حضرت مولانا واضح رشید ندوی رحمہ اللہ کے منہج کی جامعیت

حضرت مولانا واضح رشید ندوی رحمہ اللہ کے منہج کی جامعیت

نحمده ونصلی علی رسوله الکریم، وبعد: قال الله تعالی {يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا ادْخُلُوا فِي السِّلْمِ كَافَّةً} [البقرة: 208[
وقال الله سبحانه وتعالی: {يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّـهَ حَقَّ تُقَاتِهِ وَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنتُم مُّسْلِمُونَ} [آل عمران: 102]
وقال تعالی: {إِنَّ الدِّينَ عِندَ اللَّـهِ الْإِسْلَامُ} [آل عمران: 19] ،{وَمَن يَبْتَغِ غَيْرَ الْإِسْلَامِ دِينًا فَلَن يُقْبَلَ مِنْهُ وَهُوَ فِي الْآخِرَةِ مِنَ الْخَاسِرِينَ} [آل عمران: 85]
مذکورہ آیات، اس کے علاوہ قرآن کریم کی مجموعی آیات اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرتِ طیبہ و احادیثِ مبارکہ سے یہ بات روز رشن کی طرح واضح ہوجاتی ہے کہ انسان کی فلاح وکامیابی کا راز ،اس کی سربلندی اور دنیا و آخرت میں سرخ روئی دینِ اسلام پر مکمل عمل کرنے میں ہے، دین اسلام کیا ہے؟ وہ ایک مکمل نظام الہی ہے جو بشریت کی کامیابی اور سعادت کو بطور تحفہ لایا ہے، اس کے خالق اور پالنے والا خود اللہ تعالی کی ذات اقدس ہے ، اللہ تعالیٰ جوچیز بناتاہے وہ ہر لحاظ سے کامل، مکمل اور خلقت کے اعلی پیمانے پر ہوتی ہے، اس میں کسی بھی قسم کی کمی کا تصور بھی ممکن نہیں ہے، اس دین کے اصول اور مبادی قرآن میں محفوظ ہیں اور جس طرح اللہ تعالی ٰنے قرآن کی حفا ظت کے لیے انتظام فرمایا ہے اور اس کے تمام مراحل میں جس نظم اور احتیاط کا پہلو اختیار کیا گیا ہے اور عملی نمونہ کے ذریعے سیاس کی تشریح کاجس انداز سے اللہ تعالی نے انتظام فرمایا ہے ،اس طرح کا انتظام دنیا کے کسی بھی سسٹم اور نظام کے لیے نہیں کیا گیا، خواہ وہ نظام الٰہی ہو یا بندوں کا بنایا ہوا نظام ہو۔
اللہ تعالی نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خاتم النبیین، افضل الرسل، امام الانبیاء والمرسلین، سید وْلدِ آدم، أول من یدخل الجنة، شفاعت کرنے والا اور ان کی شفاعت کو شرفِ قبولیت کی خوشخبری سناکر اور خصال و صفاتِ حسنہ کا حامل بنا کر اس کی تشریح کے لیے اور عملی نمونہ دکھانے کے لیے بھیجا ہے اور ان کی ہر ادا کو مقبولیتِ تامہ کی صفت سے ایسا نوازا ہے کہ جس کا تصور کسی اور ہستی کے بارے میں نہیں ہوسکتا۔ قرآن ہی میں ایسی جامع تعبیر سے مخاطب کرکے ان کا اعلان کرایا جو عقلِ بشری سے بہت اونچی اور ناقابل تصور ہے۔ اس بارے میں سورهء احزاب آیت نمبر 21 میں باقاعدہ اعلان فرمایا ہے: {لَّقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّـهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَن كَانَ يَرْجُو اللَّـهَ وَالْيَوْمَ الْآخِرَ وَذَكَرَ اللَّـهَ كَثِيرًا}، یہ اعلان ایسا جامع و مانع ہے جو کسی بھی آئین کے حامل اور لانے والے کے لیے نہیں ہوا ہے، حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے قول اور عمل سے تمام مختلف زاویوں اور جوانب سے اس کی مکمل تشریح کر کے دکھائی اور ان کو شاگردوں کی وہ جماعت مل گئی جن کا تصور انبیاء علیہم السلام کے بعد پورے کره‌ء ارض میں ممکن نہیں ہے۔ یہ وہی لوگ تھے جنہوں نے اپنی زندگیوں کو اس دین کی آبیاری کے لیے اور اس پر سو فیصد عمل کرنے کے لیے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہر ادا کو عمل میں لانے کے لیے فنا کیا، اہل وعیال، مال ومتاع کو ان کی ایک ایک ادا کے لیے فد ا کردیا اور وہ لوگ اپنی عزیز جانوں کو ان کے لیے “نفديه بكل ما نملك” اور اپنے والدین کو “بأبي و أمّي” کہہ کر ان کے نام پر فدا کرتے تھے ، حضور اقدس کے دنیا سے رحلت فرمانے کے بعد بھی حضراتِ صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم اجمعین میں یہ سلسلہ بڑی قوت کے ساتھ جاری رہا اور انہوں نے تمام شعبہ ہائے زندگی میں احکام الٰہی اور سنتِ نبوی علیٰ صاحبہا الصلاة والسلام کو زندہ کرکے دکھایا اور انہیں کی کوششوں، اخلاص و للّٰہیت کا نتیجہ ہے کہ آج تک یہ سلسلة الذہب جاری و ساری ہے اور قیامت تک جاری رہے گا ان شاءاللہ تعالیٰ. جن لوگوں نے اس کو اپنے لیے اسوہ بنایا اور عالمِ بشریت تک اس مبارک کام کو پہنچایا، انہوں نے بڑی امانت داری سے کام لیا ہے. تاریخ کے ہزاروں صفحات اس پر شاہد ہیں کہ انہوں نے احیائے دین کی راہ میں کوئی کسر نہیں چھوڑی اور اپنی زندگی کے بہترین لمحات اس کام کی انجام دہی کے لیے وقف کردیے، مسلمانوں میں ایسے لوگ بھی پیدا ہوئے جو دین کے کسی ایک شعبہ سے متاثر ہوئے اور ان کی کم فہمی بلکہ کج فہمی سے اور بعض شعبوں میں ان کو نقص اور کمی نظر آئی مگر درحقیقت دین کے ان شعبوں میں نقص اور کمی نہیں تھی بلکہ وہ اپنے ماحول سے متاثر ہو کر اس کج فہمی کے شکار ہوئے، جبکہ دوسری جانب ایسے لوگ بھی میدان میں آئے جنہوں نے دین کے تمام شعبوں کو (فطرتِ سلیمہ سے کام لیتے ہوئے) صحیح سمجھ کر ان کی تشریحات قرآن وحدیث ، سیرت اور سلف صالحین کی زندگی سے لے کر ان کے مطابق خود بھی عمل کیا اور دوسروں تک بھی ان کو امانت داری سے منتقل کیا۔
اس دور میں بھی اللہ تعالی نے بہت سے دور افتادہ علاقوں سے دین کا بہت کام لیا ہے، یہ علاقے جغرافیائی اور ثقافتی لحاظ سے جزیرة العرب سے کوسوں دور بالکل الگ تھلگ ہیں مگر تاریخ پڑھنے والے جانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ دین کا کام لینے کے لیے مخصوص طور پر کسی قوم و ملت یا کوئی خاص زبان جاننے والے کے محتاج نہیں بلکہ وہ جس سے چاہتے ہیں کام لیتے ہیں، بڑے بڑے ائمہ کرام، محدثین و فقہاء جو دنیا میں امامت کے حقدار بنے ان کا تعلق عجم کے علاقوں سے ہے اور برصغیر کا شمار بھی ان ہی دور دراز علاقوں میں ہوتاہے، مگر اللہ تعالیٰ نے اس سر زمین کو ایسا زرخیز و آدم‌خیز بنایا ہے کہ اس کے اطراف و اکناف میں دین کے ایسے بڑ ے بڑے حامی و مددگار پیدا ہوئے جنہوں نے سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرح دین کے دفاع کے جذبہ کو پیش کیا، گویا ان کی زبان حال سے “أينقص الدين و أنا حيّ” کا اعلان جاری رہا اور انہوں نے اپنے عمل سے بھی اس کو ثابت کر کے دکھایا۔ انہی ہستیوں میں سے ’’رائے بریلی‘‘ کے حسنی خاندان کے چشم و چراغ بھی شامل ہیں جو تقریباً کئی صدیوں سے دین کی حمایت اور حفاظت میں سربکف ہیں، ان کی خصوصیت یہ ہے کہ انہوں نے دین کے تمام شعبوں کو صحیح طریقہ سے، سنت اور سلف صالحین کی تشریح دین اور ان کے حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے سمجھا، اس پر عمل کیا اور اس کو دوسروں تک منتقل کیا۔ ان کا یہ فہم اور عمل صرف ہندوستان تک محدود نہیں رہا، بلکہ انہوں نے دنیا میں بشریت کے مختلف طبقات تک اس کو بحسن وخوبی پہنچایا ہے۔
اسی خاندان کے ایک معزز اور مکرم فر د حضرت مولانا محمد واضح رشید ندوی رحمہ اللہ تعالی بھی ہیں، جنہوں نے دین کے مختلف شعبوں میں مختلف اور متنوع موضوعات پر انتہائی لگن اور شغف کے ساتھ کام کیا ہے۔ ان کے کام کی نوعیت بھی عجیب ہے جس کو دیکھتے ہوئے یہ کہاجائے تو بے جانہ ہوگا کہ وہ اپنے جد امجد حضرت مولانا عبدالحی حسنی رحمہ اللہ تعالیٰ کے اور اپنے ماموں مولانا ڈاکٹر عبدالعلی حسنی رحمہ اللہ تعالیٰ اور علامہ سید ابوالحسن علی ندوی رحمہ اللہ تعالیٰ کے عکس تھے۔ ان کی تالیفات ، تصنیفات، پرمغز باتیں اور پرنور مجلسوں کو دیکھر کر عربی کا مشہور مقولہ ہمیشہ سامنے رہتا تھا کہ “حالفه التوفيق”۔
ایک طرف آپؒ فن ادب میں صرف ماہر ہی نہیں بلکہ صاحب نظر اور امام بھی تھے، دوسری جانب اگر دیکھاجائے آپؒ تربیت وسلوک، تصوف و احسان، نظام تعلیم، نظریاتی کشمکش اور غزو فکری، یورپ کے مختلف نظاموں اور سماجی و اجتماعی مسائل پر ان کی گہری نظر تھی۔ آپؒ اعلی پایہ کے صاحبِ بصیرت انسان تھے؛ ان کی تالیفات و تصنیفات میں ایک نکتہ بہت نمایاں ہے کہ حضرتؒ اس تنوع اور مختلف موضوعات میں مہارت رکھنے کے باوجود سوادِ اعظم اور سلف صالحین کے راستے پر سوفیصد گامزن رہے۔ یہ وہ خصوصیت ہے جو ان کے خاندان کو وراثت میں ملی ہے، ورنہ بہت سارے ادباء اور ماہرینِ فن ایسے بھی گذرے ہیں جو فن ادب میں اس قدر منہمک اور مستغرق ہوئے کہ ان کی تحریریں ادب کے میدان میں بلا شک وشبہ ایک شاہکارہیں لیکن ان کافہم و ادراک، مسلک و مشر ب اور سوچنے کا انداز جمہور سے بالکل الگ تھلگ ہے، حتی کہ بعض ادیبوں کی کتابوں کے بارے میں تو علماء نے یہاں تک لکھا ہے کہ ان میں ایسا زہر ہے جس کو پڑھ کر انسان فن لغت میں تو بہت ماہر بن جاتاہے، لیکن دینی احکام اور اسلامی شعائر میں خسارے کا شکار ہوجاتاہے۔
حضرت مولانا واضح رشید ندوی رحمہ اللہ جہاں ایک ماہر ادیب تھے اور ان کی مایه‌ء ناز تصنیفات خود اس بات کی گواہ ہیں جو عوام وخواص میں مرجع کی حیثیت رکھتی ہیں، وہیں آپؒ تربیت و اصلاح کے قافلہ کے شہسواروں میں شمار ہوتے تھے۔ آپؒ اسلام کی سربلندی اور اس کو اس کے حقیقی لباس میں پیش کرنے میں جدوجہد کرنے والوں کے امام تھے۔ ان کی ہربات سے خلوص اور للٰہیت ٹپکتی تھی اور ان کے انداز میں سلف صالحین کے سلیقہ و اعتماد کی روشنی نظر آتی تھی۔
مولانا کی ہر کتاب “کوزے میں دریا” کی مصداق ہے۔ آپؒ موضوع کو اختصار کے ساتھ پیش کرنے میں بلامبالغہ مجتہد تھے۔ ان کی ایک مختصر کتاب “اسلام کا مکمل نظامِ زندگی حدیث نبوی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی روشنی میں” احقر کے سامنے ہے۔ اس میں بظاہر معمولی سا کام ہواہے کہ چالیس حدیثوں کو جمع کیا گیا ہے، لیکن اس کے عنوانات کو بنظر غائر دیکھنے سے معلوم ہوتاہے کہ اس انتخاب اور چناؤ میں اللہ تعالی نے انہیں خاص توفیق سے نوازا ہے۔ مختلف شعبہ ہائے زندگی خصوصاً اخلاقیات پر انہوں نے ایسی احادیث جمع کی ہیں کہ ہر ہر حدیث سمندر کی مانند نوادر سے مالامال ہے اور ہر حدیث کی تشریح کے لیے عمر دراز درکار ہے۔
مؤلف رحمہ اللہ نے اپنی کتاب کے مقدمہ میں اس کی طرف اشارہ بھی کیا ہے۔ انہوں نے چند جملوں میں اس کتاب کی اہمیت اور افادیت پر لکھا ہے اور اس میں ایسی باتوں کی طرف اشارہ فرمایا ہے کہ جن کی طرف عام طور پر ہرانسان کا ذہن نہیں جاتا۔ مؤلف رحمہ اللہ کا پُرمغز مقدمہ خود اس دعوے کی واضح دلیل ہے، افادہ کے پیشِ نظر ذیل میں اس کا ایک اقتباس پیشِ خدمت ہے:
مولانا رحمہ اللہ فرماتے ہیں: قرآن کریم کی ایک اہم آیت:
{الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا} [المائدۃ: 3] (آج میں نے تمہارے لیے تمہارے دین کو کامل کردیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کردی اورتمہارے لیے اسلام کو بطور دین کے پسند کیا)
پر تلاوت کے وقت مجھے غور کرنے کی توفیق ہوئی، تو اس میں مجھے تین نکتے نظر آئے، جن کی طرف اس آیت میں اشارہ ہے، ایک یہ کہ اسلام دینِ کامل ہے، یعنی زندگی کے سارے شعبوں پر مشتمل ہے، اور اس میں ترمیم، تنسیخ یا اصلاح کے عمل کی کوئی گنجائش نہیں، وہ قیامت تک کے لیے ہے اور ہر دور کے تقاضوں کے مطابق ہے، دوسری خصوصیت یہ ہے کہ اس کو خدا نے اِتمامِ نعمت قراردیا ہے اور تیسری یہ کہ اب اسلام ہی مذہب کی حیثیت سے قابل عمل اور قابل اعتماد ہے، اسی لیے دوسری جگہ ارشاد ہے، { وَمَن يَبْتَغِ غَيْرَ الْإِسْلَامِ دِينًا فَلَن يُقْبَلَ مِنْهُ وَهُوَ فِي الْآخِرَةِ مِنَ الْخَاسِرِينَ} [آل عمران: 85] (جو کوئی اسلام کے سوا اور دین کو تلاش کرے گا سو وہ اس سے ہرگز قبول نہیں کیاجائے گا اور وہ شخص آخرت میں تباہ کاروں میں سے ہوگا)۔
تاریخ کے مطالعہ سے اندازہ ہوتاہے کہ ہر دور میں اسلام کو صحیح شکل میں قائم رکھنے کے لیے علماء اور مجتہدین پیداہوئے اور انہوں نے اپنے عہد کے انحراف اور غلط تشریحات کا مقابلہ کیا، جن کی کوششوں سے اسلام اب بھی صحیح شکل میں قائم ہے۔
حدیث میں ایک واقعہ آتاہے کہ یہودیوں نے جب اس آیت کو سنا تو کہا کہ اگر یہ آیت ہم پر نازل ہوتی تو ہم اس کو جشن کے طور پر مناتے۔
اسلامی تاریخ کی ایک ٹریجڈی یہ ہے کہ مختلف ادوار میں علماء اور مفکرین نے اسلام کے بعض اجزاء پر زیادہ زور دیا کہ وہی اسلام سمجھیجانے لگے، اور بعض حضرات نے دوسرے اجزاء پر زور دیا کہ بس وہی اس فرقہ کے لیے اہمیت کے حامل ہوگئے۔
اسی طرح اعمال و احکام میں تناسب کا خیال نہیں رکھا گیا، اپنے ذوق اور علم کی بنیاد پر بعض کی اہمیت پر زیادہ زور دیا اور بعض پر کم، اسی لیے مسلم سماج میں توازن قائم نہیں رہا، اس کی ایک مثال قرآن کی آیت ہے جس میں جہاد پر زور دینے کے بعد کہاگیاہے: {فَلَوْلَا نَفَرَ مِن كُلِّ فِرْقَةٍ مِّنْهُمْ طَائِفَةٌ لِّيَتَفَقَّهُوا فِي الدِّينِ وَلِيُنذِرُوا قَوْمَهُمْ إِذَا رَجَعُوا إِلَيْهِمْ لَعَلَّهُمْ يَحْذَرُونَ} [التوبۃ: 122] (سو یہ کیوں نہ کیا کہ ہر ایک جماعت میں سے چند اشخاص نکل جائیں تاکہ دین (کا علم سیکھیں اور اس میں سمجھ پیداکریں) اور جب اپنی قوم کی طرف واپس آئیں توان کو ڈرائیں تاکہ وہ محتاط رہیں)۔
خود حدیث شریف میں جو قرآن کی شرح ہے، اس کی متعدد مثالیں ملتی ہیں؛ حضرت عبداللہ بن عمروبن العاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم کی طرف بڑھا اورکہا: میں آپ سے ہجرت اورجہاد پربیعت کرنا چاہتا ہوں اور اللہ  سے اس کے اجر کی امیدرکھتاہوں۔ حضور صلّی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم نے پوچھا: کیا تمہارے والدین میں کوئی زندہ ہے؟ اس نے کہا: ہاں دونوں زندہ ہیں۔ آپ صلّی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم نے فرمایا: تم اللہ سے اجر چاہتے ہو؟ کہا: ہاں ! فرمایا : جاؤ ان کی خدمت کرو۔ (متفق علیہ)
اس عہد کا اصل مرض اسلام کی من مانی تشریح اورعمل میں عدم توازن یاجزوی عمل ہے، اور یہی مسلمانوں کی زبوں حالی کا سبب ہے۔
سورهء مائدہ کی اس آیت پرغور کرکے میرے ذہن میں ایک نقشہ آیا جو خود قرآن کریم کی آیت سے ماخوذ ہے: {أَلَمْ تَرَ كَيْفَ ضَرَبَ اللَّـهُ مَثَلًا كَلِمَةً طَيِّبَةً كَشَجَرَةٍ طَيِّبَةٍ أَصْلُهَا ثَابِتٌ وَفَرْعُهَا فِي السَّمَاءِ * تُؤْتِي أُكُلَهَا كُلَّ حِينٍ بِإِذْنِ رَبِّهَا ۗ وَيَضْرِبُ اللَّـهُ الْأَمْثَالَ لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَذَكَّرُونَ} [إبراهيم: 24،25] (کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ اللہ تعالیٰ نے کیسی (اچھی) تمثیل کلمہ طیبہ کی بیان کی کہ وہ ایک پاکیزہ درخت کے مشابہ ہے جس کی جڑ (خوب) مضبوط ہو اور اس کی شاخیں (خوب) اونچائی میں جارہی ہوں، وہ اپنا پھل ہرفصل میں اپنے پروردگار کے حکم سے دیتا رہتاہو)۔
میں نے اسلام کو ایک شجر (درخت) تصور کیا پھر اس کی تعلیمات کو جو زندگی کے مختلف شعبوں کے متعلق ہیں شاخیں تصور کیا اور اس کا نقشہ بنایا، اور اس کے مطابق حدیثوں کو جمع کیا جو زندگی کے سارے شعبوں سے متعلق ہیں، اب اگر ان سارے شعبوں کو جمع کیا جائے اور اسلام کامل وجود میں آجائے تو اس کی مثال اس شجر کی طرح ہوگی جو ہر دور میں خدا کی مدد اورحکم سے پھل دے گا اور “تُؤْتِي أُكُلَهَا كُلَّ حِينٍ بِإِذْنِ رَبِّهَا” کا مصداق ہوگا۔
اس دور میں ہماری کوششوں اور اسلامی تحریکات کی ناکامی کا سبب اسلام کامل کا نمونہ پیش کرنے میں تقصیر (کوتاہی) ہے۔ ہم نے چالیس احادیث کا انتخاب اسی تصور کی بنیاد پرکیا۔ (اسلام مکمل نظامِ زندگی حدیث نبوی کی روشنی میں: ص10)
اس مقدمہ کے پڑھنے سے یقیناً قارئین کے دلوں میں اس کتاب کو دیکھنے اور پڑھنے کا شوق اجاگر ہو جاتاہے، اس لیے کہ جس مقدمہ کو مؤلفِ کتاب خود لکھے اورخاص طور پر وہ مؤلف جو کاغذ کی سیاہی اور تکثیر اوراق کی چکر میں نہ ہو، بلکہ اس کا مقصد اپنے دل کی بات مختصر الفاظ میں پیش کرنا ہو، تو وہ مقدمہ کتاب کا خلاصہ اور موضوع کا نچوڑ ہوگا۔
حضرت مولانا سید محمدرابع حسنی ندوی دامت برکاتہم نے ایک مرتبہ احقر سے فرمایا: بعض مؤلفین ،کتاب کے مقدمہ میں بہت کامیاب ہیں، وہ پوری کتاب کا خلاصہ اور اس کے اہم نکات (پوائنٹس) کو مقدمہ میں ذکر کرتے ہیں۔ پھر انہوں نے حضرت مولانا ابوالحسن علی ندوی رحمہ اللہ کی مثال دیتے ہوئے فرمایا کہ “مولانا اپنی کتابوں کا عام طور پر مقدمہ خود لکھتے تھے اور اس میں خاص طور پر اس بات کاخیال فرماتے تھے کہ کتاب کا خلاصہ مقدمہ میں آجائے، اس لیے کہ جس کو پوری کتاب پڑھنے کا موقع نہ ملے اور وہ ان جیسے حضرات مؤلفین کی کتابوں کا مقدمہ پڑھ لے، تو صرف مقدمہ پڑھنے سے اس کتاب کا خلاصہ اورموضوع کا نچوڑ اس کے ذہن میں آجاتاہے۔ “
حضرت مولانا واضح رشید صاحب رحمہ اللہ کواللہ تعالیٰ نے لکھنے پڑھنے میں بہت اعلیٰ مقام تک پہنچایا تھا۔ آپؒ اپنی کتابوں پر خود مقدمہ لکھتے تھے، جس سے قارئین کو کتاب کا خلاصہ سمجھنے میں بہت مدد ملتی تھی۔
اللہ تعالیٰ حضرت مولانا رحمہ اللہ کی کاوشوں کواخلاص کے ساتھ قبول فرماکر ان کو بہترین اجر عطاء فرمائیں اور ان کی اولاد، تلامذہ و محبین اور متعلقین کو ان کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائیں۔ آمین

عبدالقادر عارفی
استاذ دارالعلوم زاہدان وعضو مجلس الافتاء بہا
رجب المرجب/ 1440ھ
بشکریہ “تعمیرِ حیات” ترجمان ندوۃ العلماء لکھنؤ



آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں