اللہ کی امان میں

اللہ کی امان میں

اماں بی کے پاس کسی زمانے میں بہت سا سونا تھا۔ وہ زیورات اب انہوں نے اپنی اکلوتی پُت بہو بشریٰ کے سپرد کردیے تھے۔
انہوں نے بشریٰ سے کہا: ’’اس بھری دنیا میں میرے پوتے غلام مصطفی کے سوا میرا کون ہے؟ مدتوں سے یہ زیور اس کی دلہن کے لیے سنبھال رکھے تھے۔ اب تم آگئی ہو تو انہیں سنبھالو لیکن بیٹی خیال رکھنا سونے کا زیور گم ہوجائے تو ملتا نہیں۔۔۔‘‘
بشریٰ ان کی آخری بات پر حیران رہ گئی۔
’’ملتا کیوں نہیں اماں بی؟‘‘
’’وہ نیک بخت اور ہوں گے جنہیں گم ہونے یا کہیں گرجانے کے بعد دوبارہ ملا ہو۔ میری مہر کی یہ لمبی سونے کی زنجیر تھی جس میں جواہرات سے جڑا ایک لاکٹ اور اس کے ساتھ کے جڑاؤ بندے بھی تھے۔ ہماری گھر میں عید قربان کی چہل پہل تھی۔ میں نے بڑے چاؤ سے گلے میں ڈالا اور عید کی دعوت دینے پڑوسن کے ہاں چلی گئی۔ واپس لوٹی تو وہ ہار گلے میں نہ تھا۔ اللہ جنت نصیب کرے غلام مصطفی کے دادا نے کچرا تک کھنگال ڈالا۔ دیانت داری کا دور تھا۔ آس پڑوس کے سب گھروں میں بھی ڈھونڈا مگر وہ آج تک نہ مل سکا، خیر یہ تو آنی جانی چیز ہے۔‘‘ اماں بی نے افسوس سے کہا۔
’’پھر تو آپ بہت احتیاط کرتی ہوں گی۔‘‘
بشریٰ نے پوچھا۔
’’ایسی ویسی۔۔۔ مگر ہونی ہو کے رہتی ہے۔ ایک بار سسرالی رشتے داروں میں شادی تھی، میرے پاس سونے کے بہت خوبصورت کٹنگ والے گول گول ٹاپس تھے، میں پہن کر غسل خانے گئی۔ جب شادی میں شرکت کے لیے تیار ہوگئی تو میری ساس کہنے لگیں کہ ارے کیا ایک کان میں بندا پہن کر جاؤ گی؟ میں نے اپنے ٹٹولے تو ایک کان خالی تھا۔ میں الٹے قدموں غسل خانے کی طرف گئی مگر بُندے کا کہیں نام و نشان نہ تھا۔‘‘
اماں بی نے اسے دو چار مزید واقعات سنائے اور ساتھ ہی خاندان کی دوسری عورتوں کے بارے میں بھی بتایا جن کی سونے کی چوڑیاں اور چمپاکلی و غیرہ ایسا کھویا کہ پھر کبھی دیکھنا نصیب نہ ہوا۔
’’مجھے حیرت ہے اماں بھی زکوۃ دینے کے بعد ایسا کیونکر ہوسکتا ہے؟‘‘ بشریٰ نے اچنبھے سے کہا۔
’’زکوۃ!۔۔۔ وہ کیسے دیتے ہیں، ہم نے تو کبھی نہیں دی۔‘‘ اماں بی نے سادگی سے کہا تو بشریٰ کو لمحوں میں ساری وجہ سمجھ میں آگئی۔ ساتھ ہی اُسے دکھ بھی ہوا کہ اماں بی اور ان کی رشتے دار خواتین کی تمام عمر بیت گئی اور زکوۃ کے مسائل سے واقفیت نہ ہوسکی۔
’’یہی تو ساری وجہ تھی اماں بی! اگر زکوۃ صحیح طریقے سے ادا کی جاتی تو ایک کیل کی بھی مجال نہ تھی کہ گم ہوجائے یا کھونے کے بعد واپس نہ ملے۔‘‘
’’یہ کیا کہہ رہی ہو بہورانی؟‘‘
’’ابھی بھی وقت ہے، میں آہستہ آہستہ آپ کو سارے مسائل سمجھادوں گی پھر آپ نے اپنی تمام رشتے دار خواتین تک دین کے یہ احکام پہنچانے ہیں۔‘‘
بشریٰ نے ان کو زکوۃ کے مسائل و فضائل آہستہ آہستہ سکھانے شروع کیے تو بات ان کی سمجھ میں آگئی۔ زکوۃ ادا نہ کرنے والوں کے حق میں عذاب الہی کی وعید نے ان کے بوڑھے جسم کو لرزا کے رکھ دیا۔ وہ ڈھیر سارا زیور جس پر انہیں بڑا مان تھا، اژدھا بن کے ڈرانے لگا۔ بشریٰ نے بتایا تھا کہ بغیر زکوۃ کے سونا چاندی کو گرم کر کے پہلو داغے جائیں گے اور یہ خوشنما زیور اس دن بڑے بھیانک انداز میں کہے گا: ’’لو مزہ چکھو میں ہوں تیرا سونا میں ہوں تیرا مال جس کی تو زکوۃ نہ دیتا تھا۔‘‘
’’بہورانی اس سے چھٹکارے کی کوئی صورت بھی تو ہوگی۔‘‘
’’بالکل اماں بھی کیوں نہیں! اللہ اپنے بندوں پر بہت کرم کرنے والا ہے، جب سے یہ زیور آپ کی ملک میں آیا ہے تب سے اب تک ہر سال کی زکوۃ کا حساب لگانا ہوگا پھر آپ چاہیں تو یہ رقم اکٹھی زکوۃ کے مستحقین میں تقسیم کردیں یا تھوڑی تھوڑی کر کے گزشتہ کوتاہی پر استغفار کریں۔‘‘
’’میں تو آج ہی تہجد میں روٹھے رب کو مناؤں گی پھر یہ حساب کتاب مجھ سے نہ ہوگا۔ تم غلام مصطفی سے کہہ کر میرا یہ کام کرادو۔‘‘
اماں بھی کی معصومیت پر بشریٰ نے مسکراتے ہوئے اثبات میں سر ہلادیا۔
اب وہ باقاعدگی سے اپنی زکوۃ کے ساتھ اماں بی کے گزشتہ سالوں کی زکوۃ بھی ادا کرنے لگی۔ نماز روزے کی اماں بی شروع سے پابند تھیں۔ پانی کے جہاز کے ذریعے حج بھی کرچکی تھیں لہذا انہوں نے اپنے تہائی مال میں سے زکوۃ کی ادائی کی وصیت بھی کردی تھی۔
اماں بی سونے کے معاملے میں جتنی احتیاط پسند تھیں، بشریٰ ویسا اہتمام نہ کرتی تھی۔ اماں بی کی سرزنش پر کہتی: ’’آپ پریشان نہ ہوا کریں، جب سے میں نے زکوۃ کی ادائی کا معمول بنایا ہے میری تو بالوں میں لگانی والی پن بھی گم نہیں ہوئی۔‘‘
ایک دن بشریٰ کے میکے میں کوئی فوتگی ہوگئی، وہ تعزیت کے لیے گئی اور اس بات کو کئی روز بیت گئے جب ایک دن تلاوت کے دوران یونہی اس کا ہاتھ گلے میں رینگ گیا تو سونے کی چین غائب تھی۔ بشریٰ کو اماں بی کی وقتاً فوقتاً کی جانے والی نصیحتیں یاد آگئیں تو بد حواسی کے عالم میں قرآن مجید بند کر کے رکھا اور قدم آدم آئینے کے سامنے اچھی طرح گلے اور لباس کا معاینہ کیا۔ چین ہوتی تو نظر آتی، بشریٰ نے سارا گھر چھان مارا، ساتھ ساتھ ذہن پر زور دیا کچھ یاد نہ آیا کہ سونے کی چین کب سے گلے سے غائب ہے۔ اپنی لاپروائی پر خود کو کوستی ہوئی اماں بی کے کمرے کی جانب چل دی۔
’’بہورانی! پریشان ہونے کی ضرورت نہیں، جو لوگ زکوۃ کا اہتمام کرتے ہیں، اللہ تبارک و تعالی ان کے مال کی حفاظت فرماتا ہے، سکون سے تلاوت مکمل کرو، میرے رب نے چاہا تو سونے کی چین خود چل کر تمہارے پاس آئے گی۔‘‘
وہ تو متوقع ڈانٹ کے لیے خود کو تیار کر کے گئی تھی مگر اس کی سوچ کے برعکس پر یقین لہجے میں دی جانے والی تسلی نے اس کے اضطراب کو ختم کردیا۔ اسے اپنے آپ پر شرم بھی آئی کہ وہ یقین جو پہلے اس کے لہجے میں ہوا کرتا تھا، وہ اب اماں بی کے لہجے میں بول رہا تھا۔ کچھ دن اور گزر گئے۔ بشریٰ کا یقین متزلزل ہونے لگتا تو اماں بی مسکرانے لگتیں: ’’پہلی بار کوئی زیور کھویا ہے نا۔‘‘
اس دن بشریٰ کی والدہ اس سے ملنے آئیں۔ تھوڑی دیر بعد باتوں ہی باتوں میں انہیں سونے کی چین کی گمشدگی کی اطلاع دی تو انہوں نے اسے بڑی باتیں سنائیں۔
’’مانا کہ زکوۃ کا اہتمام ہے تو اس کا یہ مطلب تو نہیں کہ ایسی لاپروائی برتی جائے کہ یہ تک یاد نہیں کہ آخری بار چین گلے میں کب تھی؟۔۔۔ حد ہے بشری! پھر تو یوں کرو کہ حفاظت کی دعائیں پڑھ کر ہاتھ میں جلتا ہوا انگارہ تھام لو۔‘‘
اماں بی کی نرمی سے تسلی اور امی کی ڈانٹ۔۔۔ اسی وقت اس نے لاپروائی سے توبہ کرلی۔
’’بس اتنا یاد ہے کہ فردوسی خالہ کی فوتگی والے دن میرے گلے میں تھی۔‘‘ بشریٰ نے کہا۔
’’پھر تو اناللہ و انا الیہ راجعون پڑھ کر صبر کرو۔ دیکھا بھی تھا کہ جب تم آئی تھیں خواتین کا کس قدر ہجوم تھا۔‘‘
امی کی بات پر وہ لمحاتی اداس تو ہوئی لیکن مال و زر کی محبت دل میں اتنی زیادہ نہ تھی کہ اس کے معمولات متاثر ہوتے۔
کچھ ہی دن گزرے تھے کہ اس کی والدہ اپنے ہمراہ بشریٰ کی ممانی کو بھی لے آئیں۔ انہوں نے بہت محبت سے بشریٰ کی پیشانی پر بوسہ دیا پھر جب وہ چائے کے لوازمات لے کر لوٹی تو ممانی نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اپنے پاس بٹھالیا اور ہتھیلی کھول کر اس کی مٹھی میں کچھ تھمادیا۔ بشریٰ نے حیرانی سے اپنے ہاتھ میں دیکھا تو اس کی گم شدہ چین مع لاکٹ موجود تھی، ننھا سا ٹوٹا ہوا لاک بھی اس کے ہاتھ میں تھا۔
’’یہ۔۔۔ یہ آپ کو کہاں سے ملی؟‘‘
بشریٰ نے بے اختیار الحمدللہ کہتے ہوئے پوچھا۔
’’جس دن تم میت میں آئی تھیں خواتین کا ہجوم اس قدر تھا کہ تل دھرنے کو جگہ نہ تھی۔ میری بیٹی زرفشاں کو کہیں جگہ نہ ملی تو وہ کچھ میں چلی گئی جہاں اسے زمین پر کوئی چیز چمکتی ہوئی دکھائی دی۔ اس نے اٹھایا کہ مبادا بچے ادھر ادھر کردیں اور مجھے لاکے دے دی۔ میں نے یونہی تمہارے ماموں کو دے دی۔ ہم سمجھے مصنوعی ہے، گھر میں بی بے احتیاطی سے ایک دراز میں رکھی تھی۔ وہ تو اتفاق سے تمہاری اماں یہ ذکر لے بیٹھیں تو میرے کان کھڑے ہوگئے۔ میں نے جلدی سے دراز ٹٹولی، الحمدللہ یہ جوں کی توں موجود تھی، یہاں تک کہ یہ چھوٹا سا ٹوٹا ہوا سونے کا لاک بھی، اب جو غور سے دیکھا تو معلوم ہوا کہ یہ تو بہت قیمتی سونے کی ہے، لاکر آپا کو دکھائی تو وہ فوراً پہنچان گئیں۔‘‘
ممانی نے تفصیل سانئی، اماں بی موجود تھیں، کہنے لگیں: ’’بہورانی! ہم نے کہا تھا کہ چین خود چل کر تمہارے پاس آئے گی۔‘‘
بشریٰ نے ان کے گلے میں با نہیں ڈال کر کہا:
’’بے شک اماں جی آپ نے مجھ سے ہی زکوۃ کے فضائل سنے لیکن یقین میں مجھ سے آگئے بڑھ گئیں۔‘‘
’’اماں بی! اس کی باتوں میں نہ آیا کریں، لاپروائی پر خوب کان مروڑا کریں۔‘‘
بشریٰ کی امی نے کہا تو سب مسکرادیے۔
اس واقعے نے بشریٰ کے دل میں اللہ تبارک و تعالی کی ذات پر یقین و اعتماد مزید بڑھادیا۔ اس کے بعد کافی عرصے تک بشریٰ کی کوئی چیز نہ کھوئی۔ ایک دن سو کر اٹھی اور وضو کیا تو کچھ عجید سا محسوس ہوا مگر سمجھ میں نہ آیا کہ وجہ کیا ہے پھر حسبِ معمول اماں بی کو ناشتہ دیا تو وہ بغور اس کی طرف دیکھنے لگیں۔
’’اری دلہن! یہ لونگ کیاں اتاردی؟ کیسا ویران سا چہرہ لگ رہا ہے ناک کی لونگ کے بغیر۔‘‘
’’ہائیں۔۔۔!‘‘ بشریٰ کا ہاتھ بے اختیار ناک پر گیا۔
’’وہ تو کہیں گر گئی شاید۔۔۔ میں نے اتاری تو نہ تھی۔‘‘ بشریٰ نے حیرت سے کہا۔ اس نے لاپروائی چھوڑ دی تھی، ضروری احتیاط کرتی تھی کہ پہلے چند دن کی پریشانی کی صورت تنبیہ ہوئی تھی۔۔۔ مگر اس بار وہ پہلے کے مقابلے میں بہت پر سکون تھی۔ ’’جانے دیجیے چین والا واقعہ یا د نہیں۔۔۔ ابھی مل جائے گی۔‘‘
’’پھر بھی ڈھونڈ کے دیکھو چہرہ پر رونق ہی نہیں آرہی تمہارے۔‘‘ اماں بی نے کہا تو اس نے انہی کے کمرے میں ادھر ادھر نظریں دوڑائیں پر کچھ نہ ملا۔ اماں بی بھی ناشتے سے فارغ ہو کر اس کے ساتھ دیکھنے لگیں۔
’’اوہ۔۔۔‘‘ اچانک ان کے منہ سے نکلا۔ پاؤں میں کچھ چبھا تھا۔ بشریٰ نے جھک کر دیکھا تو وہ لونگ کا باریک سا لاک تھا، اس نے اٹھالیا۔ ’’یہ دیکھیے! اب اوپر کانگ والا حصہ بھی مل جائے گا آپ پریشان نہ ہوں۔۔۔‘‘
بشریٰ وہ اٹھا کر اپنے کمرے کی جانب بڑھ گئی کہ کمرے میں داخل ہوتے ہی ٹھوکر سے ایک ڈبہ آگے کولڑھک گیا، بشریٰ ڈبے کے قریب پہنچی تا کہ جھک کر اٹھالے تو وہیں چکمدار رنگ والی لونگ نے اس کی توجہ کھینچ لی۔ وہ خوشی سے الٹے قدموں اماں بی کے پاس انہیں لونگ دکھانے گئی۔
بشریٰ کے واقعات حقیقت پر مبنی ہیں۔ آپ کو یقین نہ آئے تو اللہ کے اس پیارے حکم ’’زکوۃ‘‘ کی خلوص دل سے ادائی کیجیے اور اپنے رب کی رحمتوں اور برکتوں سے لطف اندوز ہو کے دیکھیے۔


آپ کی رائے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

مزید دیکهیں