حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم بطور منتظم

حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم بطور منتظم

ایک بہترین منتظم کے لیے درج ذیل صفات کا حامل ہونا ضروری ہے:
۱:…راست بازی ۲:…امانت داری ۳:…ایفائے عہد
۴:…عدل و انصاف ۵:…ثابت قدمی ۶:…پاکیزہ نظریات
۷:…رعایا کے حقوق سے بخوبی واقفیت۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان تمام خوبیوں سے نہ صرف متصف تھے، بلکہ ہر ایک خوبی کے درجۂ اتم تک پہنچے ہوئے تھے۔
اگرچہ مکی زندگی میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم مشکلات کا شکار رہے، لیکن اس کے باوجود ہمیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہاں ایک بہترین منتظم (Administrator) کی صورت میں نظر آتے ہیں۔ ذیل میں آپ k کے اُس دور کے حسنِ انتظام کی چند ایک جھلکیاں پیش کی جارہی ہیں:
۱:…آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کے ابتدائی برس، جن میں مسلمانوں کو بہت زیادہ تشدد کا نشانہ بنایا گیا (جیسے حضرت بلال حبشی رضی اللہ عنہ، حضرت عمار بن یاسررضی اللہ عنہ، حضرت صہیب رومی رضی اللہ عنہ وغیرہ)۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ترغیب سے مخیر حضرات نے ان حضرات کو ظلم و ستم سے نکالنے کی مقدور بھر کوشش کی اور جو غلام تھے، اُنہیں خرید کر آزاد کر دیا۔ گویا آپ کی نظر پہلے ہی مظلوم اور پسے ہوئے طبقہ پر تھی۔
۲:…دوسرے نمبر پرآپ k نے تالیفِ قلوب کی نیت سے کافر غرباء کو صدقہ و زکوۃ دینے کی ترغیب دی، تاکہ وہ لوگ مسلمانوں کے حسنِ سلوک سے متاثر ہو کر دائرۂ اسلام میں داخل ہو جائیں۔
۳:… تیسرے نمبر پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو تعلیم حاصل کرنے پر زور دیا، چنانچہ اس کے لیے حضرت زید بن ارقم صلی اللہ علیہ وسلم کا گھر بطور مدرسہ تجویز ہوا اور یہاں تعلیم پانے والوں کے ذمے لگا کہ جو لوگ یہاں نہیں آ سکتے، اُنہیں گھر جا کر دینِ اسلام کی تعلیم دو۔ آپa کے انہی شاگردوں کی کوششوں سے سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ، سیدنا عبدالرحمن بن عوفq اور سیدنا عثمان غنیq جیسے لوگ دائرۂ اسلام میں داخل ہوئے۔
۴:… مسلمانوں کی لاچاری کو دیکھتے ہوئے آپ a نے مسلمانوں کو وطن چھوڑنے کی ترغیب دی کہ شاید باہر جا کر حالات اُنہیں راس آ جائیں اور وہ لوگ کفار کے نرغے سے نکل کر آزادانہ زندگی بسر کر سکیں، چنانچہ آپa کی ترغیب پر نبوت کے پانچویں سال رجب میں بارہ مرد اور چار عورتیں حبشہ کی جانب ہجرت کر گئے۔ اس طرح انہیں کفار کے ظلم وستم سے نجات ملی اور جو لوگ حبشہ نہیں جا سکے تھے، آپ k ان کے بارے میں بہت فکر مند تھے۔ اُن کے لیے فوری طور پر ایک ایسے ٹھکانے کی ضرورت تھی، جہاں وہ آزادی سے اپنے دین پر عمل کر سکیں، اس کے لیے آپa نے اہل طائف سے مدد لینے کا سوچا، لیکن یہ ابدی سعادت اہلِ مدینہ منورہ کی قسمت میں لکھ دی گئی تھی۔
نبوت کے دسویں برس دو مدنی سرداروں اسعد بن زرارہ رضی اللہ عنہ اور ذکوان بن عبدقیس رضی اللہ عنہ کا قبولِ اسلام اہلِ ایمان کے لیے خوشگوار ہوا کا جھونکا ثابت ہوا۔ اہلِ مدینہ کے اصرار پر رسول اللہa نے دو سال بعد مسلمانوں کو مدینہ کی جانب ہجرت کا حکم فرمایا اور تیرہویں برس خود مدینہ منورہ تشریف لے گئے۔ یوں اسلام اور مسلمانوں کو دن دوگنی اور رات چوگنی ترقی نصیب ہو تی گئی، لیکن اس ترقی کے پیچھے ہمیں کوئی ایسا دماغ نظر آتا ہے جس کے حسنِ تدبیر نے ایسی کایا پلٹی کہ عربوں کا اوڑھنا بچھونا، سونا جاگنا، اُٹھنا بیٹھنا، امن و جنگ حتیٰ کہ سوچنے و بولنے کے انداز تک تبدیل ہوگئے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے وقت عرب میں ۸۶؍کے قریب قبائل آباد تھے، جن تک اسلام کی دعوت پہنچانا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اولین مطمحِ نظر تھا، لیکن اس کے لیے سب سے پہلے کچھ ایسا کرنا ضروری تھا جو ان حضرات کو اسلام کی جانب راغب کرتا۔ رسول اللہa نے اس کے لیے مندرجہ ذیل اقدامات کیے:
مدینہ منورہ آنے کے فوراً بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شہر کے آس پاس آباد قبائل سے معاہدہ کرنا اور ان میں صلح کروانا ضروری سمجھا، چنانچہ اوس ، خزرج اور یہود کو اکٹھا کر کے ایک میثاق لکھا گیا جس کا بنیادی مقصد، امن اور امدادِ باہمی تھا۔ نیز ایک دستور کی بنیاد رکھی جس کی۴۷؍ دفعات تھیں۔ ان دفعات پر عمل کروانا جوئے شیر لانے کے مترادف تھا، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ مشکل قلعہ بھی مسخر کر لیا۔ عرب کے بدوؤں کو قانون کا پابند بنانے کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بہترین طرزِ عمل اختیار کیا اور وہ تھا شخصیت کی تعمیر، کیونکہ جب تک معاشرے کے افراد متحداور نیک سیرت نہ ہوں، اس وقت تک نہ تو کوئی قانون پروان چڑھ سکتا ہے اور نہ ہی امن قائم ہو سکتا ہے، لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرد کی شخصیت و کردار کی تعمیر کی طرف توجہ دی، چنانچہ بیعت لیتے وقت پاکیزگی و نیک سیرتی کا وعدہ ضرور لیتے۔ نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مہاجرین و انصار کے مابین اُخوت کا رشتہ قائم کیا، جس سے نہ صرف ان کے مابین محبتیں بڑھیں، بلکہ ان کی معیشت بھی اُستوار ہوئی۔
وہ لوگ جنہیں لڑائی جھگڑے ، عشق لڑانے اور شعر و شاعری کرنے کے سوا کچھ نہیں آتا تھا،تہذیب سے شناسا ہو گئے۔ جانی دشمن ایثار و محبت کے پیکر بن گئے۔ جاہل اور ان پڑھ لوگوں میں علم کی شمعیں روشن ہو گئیں۔ ہر دم بتوں کا دم بھرنے والے توحید کے متوالے ہو گئے۔ لاقانونیت کے عادی لوگوں کی قانون دانی پر زمانہ رشک کرنے لگا۔ متکبر مزاج ، عاجزی و انکساری کے پیکر بن گئے اور اونٹوں کے چرواہے بادشاہی کے گُر سکھانے لگے۔
یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ دفاعی طور پرغیر مضبوط ریاستوں کی ترقی کی رفتار نہایت کم ہوتی ہے، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ریاستِ مدینہ کے دفاع کی طرف خصوصی توجہ دی اور ایسی جنگی پالیسیاں اختیار کیں کہ دشمن کو ہر مرتبہ منہ کی کھانی پڑی، مثلاً بدر و اُحد میں شہر سے باہر اور جنگ احزاب میں شہر کے اندر رہ کر اس انداز سے جنگیں لڑیں کہ دشمن کے چھکے چھوٹ گئے۔ نیز معلومات فراہم کرنے کا نظام اور دشمن میں پھوٹ ڈلوانے کا وہ نظام اختیار کیا کہ آج بھی بڑے بڑے سپہ سالار اس پر حیران نظر آتے ہیں۔
بطورِ سپہ سالار آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زیرِ کمان ۸۸؍ کے قریب جنگیں لڑی گئیں۔ یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حسنِ انتظام کے ہی کرشمے ہیں کہ ان اَٹھاسی جنگوں میں مسلمانوں کا اتنا کم نقصان ہوا کہ عقل تسلیم کرنے کو تیار ہی نہیں ہوتی، یعنی کل ۲۵۹مسلمان اور۱۰۱۸ کفار قتل ہوئے، جبکہ ۶۵۶۴ کفار قیدی بنائے گئے۔ اس کے بالمقابل جدید مغربیت کی خشتِ اول یعنی جنگِ عظیم اول کو ہی دیکھ لیا جائے تو اس میں ایک کروڑ لوگ قتل ہوئے۔
معیشت و تجارت کسی بھی ریاست کی ریڑھ کی ہڈی ہوتی ہے۔ عوام جتنی خوشحال ہوگی ، اتنی ہی آزادی سے اپنے مذہب و روایات اور تہذیب و ثقافت پرعمل کر سکے گی۔ ذیل میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور کی معیشت و تجارت پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔ کسی بھی ریاست کے حصولِ دولت کے درج ذیل ذرائع ہوتے ہیں: مالِ غنیمت، خراج، جزیہ، فَے، تجارت، کاشت کاری، محصول، عطیات اور صدقات و زکوٰۃ، وغیرہ۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ تو کسی پر ناجائز ٹیکس لگایا اور نہ ہی امراء کی دولت چھین چھین کر غرباء میں تقسیم کی، گویا نہ تو سرمایہ دارانہ نظام قائم کیا اور نہ ہی سوشلزم، بلکہ ایسا نظام مرتب کیا جس سے نہ صرف یہ کہ طبقۂ غرباء کی تالیفِ قلب ہوئی ،وہیں طبقۂ امراء کو بھی ریلیف ملا۔ آپa نے زکوٰۃ و صدقات اور عشر کا تصور دیا اور پھر اس نظام کو اس ترتیب سے منظم کیا کہ زکوٰۃ دینے والے کے لیے بھی ایک شرح مقرر کردی اور لینے والے کے لیے بھی۔ مالِ غنیمت میں ہر مسلمان کو حصہ دار بنایا اور جزیہ و خراج اور مالِ فے ریاست کی بھلائی کے لیے استعمال کیا۔ نیز تجارتی مسائل کے حل کے لیے بازار کے نگران مقرر کیے۔
مزے کی بات یہ ہے کہ اس دوران آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ذات یا قبیلے کے لیے کسی قسم کی کوئی جائیداد بنانا تو درکنار ایک ٹکڑا زمین بھی ترکہ میں نہیں چھوڑا۔ اس میں ان لوگوں کے لیے عبرت کا سامان ہے جو چند دنوں کی بادشاہی ملنے کے بعد کئی نسلوں تک اپنی اولاد کو کمانے سے بے نیاز کر دیتے ہیں۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جمہوری یا شاہانہ نظام کی بجائے شورائی نظام کو پسند فرمایا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شہری نظم و نسق کو دو حصوں میں تقسیم کیا: مرکزی اور صوبائی نظم و نسق۔
مرکز میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود بطور والیِ ریاست متمکن تھے، لیکن جب کبھی سفر کی ضرورت درپیش ہوتی تو اپنا کوئی نہ کوئی نائب مقرر کر کے جاتے، جن میں حضرت علی کرم اللہ وجہہٗ ، حضرت سعد بن عبادہؓ، حضرت سعد بن معاذؓ اور حضرت عبداللہ بن ام مکتوم رضی اللہ عنہ کے نام آتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کاتبین (سیکرٹریوں) کی تعداد برہان حلبیؒ کے مطابق ۴۲ ہے۔ اور سفراء کی تعداد ۳۸، کمشنروں کی ۱۴، اور شعراء کی تعداد سینکڑوں میں ہے، جن میں سیدنا حسان بن ثابتؓ، سیدنا کعب بن زہیرؓکے نام زیادہ مشہور ہیں۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں اسلامی ریاست شمال کی جانب زیادہ بڑھی۔ یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حکمت عملی تھی یا قدرتی امر کہ اسی طرف روم و ایران کی حکومتیں تھیں۔ اس میں ازد، یمن، حضرموت اور ہمدان جیسے صوبے تھے، جن پر مختلف اوقات میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب سے۳۸ کے قریب گورنر متعین تھے، جنہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن و سنت کے دائرے میں رہتے ہوئے وسیع اختیارات عطا فرما رکھے تھے۔ حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو یمن کا گورنر بناتے وقت نصیحت فرمائی کہ: ’’فیصلہ کرتے وقت قرآن و سنت اور اپنے اجتہاد کو مدنظر رکھنا۔ ‘‘
اس کے ساتھ ساتھ صوبہ میں۲۵ کے قریب مقامی منتظمین اور۱۲ عدد نقیب (خاندانی سربراہ) اور ۸ عدد قاضی متعین فرمائے، جو فیصلے کرنے میں پوری طرح آزاد تھے۔
نومسلموں کی تعلیم و تربیت کے لیے مذہبی اصلاحات بھی ضروری تھیں، چنانچہ اس مقصد کے لیے آپa نے چند ایک صحابہؓ اور ازواج مطہراتؓ کو بطور معلم مقرر کر رکھا تھا، جن میںمفتی، ائمہ مساجد،مؤذنین بھی تھے اور امورِ حج کے لیے عتاب بن اسید، سیدنا ابو بکر صدیق اور سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہما کو مقرر فرما یا تھا۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جرائم کے خاتمے کے لیے عوام و عمال دونوں کے لیے اصول وضع فرمائے، چنانچہ عوام سے فرمایا: ’’تم اپنے عاملوں کو عمل سے راضی رکھو، کیونکہ عادل امام کو قیامت کے روز اللہ تعالیٰ کا سایہ نصیب ہوگا۔ ‘‘ جبکہ عمال سے فرمایا کہ: ’’مظلوم کی بددعا سے بچنا ، کیونکہ ان کی دعا اور قبولیت میں کوئی چیز حارج نہیں ہوتی۔ ‘‘
اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ جرائم کی سطح حیرت انگیز حد تک کم ہو گئی،چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور حکومت میں قصاص کے محض ۲۷ واقعات رونما ہوئے۔ حدودکے۱۸، قذف۲، لعان۷، ظہار۲، شراب ۸، چوری کے۱۵ اور طلاق کے صرف دس واقعات پیش آئے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے متبعین کے لیے حجۃ الوداع کے موقع پر ایک جامع مانع خطبہ ارشاد فرمایا، جو آج سے ایک ہزار چار سو اٹھائیس سال پہلے کی طرح آج بھی مشعل راہ ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم جانتے تھے کہ اجتماعی زندگی کی بنیادیں تین ہیں: ۱:…جان ،۲:… مال اور ۳:…عزت، ان کا پاس کرنا جھگڑے مٹا سکتا ہے، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جاہلیت کی تمام رسمیں میرے قدموں کے نیچے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ لوگو! تمہارے خون، تمہارے مال، تمہاری آبروئیں قیامت تک کے لیے اسی عزت و حرمت کی مستحق ہیں جس طرح تم آج کے دن (یوم حج) ، اس مہینے (ذوالحجہ) اور اس شہر (مکہ) کی حرمت کرتے ہو۔ ‘‘
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسی حسن انتظام کو دیکھ کر مغربی مفکرین و مستشرقین دم بخود ہو کر داد دینے پر مجبور ہیں، چنانچہ موسیو اوجیل کلوفل کہتا ہے:
’’جب ہم اس پر غور کرتے ہیں، جس میں پیغمبر اسلام( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے اپنی نبوت و رسالت کا علم بلند کیا اور جس میں ایک ایسا کامل مجموعۂ قوانین تیار کیا گیا ہے جو دنیا کی ملکی، مذہبی اور تمدنی ہدایتوں کے لیے کافی ہے، تو ہم نہایت حیران ہوتے ہیں کہ ایک ایسا عظیم الشان ملکی اور تمدنی نظام جس کی بنیاد کامل اور سچی آزادی پر ہے، کس طرح قائم کیا گیا ہے۔ پس ہم دل سے اقرار کرتے ہیں کہ اسلام ایک ایسا مجموعۂ قوانین ہے جو ہر لحاظ سے بہتر ہے۔ ‘‘
جارج برناڈ شا لکھتا ہے:
’’موجودہ انسانی مصائب سے نجات ملنے کی واحد صورت یہی ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس دنیا کے ڈکٹیٹر (راہنما) بنیں۔ ‘‘
ریمنڈ لیروگ لکھتا ہے کہ:
’’نبی عربی( صلی اللہ علیہ وسلم ) اس معاشرتی اور بین الاقوامی انقلاب کے بانی ہیں، جس کا سراغ اس سے قبل تاریخ میں نہیں ملتا۔ انہوں نے ایک ایسی حکومت کی بنیاد رکھی جسے تمام کرۂ ارض پر پھیلنا تھا اور جس میں سوائے عدل اور احسان کے اور کسی قانون کو رائج نہیں ہونا تھا۔ ان کی تعلیم تمام انسانوں کی مساوات، باہمی تعاون اور عالمگیر اُخوت تھی۔ ‘‘
بانیِ انقلاب فرانس روسو لکھتا ہے:
’’حضرت محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) ایک صحیح دماغ رکھنے والے انسان اور بلند مرتبہ سیاسی مدبر تھے، انہوں نے جو سیاسی نظام قائم کیا وہ نہایت شاندار تھا۔ ‘‘
ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس قابل ہیں کہ دنیا ان کے پیغام کو سمجھے اور ان کے دیے ہوئے نظام کو قبول کرے، تاکہ ملکوں میں پھیلا فساد اپنی موت آپ مر جائے۔ آج دنیا اس نظام کی اسی طرح پیاسی ہے، جیسے آج سے ساڑھے چودہ سو سال قبل تھی۔


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں