حاجی کے لیے عرفہ کے دن روزہ رکھنے کا حکم

حاجی کے لیے عرفہ کے دن روزہ رکھنے کا حکم

حماد صاحب نے اسلام آباد سے یوم عرفہ کے روزے کے بارے میں سوال کیا ہے کہ یومِ عرفہ کس کے اعتبار سے ہوگا،
مکۂ مکرمہ کے اعتبار سے یا جہاں لوگ رہتے ہیں وہاں کے اعتبار سے، نیز انہوں نے اُس دن کے روزے کے بارے میں بھی پوچھا ہے۔ امام ترمذی نے یوم عرفہ کے روزے کے بارے میں دو ابواب قائم فرمائے ہیں، پہلے باب میں غیرحاجی کے لیے یوم عرفہ کے روزے کی فضیلت پر اور دوسرے باب میں حاجی کے لیے یوم عرفہ کے روزے کی کراہت پر حدیثیں ذکر کی ہیں۔ علامہ بدرالدین عینی متوفی ۸۵۵ھ فرماتے ہیں:
تابعین و تبعِ تابعین اور ان کے بعد آنے والے اہل علم حضرات میں سے جمہور فقہاء و محدثین مثلاً: مسروق، ابراہیم نخعی، سفیان ثوری، امام اوزاعی، امام ابوحنیفہ، امام مالک، امام شافعی، امام احمد، امام ابویوسف اور امام محمد رحمہم اللہ تعالی کا مذہب یہ ہے کہ حاجی کے لیے عرفہ کے دن عرفات میں روزہ نہ رکھنا افضل ہے اور غیرحاجی کے لیے روزہ رکھنا افضل ہے۔ قاضی عیاض مالکی نے کہا: ’’اہل علم کی ایک جماعت کے نزدیک عرفہ کے دن حاجی کے لیے روزہ نہ رکھنا مستحب ہے اور یہ امام مالک، امام شافعی، اہل کوفہ اور اسلاف کی ایک جماعت کا مذہب ہے۔‘‘ (نُخَبُ الافکار، ج: ۸، ص: ۳۷۸)
اس کی وجہ یہ ہے کہ حج انتہائی دشوار اور مشقت سے بھرپور عبادت ہے، جس میں امور حج کی ادائی کے لیے حاجی کو ہجوم میں بہت زیادہ پیدل چلنا پڑتا ہے اور مختلف مناسک حج ادا کرتے ہوئے وہ شدید تھکاوٹ اور نقاہت میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ جبکہ وقوف عرفہ میں حاجی کی اصل عبادت یہ ہے کہ وہ اس وقت کو خوب ذکر و افکار، استغفار، گریہ و زاری ،انتہائی تضرّع اور عاجزی کے ساتھ دعاؤں میں گزارے، پس اگر حاجی روزہ سے ہوگا تو وہ اِن عبادات کو کما حقہ ادا نہیں کر پائے گا۔ وقوف عرفہ اور حج کے اصل مقصد میں کوتاہی اور نقص آجائے گا، اسی مصلحت شرعی کی بنا پر حاجی کے لیے روزہ نہ رکھنے کو افضل اور مستحب قرار دیا گیا ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے امت پر رحمت و رأفت کے پیش نظر روزہ نہیں رکھا، بلکہ منع فرمایا۔ (سنن ابوداؤد: ۲۴۴۰) تمام لوگوں کے سامنے آپ نے دودھ نوش فرما کر بتادیا کہ یہاں اس مقام پر حاجی کے لیے روزہ رکھنا مناسب نہیں۔ چونکہ خلفائے راشدین بھی امت کے رہبر اور پیشوا تھے اور لوگ ان کی اتباع اور اقتدا کرتے تھے، لہذا انہوں نے بھی اسی مصلحت کے پیش نظر اس دن روزہ رکھنے سے گریز کیا کہ لوگ انہیں دیکھ کر روزہ رکھنا شروع کردیں گے اور اپنے آپ کو مشقت اور دشواری میں ڈالیں گے۔
اگر کوئی حاجی جسمانی اعتبار سے صحت مند اور طاقتور ہو اور روزے کی وجہ سے اسے کمزوری محسوس نہ ہوتی ہو اور حج کی عبادات کی بجا آوری میں نقص اور کوتاہی کا بھی کوئی اندیشہ نہ ہو، تو اس کے لیے روزہ رکھنے میں کوئی حرج نہیں، بلکہ روزہ رکھنا افضل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بعض اسلاف سے اس دن روزہ رکھنے کی روایات بھی ہیں، چنانچہ حافظ ابن حجر فرماتے ہیں: ’’حضرت عبداللہ بن زبیر، حضرت اسامہ بن زید اور حضرت عائشہ (رضوان اللہ علیہم اجمعین) عرفہ کے دن عرفات میں روزے کی حالت میں ہوتے تھے اور حضرت حسن بصری اسے اچھا سمجھتے تھے اور وہ روایت کرتے ہیں کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ بھی اِسے پسند کرتے تھے۔‘‘ (فتح الباری، ج: ۴، ص: ۲۳۸) بعض اہل علم نے عرفہ کے دن حاجی کے لیے روزے کی کراہت کی ایک وجہ یہ بیان فرمائی ہے کہ یہ ان کے لیے عید کا دن ہے اور عید کے دن روزہ رکھنا ممنوع ہے۔ چنانچہ حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’یوم عرفہ، یوم النحر اور ایام تشریق ہم اہل اسلام کی عید اور کھانے پینے کے دن ہیں۔‘‘ (سنن نسائی، ۳۰۰۴، سنن ترمذی: ۷۷۳، سنن ابوداؤد: ۲۴۱۹)

عرفہ کا معنی اور عرفہ کے دن:
ذوالحجہ کی نویں تاریخ کو عرفہ کہتے ہیں اور جس جگہ حجاج کرام وقوف کرتے ہیں، اس جگہ کا نام بھی عرفہ ہے اور اسے عرفات بھی کہتے ہیں، اسے عرفہ کہنے کی وجہ بعض اہل علم نے یہ بیان فرمائی ہے کہ زمین پر اترنے کے بعد حضرت آدم و حواء علیہما السلام کی پہلی ملاقات اس مقام پر ہوئی تھی اور انہوں نے ایک دوسرے کو پہچانا تھا۔ دوسری وجہ یہ بیان کی گئی ہے کہ جب حضرت جبریل امین نے حضرت ابراہیم کو حج کا طریقہ سکھایا اور میدان عرفات میں ان سے پوچھا: ’’قَد عَرَفتَ (آپ نے جان لیا)‘‘، تو انہوں نے جواب دیا: ’’قد عرفتُ (میں جان لیا)‘‘، پس اسی وجہ سے اس میدان کا نام عرفہ پڑگیا، کیونکہ یہاں حضرت ابراہیم علیہ السلام کو حج کے رکن اعظم کی معرفت حاصل ہوئی تھی۔
راجح بات یہ ہے کہ اس مقام کو عرفہ اس لیے کہتے ہیں کہ زمین کا یہ حصہ اپنے گرد و پیش کے مقابلے میں بلندی پر واقع ہے اور اہل عرب کے ہاں بلندی پر واقع شے کو ’’عرفاء‘‘ کہتے ہیں، اسی سے قرآن مجید میں ’’الاعراف‘‘ آیا ہے جو کہ جنت اور جہنم کے درمیان ایک بلند مقام کا نام ہے۔ حضرت ابوقتادہ بیان کرتے ہیں: ’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یوم عرفہ کے روزے کے بارے میں مجھے اللہ کی ذات سے امید ہے کہ یہ گزشتہ سال اور آنے والے سال کے گناہوں کا کفارہ بنے گا۔‘‘ (سنن ترمذی: ۷۴۹)
یہاں ایک اشکال پیدا ہوتا ہے کہ گزشتہ سال کے گناہوں کا معاف ہونا تو سمجھ میں آتا ہے، لیکن اگلے سال کے گناہ تو ابھی سرزد ہوئے ہی نہیں، تو ان کی معافی کا کیا مطلب ہے، کیونکہ معافی کا موقع گناہ کے ارتکاب کے بعد آتا ہے۔ اس اشکال کا جواب یہ ہے: اگلے سال کے گناہوں کے معاف ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالی اسے اگلے سال گناہوں سے محفوظ فرماتا ہے، اس سے ہر حاجی اندازہ لگا سکتا ہے کہ آیا اس کا حج عنداللہ مقبول ہوا یا نہیں، یعنی حج کی قبولیت کا اثر آئندہ زندگی میں گناہوں سے اجتناب کی صورت میں ظاہر ہونا چاہیے۔ نماز کے بارے میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے: ’’اے نبی! آپ کی طرف جو کتاب وحی کی گئی ہے، اس کی تلاوت کیجیے اور نماز قائم کیجیے، بے شک نماز بے حیائی اور برائی سے روکتی ہے۔‘‘ (العنکبوت: ۴۳) اس کی تفسیر میں علامہ طبرسی نے حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ کا یہ قول نقل کیا ہے: ’’جو شخص یہ جاننا چاہے کہ آیا اس کی نماز بارگاہ الہی میں مقبول ہوئی ہے یا نہیں، تو وہ اپنا جائزہ لے کہ کیا اس کی نماز نے اسے بے حیائی اور برائی سے روکا ہے، سو جس قدر اس کی نماز نے اسے برائی سے روکا ہے، اسی قدر اس کی نماز قبول ہوئی ہے۔‘‘ (مجمع البیان، ج: ۷، ص: ۴۴۷) یا اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالی اُسے اس قدر اجر و ثواب عطا فرماتا ہے جو گزشتہ سال اور آنے والے سال کے گناہوں کے کفارہ کے لیے کفایت کرتا ہے۔
دنیا بھر میں طلوع اور غروب کے اوقات مختلف علاقوں کے اعتبار سے مختلف ہوتے ہیں، اسی حساب سے سحر و افطار کے اوقات کا فرق ہوتا ہے، اسی طرح سے ہر مقام کے اعتبار سے نمازوں کے اوقات کا تعین ہوتا ہے اور مختلف خطوں کے اعتبار سے قمری مہینوں کا آغاز ہوتا ہے، ہر شخص اپنے علاقے کے اوقات کے مطابق نماز پڑھتا ہے، رمضان کا آغاز اور اختتام کرتا ہے، شب قدر میں عبادت کرتا ہے، اسی طرح تمام عبادات کا حکم ہے۔
جس طرح پوری دنیا میں جمعہ ایک وقت میں نہیں ہوتا اور نہ ہی قدرت کے بنائے ہوئے نظام گردش لیل و نہار کی وجہ سے ایسا ہوسکتا ہے، مثلاً: پاکستان میں جب جمعے کا دن ہوتا ہے، تو امریکا میں رات ہوتی ہے۔ اللہ تعالی اپنے فضل و کرم سے کسی کو بھی محروم نہیں فرماتا، ہر ایک کے لیے جہاں ان کے اپنے وقت اور تاریخ کے مطابق وہ ساعت آئے گی، اس وقت وہاں پر اللہ کے جو بندے مصروف دعا ہوں گے، اللہ تعالی کی عطا سے انہیں قبولیت نصیب ہوگی۔ جو لوگ حج پر گئے ہوئے ہیں، ان کے لیے یوم عرفہ وہاں کے مطابق ہوگا اور جو دوردراز ممالک میں مقیم ہیں، اُن کے لیے یوم عرفہ ان کے اپنے جاری کیلنڈر کے مطابق ہوگا۔ مکہ والے وہاں کے مطابق عرفہ کا روزہ رکھیں گے اور دوسرے ممالک والے اپنے اپنے نظام الاوقات کے مطابق رکھیں گے اور اللہ تعالی شب قدر اور جمعۃ المبارک کی ساعت قبولیت کی طرح ہر عبادت گزار اور سائل کو نوازے گا، یہ وضاحت ہم نے اس لیے کی بعض لوگ اس کے بارے میں وقتاً فوقتاًسوال کرتے ہیں۔ اللہ تعالی کی عطا، اس کے کرم اور رحمت کو زمان و مکان میں محدود نہیں سمجھنا چاہیے۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے: (۱) ’’میرے رحمت ہر چیز پر وسیع ہے‘‘ (الاعراف: ۱۵۶)، (۲) ’’سنو! اس کی قدرت ہر چیز پر محیط ہے۔ (فصلت: ۵۴)‘‘ اور کوئی چاہے تو نو ذوالحجہ کے ساتھ سات اور آٹھ ذوالحجہ کے روزے بھی رکھ سکتا ہے۔


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں