واقعۂ معراج کا پیغام اور موجودہ عالمی حالات

واقعۂ معراج کا پیغام اور موجودہ عالمی حالات

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک سیرت اور آپ کی حیاتِ بابرکت میں پیش آنے والے حیرت انگیز واقعات میں اللہ تعالی نے انسانوں کے لئے عبرت اور نصیحت کے بے شمار پہلو رکھے ہیں، سیرتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی چھوٹا بڑا واقعہ ایسا نہیں ہے جس میں رہتی دنیا تک کے لئے انسانوں اور بالخصوص مسلمانوں کو پیغام و سبق نہ ملتا ہو اللہ تعالی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم النبیین بنا کر مبعوث فرمایا اور آپ کی ذات کو انسانوں کے لئے نمونہ قرار دیا، جس کو دیکھ کر صاف و شفاف آئینہ میں صبح قیامت تک آنے والے لوگ اپنی زندگی کو سنوار سکتے ہیں اور اپنے شب و روز کو سدھار سکتے ہیں، الجنھوں اور پریشانیوں میں راہ عافیت تلاش کرسکتے ہیں، آلام و مصائب کے دشوار گزار حالات میں قرینۂ حیات پاسکتے ہیں، یورشِ زمانہ سے نبرد آزمائی اور فتنہ و فساد کے پر خطر ماحول میں حکمت و تدبر کے راستہ منزل سے رسائی حاصل کرسکتے ہیں۔ غرض یہ کہ سیرت کا کوئی واقعہ اور کوئی پہلو ایسا نہیں کہ جس میں مسلمانوں کے لئے ان گنت نصائح نہ ہوں۔ چنانچہ سیرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حیرت انگیز واقعات میں سے واقعۂ معراج بھی ہے جو تاریخ انسانی کا نہایت محیرالعقول اور سیرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا بے مثال معجزہ ہے اللہ تعالی نے اپنے نبی سرور دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کو رات ہی کے کچھ حصے میں جسم و روح کے ساتھ، بیداری کی حالت میں عالم بالا کی سیر کرائی اور اپنے قرب کا اعلی ترین مقام عنایت فرمایا، جنت و جہنم کا مشاہدہ کروایا، نیکوں اور بدوں کے سزا و جزا کا معائنہ کروایا، نبیوں سے ملاقات ہوئی، ہر جگہ آپ کی عظمت و رفعت کا چرچہ کروایا، رحمتوں کی بارش فرمائی اور انعامات و الطاف سے خوب نوازا اور امت کے لئے عظیم الشان تحفہ ’’نماز‘‘ کی شکل میں عطا کیا، اور قیامت تک کے لئے انسانوں کو اپنے معبود اور خالق سے رابطہ کرنے اور اپنے مالک سے راز و نیاز کرنے کا سلیقہ بخشا۔ واقعۂ معراج بے شمار سبق آموز پہلوؤں اور عبرت خیز واقعات کا مجموعہ ہے۔
اس واقعۂ معراج کی روشنی میں ہمارے لئے موجودہ عالمی حالات میں بھی کئی ایک نصیحت آموز ہدایات ملتی ہیں جس کے ذریعہ گرد و پیش میں چھائے ہوئے تاریک ماحول اور ظلم و ستم کی اندھیری رات میں ہم چراغ ایمان کو فروزاں کرسکتے ہیں اور مایوسی و ناامیدی کی گھٹا ٹوپ تاریکی میں امید کی شمع روشن کرسکتے ہیں۔ اس کے لئے ہمیں واقعہ معراج کے پس منظر کو ذہنوں میں تازہ کرنا پڑے گا اور ان حالات کی چیرہ دستیوں کو دیکھنا ہوگا جس کے بعد یہ ایک عظیم الشان سفر کروایا گیا، آیئے ایک طائرانہ نظر ان حالات پر ڈالتے ہیں۔

معراج کا پس منظر
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب پیغام حق لے کر کھڑے ہوئے اور توحید کی دعوت دی، انسانوں کو اللہ کی طرف بلانے کا آغاز فرمایا تو آپ کے مخالفین اور دشمنوں کی پوری جماعت ہر وقت آپ کی ایذا رسانی میں رہی، جو کل تک آپ کو اپنا عزیز و محبوب سمجھتے تھے وہی آپ کی عداوت اور مخالفین میں پیش پیش رہنے لگے، مکہ میں طلوع ہونے والا سورج ہر دن ایک نئی مصیبت اور تکلیف لے کر آتا اور پیغمبر اسلام اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ماننے والے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا امتحان لیتا، ان مصیبت کی گھڑیوں میں اور ان آزمائشی حالات میں آپ کی حمایت کرنے والے اور آپ کے معاون آپ کے چچا ابوطالب تھے جو اپنے بھتیجے کو چاہتے بھی تھے اور اس کی نصرت و تائید میں ڈھال بنے ہوئے تھے، بیرونی زندگی میں چچا کی حمایت آپ کے لئے مضبوط سہارا تھا، اور اسی چچا کی رعایت اور ان کی عظمت کے پیش نظر دشمنوں کو کھلے عام آپ کو ستانے کی ہمت بھی نہیں ہوتی اور آپ کے مشن و دعوت میں رکاوٹ کا موقع نہ ملتا، دعوتی محنت سے بوجھل بدن اور انسانیت کی فلاح و بہبودی میں تڑپنے والا تھکا ہارا جسم لے کر جب آپ گھر تشریف لاتے تو آپ کی ہمت بڑھانے والی اور آپ کے حوصلوں کو تقویت پہنچانے والی آپ کی وفا شعار اہلیہ محترمہ ام المؤمنین حضرت خدیجۃ الکبری رضی اللہ عنہا تھیں جو ہر اعتبار سے اپنے شوہر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی دیتی۔ ان دونوں کے تعاون سے آپ اپنے مقصد میں لگے ہوئے تھے کہ سنہ ۱۰ نبوی میں آپ کے چچا ابوطالب کا انتقال ہوگیا اور کچھ دن بعد آپ کی غم گسار بیوی حضرت خدیجہ بھی دنیا سے چل بسی۔ (رحمۃ اللعالمین: ۱؍۹۲)
علامہ ابن ہشام لکھتے ہیں کہ: ایک ہی سام میں ام المومنین خدیجہ رضی اللہ عنہا اور آپ کے چچا ابوطالب کا انتقال ہوا اور ان دونوں کے انتقال سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو زیادہ تر مصائب اور تکالیف کا سامنا کرنا پڑا کیوں کہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا آپ کی سچی مددگار تھیں، ہر ایک بات آپ ان سے بیان فرماتے تھے اور ابوطالب آپ کے پشت پناہ اور مددگار تھے، جب ابوطالب کا انتقال ہوگیا تو قریش کو آپ کی ایذارسانی میں جرأت پیدا ہوئی جو پہلے میسر نہ تھی، یہاں تک کہ ایک خبیث نے راستہ میں رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے سرمبارک پر خاک ڈالی۔ (سیرت ابن ہشام: ۱؍۲۷۷ مترجم)
ان تکالیف دہ حالات میں اور مکہ والوں کے بے اعتنائیوں سے آپ نے طائف کا سفر کیا تا کہ وہاں کے لوگوں کو دین حنیف سے مانوس کیا جائے اور اسلام کی ٹھنڈی چھاؤں فراہم کی جائے، امید کی شمع دل میں روشن کئے اور شوق و جذبات کے ساتھ آپ نے طائف کے سفر کیا، لیکن یہاں پر بھی آپ کے ٹوٹے دل پر تیر و تلوار چلائے گئے، اور آپ کو جو اذیت دی گئی عاشق رسول، رئیس القلم حضرت مولانا مناظر احسن گیلانی رحمہ اللہ کی رقت انگیز تحریر میں ملاحظہ کیجئے کہ: آگ میں پھاندنے والوں کی جو کمریں پکڑ پکڑ کر گھسیٹ رہا تھا، وہی کمر کے بل گرایا جاتا تھا، پتھر مار مار کر گرایا جاتا تھا، گھٹنے چور ہوگئے، پنڈلیاں گھائل ہوگئیں، کپڑے لال ہوگئے، معصوم خون سے لال ہوگئے، نو عمر رفیق نے سڑک سے بے ہوشی کی حالت میں جس طرح بن پڑا اٹھایا، پانی کے کسی گڑھے کے کنارے لایا، جوتیاں اتارنی چاہیں تو خون کے گوندے تلوے کے ساتھ اس طرح چپک گئی تھیں کہ ان کا چھڑانا دشوار تھا۔ اور کیا کیا گذری، کہاں تک اس کی تفصیل کی جائے، خلاصہ یہ ہے کہ طائف میں وہ پیش آیا جو کبھی نہیں پیش آیا۔ (النبی الخاتم: ۵۰)

عروج و سربلندی کا آغاز
ان سخت مراحل سے گذرنے، ابتلاء و آزمائش کی کٹھن راہوں سے بڑھنے کے بعد اللہ تعالی نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو وہ عروج و بلندی عطا فرمانے کا فیصلہ فرمادیا جو کسی اور نبی کے حصے میں نہیں آئی، وہ عظیم الشان اعزاز اور بے مثال فضیلت بخشنے کا اعلان فرمایا کہ جس کا اب تک کوئی حق دار نہیں تھا، اور سب سے بڑھ کر ٹوٹے دل کو سہارا دینے، تنہا و یکتا تصور کرنے والے کو اپنی نصرت و معیت کا احساس دلانے اور سب سے بڑھ کر مخالفین کی ریشہ دوانیوں کا سدباب کرنے اور اسلام کے پیغام کو وسعت بخشنے کا یہ ایک تاریخی اعزاز ہے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ’’سفرِ معراج‘‘ کی شکل میں عطا کیا گیا۔ اس عظیم سفر کا مقصد بیان کرتے ہوئے حضرت مولانا ادریس کاندھلویؒ رقم طراز ہیں کہ: سنہ ۱۰ نبوی گذر گیا، ابتلاء و آزمائش کی سب منزلیں طے ہوچکیں، ذلت و رسوائی کی کوئی نوع ایسی نہ باقی رہی کہ جو خداوند ذوالجلال کی راہ میں نہ برداشت کی گئی ہو، اور ظاہر ہے کہ خدائے رب العزت کی راہ میں ذلت اور رسوائی سوائے عزت اور رفعت اور سوائے معراج اور ترقی کے کیا ہوسکتا ہے؟ چناں چہ جب شعب ابی طالب اور سفر طائف کی ذلت انتہاء کو پہنچ گئی تو خداوند ذوالجلال نے اسراء و معراج کی عزت سے سرفراز فرمادیا، اور آپ کو اس قدر اونچا کیا کہ افضل الملائکہ المقربین یعنی جبریل بھی پیچھے رہ گئے اور ایسے مقام تک رسائی کرائی جو کائنات کا منتہی ہے یعنی عرشِ عظیم تک جس کے بعد اب اور کوئی مقام نہیں۔ (سیرت المصطفی: ۱؍۲۸۸)
مفکر اسلام حضرت مولانا ابوالحسن علی ندویؒ فرماتے ہیں کہ: یہ اللہ تعالی کی طرف سے ایک ضیافت و عزت افزائی تھی، جو آپ کی دل داری و دل نوازی اور طائف کے ان زخموں کو مندمل کرنے اور توہین و ناقدری اور بے گانگی و بے وفائی کی تلافی کے لئے تھی جس کے سخت امتحان سے آپ وہاں گزرنے تھے۔ (نبی رحمت: ۱۸۹)

ناکامی کے بعد کامیابی
ایسی بھی کوئی شام نہیں ہے جس کی سحر نہ ہو اور ایسا بھی کوئی ظلم نہیں جو بڑھ کر ختم نہ ہوگیا ہو، عداوت و دشمنی کی بھی حد ہوتی ہے، مکر و فریب بھی ایک انتہا کو جا کر دم توڑ دیتا ہے، ناکامی کے منصوبے بنانے والوں کے منصوبے بھی خدائے حکیم کے سامنے چل نہیں سکتے، بدخواہی کے خواب دیکھنے والے اور برائی کی سازشیں کرنے والے بھی بوکھلاہٹ کا شکار ہوتے ہیں، چناں چہ اسلام کے چراغ کو بجھانے اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی راہ میں رکاوٹوں کو پیدا کرنے کی ہر ممکن کوشش کی گئی اور اپنی ایذا رسانیوں اور ظلم و زیادتیوں سے یہ سمجھ بیٹھے کہ اب گویا اسلام کی محنت اور اعلائے کلمۃ اللہ کی جد و جہد ختم ہوجائے گی، مصائب و مشکلات کے حوصلہ شکن حالات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے جاں نثار صحابہ رضی اللہ عنہم کے عزائم کو پست اور ان کی کوششوں کو روک دیں گے لیکن انہی ظاہری ناکامیوں سے اللہ تعالی نے ہمیشہ کی فتح مندی اور کامرانی کی شکلوں کو پیدا فرمایا، شعب ابی طالب کی اسیری، سفر طائف کی ناکامی اور مضبوط سہاروں کے اٹھ جانے کے غم و الم کو اللہ تعالی نے دور کرنے کا فیصلہ فرمادیا اور چوں کہ آپ خاتم النبیین بنا کر بھیجے گئے، آپ کا لایا ہوا پیغام دنیا کے ہر گوشے میں پھیلنا اور ہر خطے میں پہنچنا تھا۔ اللہ تعالی نے اس کا انتظام فرمایا اور پھر اسلام کی کامیابی کا دور شروع ہوا ہجرت مدینہ کا حکم ہوا، مدینے کے قبائل شوق و جذبات کے ساتھ حلقہ بگوش اسلام ہونے لگے فتوحات کے دروازے کھلے، اجنبیت اور تنہائی کے دن پورے ہوئے اور فداکاروں و جاں نثاروں کا ایک جم غفیر آپ کے اشارۂ ابرو پر سب کچھ لٹانے والا تیار ہوگیا۔

طلب مدد کا خدائی نسخہ
اس عظیم الشان سفر میں جو خاص تحفہ نماز کی شکل میں اللہ تعالی کی طرف سے عطا کیا گیا وہ دراصل ہر مشکل اور پریشانی کو دور کرنے، ہر زخم کو مندمل کرنے اور ہر غم و الم سے نجات پانے کا خدائی کا نسخہ ہے۔ جس نے ٹوٹے ہوؤں کو جوڑنے اور رب سے تعلق مضبوط کرنے کا آسان راستہ بتادیا، ناموافق حالات اور ناسازگار ماحول میں اللہ تعالی سے مدد طلب کرنے اور اس کی توجہات کو مبذول کرانے کے لئے نماز سے بڑھ کر کوئی ذریعہ نہیں ہے۔
خود قرآن مجید میں حکم دیا گیا کہ صبر اور نماز سے مدد طلب کرو۔ نماز بھاری ضرور معلوم ہوتی ہے، مگر ان لوگوں کو نہیں جو خشوع (یعنی دھیان اور عاجزی) سے پڑھتے ہیں۔ (البقرۃ: ۴۵)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جتنے احکامات دیئے گئے وہ تمام روئے زمین پر نازل ہوئے لیکن صرف وہ مہتمم بالشان عبادت ہے جسے اللہ تعالی نے اپنے پاس بلا کر عنایت فرمایا، گویا پریشان حال بندوں کے تعلق کی راہوں کو آسان کردیا۔ ڈاکٹر مصطفی السباعیؒ لکھتے ہیں کہ: اللہ تعالی نے معراج کی رات نماز کو فرض کر کے اس طرف اشارہ کردیا کہ: بندوں تمہارے نبی کا جسم و روح کے ساتھ معراج کرنا یہ ایک معجزہ ہے، لیکن تمہارے لئے ہر دن پانچ مرتبہ یہ سعادت ہے کہ تمہاری روح اور دل معراج کر کے میری طرف آتے ہیں۔ (السیرۃ النبویۃ دروس و عبر: ۵۹)

موجودہ حالات میں پیغام
اس وقت مسلمان دنیا کے چپے چپے میں ظلم و زیادتی کا شکار ہیں، عداوت و دشمنی کے تاریک ماحول میں پھنسے ہوئے ہیں، اور جان و مال، عزت و آبرو، اسباب و وسائل تمام پر دشمنوں کے قبضے میں ہیں، تذلیل و تحقیر کا دردانگیز سلوک کیا جارہا ہے، فلسطین کے معصوم بچے، بے قصور نوجوان، عفت مآب عورتیں، بوڑھے مرد سب ظلم کے شکنجوں میں جکڑے ہوئے ہیں، ملک شام میں خون مسلم کی ارزانی کا دردناک منظر ہے، ہنستے چہکتے گھروں کو ویران و قبرستان بنایا جارہا ہے، ۱۴؍لاکھ سے زائد بے گھر ہو کر نانِ شبینہ کے لئے تڑپ رہے ہیں، لاکھوں مسلمان مرد و عورت، جوان و بوڑھے قتل و خون کے سفاکانہ کھیل میں جام شہادت نوش کرچکے ہیں، ہندوستان کی سرزمین بھی مسلمانوں کے لئے نت نئے آفتوں کو پھیلانے کے درپے ہیں، نوجوانوں پر الزامات عائد کر کے ان کی زندگیوں کو اجیرن بنایا جارہا ہے، اسرائیل کی بڑھتی ہوئی یورش نے دنیا بھر کے مسلمانوں کے چین و سکون، آرام و راحت کو چھین لیا، اور پوری دنیا چند افراد کے اشاروں پر جہنم کدہ بنی ہوئی ہے اور خاص کر مسلم دنیا کے دائرہ کو تنگ کرنے، ان کے اختیارات کو سلب کرنے، ان کے تشخصات کو مٹانے، اور اسلامی شناخت کو مسخ کرنے کی منصوبہ بند سازشیں ہورہی ہیں، اور ایک عجیب و غریب ماحول پوری دنیا میں چھایا ہوا ہے، اور بظاہر یہ نظر آتا ہے کہ مسلمانوں کے وجود کو ختم کر کے ہی دم لیا جائے، اور ان کی عزتوں کو پامال کرکے ہی راحت کی جائے گی۔ لیکن واقعہ معراج ان جاں گسل حالات میں، اور ان حوصلہ شکن ماحول میں بھی امید و یقین کا پیغام دیتا ہے، اور سربلندی و عروج کی خدائی منصوبہ بندی کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ کیوں کہ جب ایمان والے دین حق پر استقامت کے ساتھ جمے رہیں گے اور حالات کا مقابلہ کرتے رہیں گے وہ پھر وہی خدائی قدرت پستیوں سے نکال کر سربلندیوں پر پہنچائے گی، جن کو ذلیل و حقیر سمجھا جاتا رہا ان کے سرعزت و وقار کا تاج رکھے گی، اور جن کو مٹانے کی کوششیں کی جاتی رہیں ان ہی کے وجود سے دنیا کے نقشے کو بدلے گی، ظلم کا خاتمہ ہوگا، ناانصافیوں کا دور ختم ہوگا، حقوق تلفی کا بازار سرد پڑے گا، قتل و خون کا میدان ٹھنڈا ہوگا، بقول فقیہ العصر حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب کے: معراج کا واقعہ مسلمانوں کی دلداری اور طمانیت کا سامان ہے کہ وہ مصیبت اور مایوس کن حالات کی وجہ سے حوصلہ نہ ہاریں، بلکہ اس طرح کے واقعات ان کے پائے استقامت کو مضبوط تر کرتا چلائے اور خدا پر ان کا یقین بڑھتا جائے کہ جیسے رات کی تاریکیوں سے صبح کو پوپھٹتی ہے، اسی طرح باطل کے غلبہ و ظہور کے بعد حق ایک نئی آب و تاب کے ساتھ دنیا کی ظلمتوں پر چھا جاتا ہے۔۔۔ (پیام سیرت: ۱۱۹) شرط یہی ہے کہ ایمان و یقین اور استقامت کے ساتھ دین متین پر قائم رہیں، اور شریعت و سنت کی تعلیمات پر دل و جان سے عمل پیراہوں تو ان شاء اللہ عروج و سربلندی خدائی وعدہ ضرور بالضرور اس دور میں بھی پورا ہو کر رہے گا۔
نورِ خدا ہے کفر کی حرکت پہ خندہ زن
پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں