ماہ محرم الحرام کے روزوں کی فضیلت

ماہ محرم الحرام کے روزوں کی فضیلت

«عن أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَفْضَلُ الصِّيَامِ بَعْدَ رَمَضَانَ شَهْرُ اللَّهِ الْمُحَرَّمُ» (مسلم شریف 1/368، رقم: 1163)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، کہتے ہیں کہ: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: رمضان کے روزوں کے بعد سب سے بہترین روزے اللہ کے مہینے محرم کے روزے ہیں۔

تشریح حدیث
مذکورہ حدیث شریف میں ماہ محرم کی عظمت و فضیلت بتلانے اور ظاہر کرنے کے لیے اس مہینہ کو اللہ کا مہینہ فرمایا گیا ہے، ورنہ تمام مہینے اور دن اللہ ہی کی مخلوق ہیں اور اسی کے حکم سے چلتے ہیں اور بعض دوسرے روزوں مثلاً ذی الحجہ، شوال و غیرہ کے روزوں کی فضیلتیں بھی اپنی جگہ ہیں، لیکن محرم کے روزوں کو جو خاص قسم کی فضیلت حاصل ہے اس قسم کی فضیلت رمضان کے بعد محرم کے علاوہ دوسرے روزوں کو حاصل نہیں، اس حدیث شریف میں محرم کے روزے سے صرف دسویں تاریخ یعنی عاشورا کا روزہ مراد نہیں؛ بلکہ محرم کے مہینے کے عام نفلی روزے مراد ہیں، لہذا اس مہینے میں کسی بھی دن روزہ رکھ لیا جائے تو ان شاء اللہ تعالی یہ فضیلت حاصل ہوجائے گی، یہی زیادہ صحیح اور راجح ہے۔ اور دس محرم کے روزے کی فضیلت اس کے علاوہ مستقل اور علیحدہ ہے؛ لیکن عاشورا بھی محرم کے ہی مہینہ میں داخل ہے، لہذا اس سے بھی یہ فضیلت حاصل ہوجائے گی۔
یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس قسم کی احادیث سے محرم کے روزوں کی رمضان کے بعد تمام مہینوں کے روزوں پر فضیلت معلوم ہوتی ہے؛ لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا محرم کے بجائے شعبان کے مہینے کے روزوں پر فضیلت معلوم ہوتی ہے؛ لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا محرم کے بجائے شعبان کے مہینے میں کثرت سے روزے رکھنے کا معمول تھا جیسا کہ حضرت عائشہ اور حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہما کی روایات سے پتہ چلتا ہے، اس کا جواب محدثین نے یہ دیا ہے کہ شاید نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو محرم میں بعض عوارض مثلاً سفر، بیماری و غیرہ کی وجہ سے زیادہ روزے رکھنے کا موقع نہ ملا ہو یا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو محرم کے روزوں کی اس درجہ فضیلت کا علم آپ کی حیات کے آخری دور میں دیا گیا ہو اور اس میں اللہ تعالی کی کوئی حکمت ہو، اور شعبان کے مہینے میں کثرت سے روزے رکھنے کی کئی وجہ ہوسکتی ہیں۔ مثلاً رمضان کا احترام اور تعظیم اور اس کی تیاری اور رمضان کا قرب اور اس کے خاص انوار و برکات سے مزید مناسبت پیدا کرنے کا شوق اور داعیہ اور اس کا استقبال اور شعبان کے ان روزوں کی وہی نسبت اور برکت ہوگی جو فرض نمازوں سے پہلے پڑھی جانے والی نوافل کو فرضوں سے ہوتی ہے۔ اور اس مہینے میں شب برأت اور اس کے فضائل کا پایا جانا و غیرہ بھی اس مہینے میں زیادہ روزے رکھنے کا باعث ہوسکتا ہے۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صحابی کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ: صبر یعنی رمضان کے مہینے کے روزے رکھو اور ہر مہینہ میں ایک دن کا روزہ رکھ لیا کرو۔ ان صحابی رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ: مجھے اس سے زیادہ کی طاقت ہے، لہذا میرے لئے اور اضافہ کردیجئے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: ہر مہینے میں دو دن روزہ رکھ لیا کرو۔ پھر اس صحابی نے عرض کیا کہ: میرے لئے اور اضافہ فرمادیجئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: ہر مہینہ میں تین دن روزہ رکھ لیا کرو۔ پھر اس صحابی نے عرض کیا کہ: میرے لئے اور اضافہ فرمادیجئے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: اشہر حرم ذی قعدہ، ذی الحجہ، محرم اور رجب کے مہینوں میں روزہ رکھو اور چھوڑو۔ یہ بات آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین مرتبہ ارشاد فرمائی، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی تین انگلیوں سے اشارہ فرمایا، ان کو ساتھ ملایا پھر چھوڑ دیا، یعنی ان مہینوں میں تین دن روزہ رکھو پھر تین دن ناغہ کرو، اور اسی طرح کرتے رہو۔ (ابوداؤد شریف)
حدیث شریف میں ان چار مہینوں کے اندر روزہ رکھنے کا جو طریقہ بتلایا گیا ہے، ضروری نہیں کہ ہر شخص اس طریقہ پر عمل کرے بلکہ جس طرح اور جتنے روزے کوئی رکھ سکتا ہے اجازت ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس صحابی کے لئے یہی طریقہ مناسب سمجھا تھا اس لئے ان کی شان اور حالت کے مطابق یہ طریقہ تجویز فرمایا۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ایک شخص نے معلوم کیا کہ ماہ رمضان کے بعد آپ کس مہینہ میں مجھے روزہ رکھنے کا حکم دیتے ہیں؟ تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے جواب میں فرمایا کہ: میں نے کسی کو اس بارے میں سوال کرتے ہوئے نہیں دیکھا، سوائے ایک شخص کے۔ جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک وقت یہ سوال کیا تھا جب کہ میں صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر تھا، اس آدمی نے سوال کیا تھا، کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! ماہ رمضان کے روزوں کے بعد مجھے کس مہینہ میں روزہ رکھنے کا حکم ہے؟ ارشاد عالی ہوا تھا: ماہ رمضان کے روزوں کے بعد اگر تم روزے رکھنا چاہتے ہو تو ماہ محرم کے روزوں رکھو، کیونکہ یہ اللہ کا وہ مہینہ ہے جس کے ایک دن اللہ نے ایک قوم (بنی اسرائیل) کی توبہ قبول کی اور اسی دن دوسرے لوگوں کی بھی توبہ قبول فرمائیں گے۔ (ترمذی شریف)
محرم کے مہینے میں روزوں کی فضیلت سے متعلق بعض دوسری روایات بھی ہیں، جن کو اہل علم نے سند کے اعتبار سے غیرمعمولی ضعیف قرار دیا ہے، مگر محرم کے روزوں کی فضیلت کا معاملہ ان روایات پر موقوف نہیں، کیونکہ محرم کا مہینہ عظمت و احترام والے مہینوں میں سے ہے، جن میں عبادت کی خاص فضیلت ہے اور روزہ بھی ایک اہم عبادت ہے، لہذا دوسری عبادات کے ساتھ ساتھ روزے کی عبادت کو بھی ان مہینوں کے احترام کی وجہ سے خاص اہمیت و فضیلت عطا کی گئی ہے۔ یہی وجہ ہے اکثر فقہائے کرام اشہر حرم یعنی ذی قعدہ، ذی الحجہ، محرم اور رجب کے مہینوں میں اور بطور خاص محرم کے مہینے میں نفلی روزوں کے حسب حیثیت اور وسعت مستحب ہونے کے قائل ہیں۔ اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ محرم الحرام کا مہینہ عظمت و فضیلت والے مہینوں میں سے ہے اور اللہ تعالی کی خاص تجلیات و انوار اس مہینہ میں نازل ہونے کی وجہ سے اس مہینہ کو خاص طور پر اللہ کا مہینہ فرمایا گیا ہے۔ لہذا اس مبارک مہینہ میں اللہ تعالی کی عبادت اور اطاعت بہت لگن اور توجہ کے ساتھ کرنی چاہئے تا کہ اس مبارک مہینہ کے تقاضے پورے ہونے کے ساتھ ساتھ اسلامی سال کی ابتداء سال کے باقی آنے والے مہینوں کے لیے نیک فال ثابت ہو۔
اللہ تعالی ہم سب کو ماہ محرم میں عبادت اور عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین

مولانا معاذ الدین صاحب قاسمی (استاد جامعہ احسن البنات مراد آباد)


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں