو مضبوط بنائے۔ گیارہ مہینے تم جس غفلت کا شکار رہے ہم نے تمہیں یہ مہینہ اس لیے دیا کہ روح کو غذا مہیا کرکے اس غفلت سے نجات پا لو۔ اسی لیے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کی آمد سے پہلے خطبہ ارشاد فرمایا کرتے تا کہ رمضان آنے سے پہلے اس سے فائدہ اٹھانے کی تیاری شروع کرلیں اور آنے والے لیل و نہار کی قدر کریں۔ فرامین نبوی کے مطابق ”شیاطین“ قید، جنت آراستہ اور جہنم کے دروازے بند کردیے جائیں اور اللہ کی طرف سے منادی ہر رات پکارتا ہے اے خیر کے طالب آگے بڑھ اور اے برائی کے شائق رک جا۔ اور اللہ کی طرف سے رمضان کی ہر رات میں گنہگار بندوں کو دوزخ سے رہائی دی جاتی ہے۔
تو وہ ان دنوں سے فائدہ اٹھا کر اپنے گناہ بخشوا لیں۔ حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا رمضان اپنی آغوش میں برکتیں اور رحمتیں لے کر آرہا ہے، اس میں دعائیں قبول ہوتی ہیں، اہل ایمان طاعات و عبادات کے ذریعے اپنی خطائیں معاف کرانے رب کے سامنے التجائیں کرتے ہیں تو اللہ تعالی فرشتوں کے سامنے مسرت اور فخر و مباہات کا اظہار کرتے ہیں۔ دیکھو میرے فرشتو یہی وہ انسان ہیں جن کے بارے میں تم تحفظات کا اظہار کررہے تھے اس ماہ مبارک میں مومن کے رزق میں اضافے کا اللہ کی طرف سے وعدہ ہے تو ضروری ہے کہ ہم اس ماہ میں اپنی سرگرمیوں کو محدود کرکے اللہ کو راضی کرنے میں جت جائیں۔ کسی روزہ دار کو افطار کرانا جہاں گناہوں کی مغفرت اور جہنم سے آزادی کا وعدہ ہے وہاں روزہ دار کے ثواب میں کمی کیے بغیر اس کے برابر ثواب کی خوشخبری بھی یہ لسی یا پانی کے ایک گھونٹ سے بھی روزہ افطار کرانے پر اجر ہے۔ اس ماہ میں جہاں ہم حلال چیزوں کے کھانے پینے سے رکتے ہیں وہاں حرام چیزوں جھوٹ، غیبت، بدزبانی، حرام کمائی سے، بھی بچیں اور اپنا زیادہ سے زیادہ وقت ملاوٹ اور استغفار میں گزاریں۔
دل میں پھر سے خوشیوں کا پیغام آرہا ہے
مبارک ہو مومنو! پھر سے رمضان آرہا ہے


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں